گزشتہ کل شہر قائد کراچی میں دہشت گردوں کی
جانب سے صدر میں پارکنگ پلازہ کے قریب گشت پر مامور پاک فوج کی گاڑی پر
فائرنگ کی گئی ، جس کے نتیجے میں دو فوجی اہلکار وں نے جام شہادت نوش کیا ۔فائرنگ
کے بعد لوگوں میں بھگدڑ مچ گئی اور علاقے کو مکمل طور پر سیل کردیا گیا ۔شہید
ہونے والے اہلکاروں میں ایک لانس نائیک عبد الرزاق اور دوسرے اہل کار خادم
حسین شامل ہیں ۔
اس میں شک نہیں کہ کراچی میں جب سے رینجرز کے اختیارات میں کمی لائی گئی ،
ان کے دائرۂ کار کو محدود کیا گیا ، ان کی مدت قیام میں عدم توسیع سے کام
لیا گیا اور اس معاملے کو روایتی سیاست کی بھینٹ چڑھایا گیا تب سے اسلام
دشمن عناصر( امریکہ ، اسرائیل ، بھارت اور ایران وغیرہ) کو اپنا نیٹ ورک
مضبوط کرنے کا اور زیادہ موقع مل گیا اور شہر قائد میں انہوں نے اس سنہری
موقع سے بر وقت فائدہ اٹھا کر اپنی مکروہ اور گھناؤنی کارروائیاں مزید تیز
کردی ہیں ۔ چنانچہ حالیہ رینجرز اہلکاروں پر دہشت گردوں کی فائرنگ کا یہ
گھناؤنا واقعہ ہمارے اسی انکشاف کی عکاسی کرتا ہے۔
سندھ میں سیاسی تبدیلی کے تناظر میں دہشت گردی کی اس بزدلانہ واردات کے
مقاصد کا تعین کرنے کے لئے ماہرین کو اس بات کا بھی جائزہ لینا چاہیے کہ
شہر قائد کراچی میں گزشتہ 8 ماہ کے دوران حساس اداروں کے 7نوجوان
اہلکاردہشت گردوں کا نشانہ بن کر دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں ۔ جب کہ
حال ہی میں سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے مغوی بیٹے کی بازیابی میں
سیکیورٹی فورسز کی کامیابی کے سیاق و سباق میں شہر قائد کو ایک بار پھر سے
بد امنی اور ٹارگٹ کلنگ کا فوکل پوائنٹ بنانا ایک سنگین دہشت گردانہ ہدف ہے
۔
شہر قائد کراچی میں صدر کا علاقہ اس کا تجارتی قلب کہلاتا ہے۔ اس علاقے میں
پارکنگ ایریا گزشتہ کئی برسوں سے ٹریفک جام کا شکار ہے ، جہاں پتھروں کی
کثرت ، گندگی کا تعفن ، ماحولیات کی گھٹن اور بے قابو انبوہ کثیر دکھلائی
دیتے ہیں ۔اس پارکنگ ایریا کے جس موڑ پر یہ واردات ہوئی ہے وہ ایک تنگ سی
جگہ بن جاتی ہے جس کی اس ٹرن کی ماسٹر پلان میں کہیں بھی گنجائش نہیں رکھی
گئی ۔
ہم سمجھتے ہیں کہ یہ واقعہ صریح ٹارگٹ کلنگ ہے، جو باقاعدہ طور پر ایک سوچی
سمجھی سازش کے تحت پیش آیا۔چنانچہ آپ اندازہ لگایئے کہ جس جگہ یہ واقعہ
ظہور پذیر ہوا اس جگہ ایک مخصوص وقت کے لئے C.C.T.V کیمرے Off کرکے دوبارہ
On کیے گئے ہیں جس کا بجا طور پر واضح مقصد سوائے دہشت گردوں کی شناخت نہ
ہونے کے اور کچھ بھی نہیں ہے۔
اس تناظر میں بلاشبہ اس وقت مجرموں کو پاتال سے نکال کر باہر لانا اور
قانون کے کٹہرے میں لاکھڑا کرنا صوبائی حکومت اور قانون ساز اداروں کا فرض
بنتا ہے جسے یقینی طور پر پورا کیا جائے گا ۔اور اب تو شہر قائد کراچی کے
