دنیا میں ہر دن کئی لوگ پیدا ہوتے ہیں اور
کئی لوگ مرتے ہیں۔ ہر کوئی ایک مقررہ وقت کے لیے آتا ہے اور پھر چلا جاتا
ہے۔ لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں، جن کا واپس چلے جانا ایک المیے سے کم
نہیں ہوتا۔ ان کے جانے سے ہمارے زندگیوں میں ایک ایسا خلاء پیدا ہوجاتا ہے
جو کبھی پُر نہیں ہو سکتا۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے :۔
بچھڑے کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
ایک شخص سارے جہاں کو ویران کر گیا
موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ہر چیز نے فنا ہوجانا ہے۔ عظیم لوگ نہیں مرتے ،اگرچہ
ہماری نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں،لیکن ان کی یاد ہمیشہ دلوں میں زندہ رہتی
ہے۔ عظیم لوگوں میں ایسی عظیم خوبیاں ہوتی ہیں جنہیں اگر فراموش کرنے کی
کوشش بھی کی جائے تو انسان کامیاب نہیں ہوتا۔ایسے عظیم لوگ ہی ہیں جن کے
بغیر تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی ۔تاریخ ان لوگوں کو کبھی فراموش نہیں کرسکتی
جو اپنی پوری زندگی کسی عظیم مقصد کے لیے صرف کر دیتے ہیں۔جب خطہ کشمیر کی
تاریخ میں اُن عظیم لوگوں کا ذکر آتا ہے جنہوں نے اس خطے کی آزادی کے لیے
بے شمار قربانیاں دی،تو ان عظیم لوگوں میں غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان
کی شخصیت کا ایک نمایاں مقام نظر آتا ہے۔دلوں پر حکمرانی کرنا،سچی اور کھری
بات کہنا،سچی بات پر ڈٹ جانا، صبرآزما جدوجہد کرنا، دیانت و امانت کی
پاسداری کرنااوروقت کی پابندی کا خیال رکھناایک عظیم شخصیت کے ہی اوصاف
حمیدہ ہوسکتے ہیں۔جس کا اعتراف نا صرف ان کے اپنے چاہنے والے کرتے ہیں بلکہ
ان کے دشمن بھی کرتے ہیں۔
غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان ۲۲ اپریل ۱۹۱۵ کو آزادکشمیر کی حسین وادی
جسے وادی پرل کے نام سے جانا جاتا ہے کہ گاؤں ہورنہ میرہ کے ایک متوسط
گھرانے میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد سردار محمد عالم خان ایک زمیندار تھے۔آپ
آٹھ بہن بھائی تھے۔جن میں سردار صاحب ساتواں نمبر پر تھے۔ ان کی ابتدائی
پرو رش گاؤں کے ایک عام بچے کی طرح ہوئی۔ اس زمانے میں لوگ صرف بڑی بڑی
ضرورتیں بہت مشکل سے پوری کرتے تھے، اس لیے تعلیم کا کوئی خاص رواج نہیں
تھا۔سردار صاحب کے والد خودپڑھے لکھے انسان نہیں تھے لیکن انھیں اپنے بچوں
کو تعلیم دلوانے کا بے حد شوق تھا۔ سردار صاحب نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے
گاؤں ہورنہ میرہ سے ہی حاصل کی۔جہاں آپ چار میل دور پیدل سفر کرکے جاتے
تھے۔ پرائمری کے امتحان میں نمایاں پوزیشن حاصل کی اور حکومت وقت سے دو
روپے وظیفہ حاصل کیا۔میٹرک کا امتحان آپ نے سٹیٹ جوبلی ہائی سکول پونچھ سے
۱۹۳۲ء میں پاس کیا۔ مزید تعلیم کے حصول کے لیے ۱۹۳۳ء میں آپ نے گورنمنٹ
اسلامیہ کالج لاہور میں داخلہ لیااور ۱۹۳۷ء میں آپ نے گریجویشن کی۔ آپ نے
دیکھا کہ آپ کا وطن جنت النظیر ڈوگرہ سامراج کی غلامی میں جکڑا ہوا ہے۔آپ
نے قانون کی اعلی تعلیم کے حصول کی خاطر۱۹۳۸ء انگلستان کا رخت سفر باندھا۔
نامساعد حالات اور محدودوسائل کے پیش نظراِن دِنوں اس کا تصور کرنا بھی
مشکل تھا۔ لیکن آپ کے سامنے جو مشن تھااس کی تکمیل کی خاطر یہ دشواریاں سد
