حرمتِ رسول ﷺ

جو لوگ یو رپ امریکہ برطانیہ جا تے ہیں وہ اچھی طرح وہا ں کی تہذیب کا مکروہ چہرہ دیکھ چکے ہیں کیو نکہ یہ سچ ہے کہ وہا ں پر انسا ن اپنی خو دی اور پہچان کو یکسر بھو ل چکا ہے آپ کسی بھی غیر مسلم ملک چلے جا ئیں وہاں پر جانور نما انسان ایک دوسرے سے لپٹے نظر آتے ہیں ماں بیٹی بہن بیوی کیا ہے ان کا تقدس کیا وہ اِس کی ابجد سے بھی واقف نہیں سچ تو یہ ہے کہ وہ انسان جانوروں یا مشینوں کا روپ دھار چکے ہیں ‘کھا یا پیا جنسی مشاغل سے گزرے اور دنیا سے چلے گئے خاندانی روایات تہذیب اخلاقیات شرم و حیا کیا ہیں وہ بلکل بھی نہیں جا نتے یہ اثاثہ صرف مسلمانوں کا ہی ہے مجھے جب بھی کو ئی نو جوان یو رپ امریکہ جا نے کے لئے ملتا ہے تو مجھے اُس پر ترس آتا ہے کہ یہ معصوم یہ نہیں جا نتا کہ وہ کس بے حیائی بے شرمی بے حسی کے سمند ر میں غرق ہو نے جا رہا ہے وہاں جب بھی کو ئی غیر ملکی جا تا ہے تو اُس کلچر کی چکا چوند روشنیوں میں اِس طرح گم ہو تا ہے کہ اپنی روایات کو بھی بھول جا تا ہے اہل یو رپ کسی دوسرے انسان کی عزت احترام سے واقف ہی نہیں ہیں اُن کے اپنے ہی قاعد ے قانون ہیں مادر پدر آزادی کے جنون میں وہ رشتوں کا احترام پو ری طرح بھو ل چکے ہیں کیونکہ وہ مذہب ‘خدا اورپیغمبروں کو بھی بھول چکے ہیں اِس لیے جب بھی کو ئی مسلمان پیا رے آقا ﷺ کی حر مت پر سینہ ٹھوک کر با ہر آکر احتجاج کر تا ہے یا اپنی جان ہتھیلی پر رکھ لیتا ہے تو وہ خو فزدہ ہو جا تے ہیں خو فزدہ کیوں وہ اِس لیے کہ زندگی کسی بھی ذی روح کے لیے سب سے قیمتی ہے وہ ساری زندگی اِس کی بقا کی تگ و دو میں لگا رہتا ہے اپنی زندگی کو آرام دہ طا قتور اور طویل عرصے تک قائم رکھنے کے لیے وہ شب و روز کو شش کر تا ہے دوسروں کو کیڑے مکو ڑوں کی طرح پا ؤں تلے روندتا چلا جا تا ہے لیکن جب اہل یو رپ دیکھتے ہیں کہ تا ریخ کے جس بھی دور میں دنیا کے کسی بھی خطے میں کسی ملعون جہنمی نے سید الانبیا ء ﷺ کی شان میں گستاخی کی نا پاک جسارت کی تو کڑوڑوں مسلمان پروانوں کی طرح سراپا احتجاج بن گئے یہ تحریک جذبہ اور عشقِ رسول ﷺ اُنہیں بہت نا گوار گزرتا ہے کیونکہ وہ مذہب خدا کو ترک کر چکے ہیں اور جانوروں کی سی زندگی گزار رہے ہیں جبکہ وہ دیکھتے ہیں کہ مسلمان اور ان میں بنیادی فرق یہ جذبہ جنون اور عشق ہے تو وہ عرصہ دراز سے اِس کو شش میں لگے ہو ئے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح مسلمانوں کے اند ر یہ عشقِ رسول ﷺ کا جذبہ اور جنون ختم کر دیں کیو نکہ اگر خدا نہ کر ے وہ کا میاب ہو جا ئیں تو مسلمان بھی راکھ کا ڈھیر ہی رہ جا ئیں گے وہ بار بار ایسی نا پاک حرکتیں کر کے یہ کو شش کر تے ہیں کہ مسلمانوں سے یہ متاع حیات چھین لی جا ئے لیکن وہ ہر بار ناکام ہو