ناموزوں حالات اس طرف اشار ہ بھی کر رہے ہیں کہ یہاں پر ماضی کی طرح ایک
بار پھر ایک سخت آپریشن کی ضرورت ہے جس سے اس بارونق اور پر امن شہر کا
چھینا ہوا حسن اور اس کا امن اسے دوبارہ لوٹایا جاسکے۔
اس سے قبل ماضی میں شہرقائد کراچی میں 2013ء کے بعد 7,950 آپریشن کیے گئے
ہیں 6,361 افراد کو پولیس اور 221 کو F.I.A A.N.F اور کسٹمرز کے حوالے کیا
گیا ، جن میں سے 5,518 کو بغیر F.I.R درج کیے رہا کیا گیا ۔ 1,313 کی ضمانت
لے لی گئی ، 188 کو سزا ہوئی ، ان میں سے 1,236 دہشت گرد 848 ٹارگٹ کلرز
403 بھتہ خور 143 اغواء کار تھے ۔
قارئین کرام ! آپ کو یہ بات سن کر حیرانگی ہوگی کہ کراچی میں ٹارگٹ کلرز نے
7,224 افراد کو نشانہ بنانے کا اعتراف کیا ہے ۔ M.Q.M کے خلاف
1,313پیپلزامن کمیٹی کے خلاف 1,035 اور A.N.P کے خلاف 28 آپریشن ہوئے ۔
آپریشن سے کراچی اور اندرون سندھ میں دہشت گردی ، ٹارگٹ کلنگ ، اغواکاری ،
بھتہ خوری کے واقعات میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے ۔
یاد رہے کہ صدر پارکنگ پلازہ میں پاک فوج کی گاڑی پر حملہ اور دسمبر 2015ء
میں پریڈی کے علاقے میں ملٹری پولیس کے 2اہل کاروں کے قتل میں ایک ہی گروپ
کے ملوث ہونے کی اطلاعات موصول ہورہی ہیں اور بتایا جارہا ہے کہ دونوں
وارداتوں کا طریقۂ کار ایک ہی جیسا ہے ۔اور اس سلسلے میں گوکہ کالعدم تحریک
طالبان پاکستان کی ذیلی تنظیم ’’جماعت الاحرار‘‘ کی جانب سے حملے کی ذمہ
داری قبول کرنے کی اطلاعات گردش کر رہی ہیں تاہم حتمی اور یقینی طور پر
ابھی تک اس بات کا تعین نہیں ہوا کہ اس واقعہ میں کس گروپ کے افراد ملوث
ہیں ، اس بات کا تعین ہونا ابھی باقی ہے ۔
پاک فوج کے ان دوجا نباز فوجی اہل کاروں کی اس المناک شہادت پر صدر مملکت
ممنون حسین اور وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے واقعہ کی شدید مذمت کی ہے
اور کہا ہے کہ مجرموں کو جلد از جلد انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے ۔ و زیر
اعظم نے کہا کہ اب کراچی آپریشن کسی صورت پٹڑی سے اترنے نہیں دیں گے۔
بہرحال ! اس وقت اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ کراچی آپریشن لازمی طور پر اپنے
منطقی انجام تک پہنچایا جائے اور ان حالیہ واردات میں ملوث افراد کو ہر
صورت ان کے کیفرکردار تک پہنچایا جائے ۔
بلاشبہ شہر قائد میں آپریشن کی سمت درست رکھنے، اسے متحرک بنانے اور ٹارگٹ
کلنگ کے واقعات کی روک تھام کے لئے ، دہشت گردی مخالف اقدامات کے پیش نظر
مؤثر اشتراک عمل اور انٹیلی جنس شیئرنگ پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے ، تاکہ
وارداتیں کرلینے کے بعد جس برق رفتاری سے یہ دہشت گرد بچ نکلتے اور بھاگ
جاتے ہیں اس سے قبل ہدف میں ہی ان کو گرفت میں لایاجاسکے اور گرفت میں لاکر
ان کو کیفر کردار تک پہنچایا جاسکے۔ |