راہ نہ بن سکی۔چنانچہ آ پ نے لندن یونیورسٹی کالج سے ایل ایل بی اور لنکن
اِن سے بارایٹ لاء کی امتیازی ڈگریاں حاصل کی۔اس طرح آپ نے پہلا کشمیری
بیرسٹر ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ ۱۹۴۱ء میں آپ وطن واپس تشریف لائے اور
ملازمت کی تگ ودوشروع کی۔لیکن انھیں ملازمت نہیں ملی توانھوں نے کشمیر کے
دارلحکومت سری نگر جاکر پریکٹس شروع کی۔ اسی سال مہاراجہ ہری سنگھ نے ان کی
قابلیت سے متاثر ہو کر انھیں حکومت کی طرف سے پبلک پراسیکیوٹر مقرر کیا۔ان
کی شاندار کارکردگی کے باعث انھیں اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل کے عہدے پر فائز
کیا ۔اسی دوران ریاست جموں وکشمیر میں مہاراجہ کے ظلم وستم کے خلاف تحریک
عروج پر تھی۔ بلاشبہ اسوقت ایک مسلمان کیلئے ایک بڑا اعزاز اور آپ کے
تابناک مستقبل کا نوید تھا ۔ لیکن آپ کے پیش نظر ذاتی تابناک مستقبل کے
بجائے قومی آزادی کا جذبہ موجذن تھا۔سردار صاحب نے ۱۹۴۶ء میں اپنے عہدے سے
استعفی دے کر جنگ آزادی میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔بابائے پونچھ کرنل خان
محمد خان اُس وقت مہاراجہ کی اسمبلی میں ممبر تھے ۔اُن کی ایما پر
سردارصاحب نے عملی سیاست میں قدم رکھا اور خان صاحب خالی کی ہوئی نشست پر
راولاکوٹ باغ اور وسدھنوتی کی نشست پر سرادر صاحب ممبر اسمبلی منتخب ہوئے ،
جب 3ب جون 1947کو برصغیر کی تقسیم کا اعلان ہو ا تو سردار صاحب نے 19
جولائی 1947 کو سری نگر آبی گزر گا ہ جو سردار صاحب کی رہائش گاہ تھی میں
مسلم کانفرنس کا اجلاس طلب کر کے ااس میں الحاق پاکستان کی قرارداد منظور
کی جس کے نتیجے میں مہاراجہ کے خلاف بھرپور تحریک شروع ہوئی. سری نگر سے
سردار صاحب کی گرفتاری کے احکامات جاری ہوئے ۔ سردار صاحب اپنے بیوی بچے کو
چھوڑ کر ایک دوست کی مدد سے خفیہ طور پر سے نگر سے نکلنے میں کامیاب ہوئے
اور مری پہنچ کر اپنے علاقے کے سابق فوجیوں کی میٹنگ بلائی اور مستقبل کی
حکمت عملی تیار کی جسے سپریم وار کونسل کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جس کے
نتیجے میں سردارصا حب کی قیادت میں تقریبا5000 ہزار مربع میل آزادکشمیر اور
28000 مربع میل گلگت بلتستان کا علاقہ آزاد ہوا ۔24 اکتوبر 1947 کو سردار
صاحب انقلابی حکومت کے بانی صدر منتخب ہوئے۔
۔1948 میں ڈیفنس کونسل آف پاکستان نے سردار صاحب کے سنہری کارناموں کی
بدولت آپ کوــ" غازی ملت" کے خطاب سے نوازا ۔سردار صاحب کو یہ منفرد اعزاز
حاصل ہے کہ آپ کشمیر کے پہلے بیرسٹر ،۳۲سال کی عمر میں اقوام عالم کے پہلے
نو عمر ترین صدر ِ ریاست اور۸۵سال کے عمر میں معمر ترین صدر بنے ۔اقوام
متحدہ میں 1948 میں مسلہ کشمیر سکیورٹی کونسل میں بھر پور انداز میں اٹھانے
کا سہرا سردار صاحب کے سر ہے۔ سلامتی کونسل میں آپ نے مسئلہ کشمیر کو اس
زور دار انداز میں پیش کہ شیخ عبداﷲ مرحوم جو ہندستان کی طرف سے نمائندگی
کیلئے گئے تھے لاجواب ہو کر بھاگنے پر مجبور ہوگئے ۔ غازی ملت اور تحریک
آزادی کشمیر لازم و ملزوم ہیں اگر غازی ملت کی ذات کو آج بھی الگ کردی
اجائے تو مسئلہ کشمیر ختم ہو جاتا ہے اپنی آخری سانس تک غازی ملت کشمیر کی
آزادی کیلئے کوشاں رہے اور ان کی سب سے بڑی تمنا آخر تک یہی رہی کہ کشمیر
کے بقیہ حصے کو آزاد کشمیر کراکے پاکستان کے ساتھ کشمیر کا الحاق کرواسکیں