تے ہیں آج ہما رے ملک میں بھی مغرب نوازی کی جگا لی کر نے والے دانشور جو یہ کہتے ہیں کہ مغرب مذہب سے الگ ہو کر پر امن اور کامیاب ہو گیا تو اُن کی اور اہل یو رپ کی خدمت میں عرض ہے اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مذہب سے آزادی کے بعد یو رپ پر امن ہو گیا ہے تو اِس سے بڑا تا ریخی جھوٹ اور کو ئی نہیں مذہب سے آزادی کے بعد بیسویں صدی میں دو عالمی جنگیں لڑیں گئیں جس میں کروڑوں لو گ مو ت کے سمندر میں اتار دئیے گئے ہزاروں شہروں کو برباد کر دیا گیا لا کھوں لوگوں کو اپا ہج بنا دیا گیا کیا اُس وقت یو رپی ممالک سیکو لر نہیں تھے اِن جنگوں میں نہ کو ئی مذہبی واردات ہو ئی نہ کو ئی ملاں پا دری سامنے آئے تو پھر ایٹمی ہتھیا ر کیوں استعمال ہو ئے کروڑوں انسانوں کو گا جر مو لی کی طرح کا ٹ دیا گیا اور نسلوں کی نسلیں لا شوں میں بدل دی گئیں مسلمان جب سرتا ج الانبیاء ﷺ کی حرمت کی جنگ لڑتے ہیں احتجاج کر تے ہیں اپنی جا نیں نذرانے کے طور پر پیش کر تے ہیں تو یو رپ حیران اور اعتراض کر تا ہے کیا یو رپ نے کبھی کو ئی مذہبی جنگ نہیں لڑی چند حقائق قارئین کی نذر کر تے ہیں تا ریخ کے اوراق گواہ ہیں جب 27اگست 20 عیسوی میں رومن لشکر یرو شلم میں دندنا تے داخل ہو ئے اور اُسے کھنڈر میں تبدیل کر دیا اور معبد سلیما نی کو جلا کر خا کستر کر دیا اور پھر 131عیسوی میں یہودیوں کو عباد ت سے منع کیا گیا تو انہوں نے رومنوں کے خلا ف اعلان جنگ کر دیا اور جب 135عیسوی میں اِن کو شکست ہو ئی تو یہودی وہاں سے بھا گ کر یو رپ کے مختلف ممالک میں پھیل گئے کیو نکہ یہودیوں کی سرشت میں منا فقت اور جھو ٹ تھا جہاں بھی گئے منفی سر گرمیاں اور سازشیں کر تے رہے اپنی اِن مکروہ حرکتوں کی وجہ سے قابل نفرت سمجھے گئے یہودیوں کی اِن منفی شیطانی حرکتوں کی وجہ سے بہت سارے لو گ اِن کے خلاف ہو گئے جن میں ہٹلر سر فہرست تھا لیکن بر طا نیہ اور امریکہ نے خفیہ معا ہدے کے تحت 1948میں یہودیوں کو فلسطین میں آباد کر دیا اور پھر دنیا بھر کے بد معاش اعظم امریکہ نے یہودیوں کی پشت پنا ہی کی اور یو رپ کے تقریبا ً ہر ملک میں یہودی کی حما یت میں ایسے قوانین بنوائے جن کے تحت یہودیوں کے خلا ف گفتگو کر نا نفرت پھیلا نا انہیں برا بھلا کہنا جرم قرار دیا گیا امریکہ کی ہٹ دھرمی دیکھیں کہ اُس نے اپنی طاقت اور دھونس سے اِیسے قوانین بنوائے کہ یہودیوں کو برا بھلا نہ کہا جا ئے اِس کا مطلب یہو دی نعوذباﷲ نبیوں اور خدا سے بھی بڑھ کر ہیں ۔ اور یہ سچ ہے کہ آج دنیا بھر کے بہت سارے ممالک میں ایسے قوانین مو جود ہیں کہ آپ نجی محا فل میں بھی اُن کے خلا ف گفتگو نہیں کر سکتے ورنہ پو لیس آپ کو پکڑ سکتی ہے جو لو گ یو رپ کی روشن خیالی اور آزادی اظہار کی جگا لی کر تے ہیں اُس کو ایسے قوانین کی جھلک دکھائیں جو صرف یہو دیوں کی عزت کے لیے بنا ئے گئے ہیں جر منی قانون جو 1985میں پاس ہوا اس کے آرٹیکل 194-21کے تحت یہودیوں کے خلا ف نفرت کو انسانی وقار کے خلاف قرار دیا گیا ہے اور اِسی قانون کو 1994میں ترمیم کے ساتھ اب قابل دست اندازی پو لیس بنا دیا گیا ہے فرانس میں بھی ایسا قانون 1990 میں بنا یا گیا جس کے آرٹیکل 24-Bکے تحت یہودیوں سے نفرت کرنا اور اِس کا اظہار کرنا جرم ہے اٹلی میں 1963برازیل میں 1989لیٹویا میں 1990سلو وکیا میں2001پو لینڈ میں 1999لکسمبرگ میں1997ڈنمارک میں 1996بر طا نیہ میں 1997نا روے میں 2000ہا لینڈ میں 2003اسٹریلیامیں 2004اور سب سے بڑھ کر منا فقت تو اقوام متحدہ نے کی جب 1992میں یہ قرار دار پا س کی کہ یہودیوں کے خلاف نفرت کو ایک خطرے کے طور پر جا نا جا ئے اور اِس کے خلا ف جنگ کی جا ئے ظلم حیرانی اور ڈھٹا ئی دیکھیں کہ اگست 2005میں یہ اسٹریلیا اسرائیل کینیڈا اور امریکہ نے اقوام متحدہ سے پا س بھی کروایا کہ 27اگست کو عالمی ہالو کاسٹ دن کے طور پر منا یا جا ئے یہ وہی دن تھا جب 70عیسوی میں روس لشکروں نے یروشلم کے یہودی شہر کو کھنڈر بنا دیا تھا اور پھر اِن قوانین کے تحت بے شمار لوگوں کو سزائیں بھی دی گئیں گرفتاریاں ہوئیں ایسے اخبا رات رسائل ٹی وی چینل اور انٹرنیٹ سائٹس کی فہرست تو بہت ہی طویل ہے جن پر اِن قوانین کے تحت پا بندیاں لگا ئی گئیں ۔ یہودی لا بی پو ری دنیا میں اپنے اور امریکی اثر رسوخ کے بل بو تے پر اپنی حکو مت قائم کئے ہو ئے ہے جہاں ضرورت ہو تی ہے اپنی بقا عزت اور مرضی کے قوانین بنواتی ہے اور جب مسلمان پیا رے آقا دو جہاں ﷺ کی عزت پر قانون سازی اور سزا کی با ت کر تے ہیں تو روشن خیال دانشور اور مغربی جا نور نما انسان کو غصہ آتا ہے کہ یہ تو اظہا ر خیال کی آزادی ہے یہ انسان کا بنیادی حق ہے یہودی نسل جو کر ۂ ارض کی سب سے مکروہ قوم ہے جو معصوم فلسطینیوں کو گا جر مو لی کی طرح کئی سالوں سے کاٹ رہی ہے اُس کی عزت کے لیے قوانین بنا ئے جا ئیں تو درست اور اگر محسنِ اعظم ﷺ نسل ِ انسانی کے سب سے بڑے انسان کی ناموس اور حرمت پر قانون سازی کا تقاضہ کیا جا ئے تو یہ جہا لت ہے جب بھی شافع محشر کی شان میں گستاخی ہو گی تو ڈھیڑھ ارب مسلمان پروانوں کی طرح اپنی جا نیں حرمت رسول ﷺ پر قربا ن کرنے کے لیے تیا ر ہو نگے کیونکہ مسلمان کا ایمان مکمل ہی اُس وقت ہو تا ہے جب وہ آقا ﷺ کو اپنی جان سے بھی عزیز رکھے ۔
نہ جب تک کٹ مروں میں خو اجہ بطحا کی عزت پر
خدا شاہد ہے کا مل میرا ایماں ہو نہیں سکتا
Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 805 Articles with 735699 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.