اپنی مدد آپ کے تحت پاکستان کی ترقی

کسی چھوٹے علاقے کے لوگ مل کر باہمی تعاون سے اگر ایک ایک کرکے اپنے علاقے کے بے روزگاروں کو روزگار فراہم کرنے میں مدد کریں تو ملک ترقی کرسکتا ہے، اسی طرح اگر حکومت ایسے منصوبے تعمیر کرے جو خود حکومت کو کما کردیں تو وہ منافع ملک کی ترقی پر خرچ کیا جاسکتا ہے۔

اپنی مدد آپ کے تحت پاکستان کی ترقی

پاکستان کی ترقی کے لئے ہمارا شکوہ یہی ہوتا ہے کہ حکومت یہ کرے تو پاکستان ترقی کرلے گا۔ لیکن سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ عوام خود پاکستان کی ترقی کے لئے اپنی روزمرہ زندگی میں کیا طرز عمل اختیار کرتے ہیں۔ پاکستان کی ترقی کے لئے یہ ضروری ہے کہ عوام اپنے ملک کی ترقی کے لئے اپنا کرداراداکریں۔ اس وقت پاکستان کو جن مسائل کا سامنا ہے۔ ان میں دہشت گردی، غربت، بے روزگاری سرفہرست ہیں۔
اگر ہم صرف بے روزگاری کے مسئلے پر سو فی صد قابو پالیں تو غربت، خودکشی، اسٹریٹ کرائمزاور بے شمار پیچیدہ مسائل حل کرسکتے ہیں۔ بے روزگاری ختم کرنے کے سلسلے میں آج میں وہ ترکیب پیش کررہاہوں جس پر عمل نہ تو حکومت نے کرنا ہے اور نہ ہی ملک کی کسی نام نہاد این جی او نے کرنا ہے بلکہ یہ کام خود عوام کو کرنا ہے۔ کیونکہ خدا اس قوم کی حالت نہیں بدلتا ، نہ ہو جسے خود اپنی حالت بدلنے کا۔

۱۔ اپنی مدد آپ:
کس یٹاؤن میں چند افراد اایک یونین بنائیں اور ٹاؤن کے ہر گھر سے صرف ایک سو روپے ماہانہ جمع کریں تو پورے ٹاؤن سے جمع ہونے والی رقم لاکھوں میں ہوگی۔ اب اس رقم سے اسی ٹاؤن کے رہنے والے کسی غریب یا بے روزگار شخص کو ایسا کاروبار کرادیں جس میں اسے مہارت ہو لیکن وسائل نہ ہونے کی وجہ سے پس رہا ہو۔ایک مہینے پیسے جمع کرکے کسی کو کوئی کام کرادیا تو دوسرے مہینے کسی اور کو کوئی کام کرادیا اور اس سے اگلے مہینے کسی اور کو۔ مثال کے طور پر کسی کو رکشہ دلا دیا، کسی کو دکان کھلا دی، کسی کو ٹھیلا دلادیا،کسی کو چھوٹا سا مرغی فارم کھلوادیا، کسی کو سلائی مشین دلا دی ۔اس طرح جو لوگ برسرروزگار ہوتے جائیں گے وہ پورے معاشرے کی ترقی کا سبب بنتے چلے جائیں گے۔ ان کے حالات بہتر ہونے سے پورے محلے کے حالات بہتر ہوں گے۔ کیونکہ اس سسٹم کے تحت اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے والوں میں بھی دوسروں کی مددکاجذبہ پیداہوگا۔ اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی وجہ سے ان کی غربت کامسئلہ حل ہوجائے گا وہ خودکشی نہیں کریں گے، حلال رزق میسرہونے کے باعث لوگ اسٹرئیٹ کرائمز اور دیگر جرائم کا ارتکاب نہیں کریں گے۔ اپنے بچوں کی شادیاں وقت پر کرسکیں گے، اپنی اولاد کو بہتر تعلیم دلاسکیں گے۔ بیماری کی صورت میں علاج معالجہ کراسکیں گے۔اور رفتہ رفتہ ایک ایک کرکے پورامحلہ خوشحال ہوجائے گا اور کسی پر کوئی بوجھ بھی نہیں بنے گا۔ اسی طرح جب جگہ جگہ کام ہوگا تو پورے ملک کی معیشت مضبوط ہوگی۔اسی سسٹم میں اگر ترقی کرتے ہوئے لوگ خود بڑھ چڑھ کر اپنا حصہ ملانا شروع کردیں تو چھوٹے چھوٹے کارخانے بھی لگائے جاسکتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں بے روزگاری کا خاتمہ ہوگا۔ مثال کے طور پر اگر کسی ٹاؤن میں ایک ہزار گھر ہیں تو سو روپے فی گھر کے حساب سے ماہانہ ایک لاکھ روپیہ جمع ہوگا جس سے باآسانی بے روزگاروں کے لئے روزگار کا انتظام کیا جاسکتاہے اور اگر یہ اسکیم ٹاؤن ناظم کی زیرسرپرستی ہو تو نتیجہ بہت ہی سود مند نکلے گا۔

ہمارے ملک میں رہائش کا مسئلہ بھی عروج پر ہے اور حکومت کی معاشی حالت بھی اچھی نہیں ہے یہاں میری ایک اوررائے ہے وہ یہ کہ حکومت اپنے فنڈز ایسی جگہ خرچ کرے جو خود کما کردیں اور سرکاری خزانے کو نفع پہنچائیں۔

۲۔ حکومت کے لئے ایک رائے:
بڑے شہروں میں حکومت اپنے تعمیراتی فنڈز سے اگر ایک رہائشی منصوبہ تیار کرے بالفرض ایک ہزار فلیٹس تعمیر کئے جائیں۔ اور وہ فلیٹس ماہانہ کرایہ کی بنیادپر عوام کو دیئے جائیں گے ۔ چونکہ شہری علاقوں میں روزگار کے سلسلے میں لوگ دیہاتوں اور دوسرے علاقوں سے آکر آباد ہوتے ہیں ایک تو ان کی رہائش کا بندوبست ہوگا اور دوسرا یہ کہ فی فلیٹ اگر حکومت دس ہزارروپے کرایہ وصول کرے تو ایک ہزار فلیٹس سے ایک کروڑ روپے ماہانہ جمع ہونگے اور حکومت کو سالانہ بارہ کروڑ روپے کا فنڈ میسر آئے گا جس میں سے اگر دو کروڑ روپے مینٹیننس پر بھی خرچ کردیئے جائیں تو حکومت سالانہ دس کروڑ روپے دوسرے ترقیاتی کاموں پر خرچ کرسکتی ہے۔ پھر یہ کہ ایک جگہ اتنے لوگوں کو رہائش فراہم کرنے کی صورت میں حکومت بجلی کی فراہمی کا متبادل ذریعہ بھی استعمال کرسکتی ہے جن میں سولر سسٹم قابل ذکر ہے اور یہ کہ ملکی معیشت کی ترقی پر ہی پورے ملک کی ترقی کا انحصار ہے۔

ان دو مشوروں کے بعد میں آپ سے یہی گزارش کروں گا کہ یہ کوئی ناممکن کام نہیں ہیں۔ ضرورت ہے تو بس خلوص نیت اورعمل کی ۔ اگر ان پر ایمانداری سے چلا جائے تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان کا شمار انتہائی خوشحال ممالک میں ہوگا۔ لہٰذا اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے ، پھر دیکھ خدا کیا کرتاہے۔
Shahbaz Khan
About the Author: Shahbaz Khan Read More Articles by Shahbaz Khan: 7 Articles with 16900 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.