کاش کہ ذاتی اغراض مصلحتیں اور ناموافق حالات نے غازی ملت کے اس مشن کو
پایہ تکمیل تک نہیں پہنچے دیا ۔
انھوں نے تین کتابیں بھی لکھی جو کشمیر ساگا(اردو،انگلش)،متاع زندگی(اردو)
اور کشمیر کی جنگ آزادی(اردو) کے نام سے مشہور ہیں۔
سردار صاحب نے لوگوں کو ووٹ کے ذریعے حکومت بنانے کا حق دینے میں اہم کردار
ادا کیا ۔ غازی ملت نے ساری زندگی صاف ستھری اور باوقار سیاست کے علم
برادار رہے۔ کھبی بھی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا ۔آ پ چاردفعہ
بالترتیب۲۴اکتوبر۱۹۴۷۔۳۰ مئی۱۹۵۰ ، ۱۳اپریل۱۹۵۷۔۲۷ اپریل۱۹۵۹،
۵جون۱۹۷۵۔۳۰اکتوبر۱۹۷۸ اور ۲۶ اگست۱۹۹۶۔۲۵اگست۲۰۰۱ صدر کے عہدے پر فائز
ہوئے۔آپ لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو ، بینظر بھٹو اور نواز شریف کے
دور میں ریاست کے سربراہ رہے ،آمروں میں ایوب خان ، ضیاء الحق اور پرویز
مشرف کے دور حکمرانی میں انکھوں میں انکھیں ڈال کر برابری کی بنیاد پر بات
کرتے رہے اور کھبی ریاستی تشخص کو پامال نہیں ہونے دیا ۔ سیاسی زندگی میں
متعددبار جیل بھی گئے ۔lلیکن کھبی ذاتی مفاد حاصل نہیں کیا۔اُن کے پوری
زندگی بااصول صاف شفاف اور دیانتداری کا مرقع رہی ہے ،اس کا اعتراف مخالفین
بھی کرتے ہیں۔ غازی ملت ایک باصول ، بلند کردار ، باصلاحیت ، خوب میرٹ و
خوبصورت ، خوش نوش و ضعدار ذہین و فطین بیدار معز صاف گو حقیقت پسند خوش
گفتار و خوش اطوار نڈر و بے بیاک پروقار سیاستدار وشخصیت کانام ہے ۔ جو
تاریخ آزادی کا ایسا منفرد ہیرو ہے جس کو اپنے بیگانے بچے نوجوان بوڑھے مرد
و خواتین تعلیم یافتہ اور ان پڑھ سب ہی عزت واحترام محبت و عقیدت سے یاد
کرتے ہیں ۔ بزلہ سیخ ایسے کہ صرف ایک جملہ میں بڑی بڑی مصنوعی شخصیات کو
حقیقت کا آئینہ دکھا کر زمین بوس کردیئے ۔
بقول اقبال
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
ریاست جموں کشمیر کا یہ عظیم رہنما 31 جولائی 2003 کو دنیا فانی سے کو چ کر
گیا ۔اس کے ساتھ ہی تاریخ کا ایک درخشاں باب اپنے انجام کو پہنچا ۔ آج ان
کی تیرویں برسی نہایت ہی ادب و احترام سے منائی جارہی ہے ۔ اس موقع پر
مختلف پروگرامات کا انعقاد کیاجارہا ہے ۔ اخبارات و رسائل میں خصوصی اشاعت
کا اہتمام کیا گیا ہے اس دن کو منانے کا مقصد غازی ملت جیسے ہیرو کو خراج
تحسین پیش کرنا ہے اور اپنی آنے والی نسلوں کو اپنے آباؤاجداد کی دی گئی
لازوال روشاس کروانا ہے ۔حکومت کی طرف سے اس دن سرکاری تعطیل کا اعلان بھی
کیا گیا ہے،سردار عتیق احمد خان صاحب نے اپنے دور حکومت میں یہ اعلان کیا
تھا کہ غازی ملت کی تصویر کو تمام سرکاری دفاتر میں آویزاں کیا جائے گا
لیکن اس پر پوری طرح سے عمل نہیں کیا گیااور نہ ہی کسی نصاب میں ان کے
حوالے سے کوئی مضمون دیا گیا ہے تاکہ ہمارے بچے بھی اپنے اسلاف کے کارناموں
کے بارے میں جان سکیں۔انہیں خراج عقید ت پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے ۔
انہوں نے اپنی نجی زندگی میں دوران سیاست میں جو اصول اپنائے ان کو اپنا
شعار بنایا جائے ۔
جس طرح غازی ملت اور ان کے ساتھیوں نے بے سرو سامانی کے عالم میں جذبہ
ایمانی سے دلیرانہ فیصلہ کرکے مہاراجہ اور ہندو افواج کو شکست دی اپنی
نواجوان نسل کو ویسے ہی جذبہ ایمانی سے سرشار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم بھی
ایسے فیصلہ کرنے کی جرات دکھائیں ۔ |