بے وقت کی راگنی

سیاست کے موسم میں جب ہر کوئی حکومتوں کی بات کرتا ہے مجھے موضوع بدل کر کشمیر کی بات کرنا اچھا لگتا ہے۔ کیوں کہ یہی میرے جگر کا درد ہے ‘ یہی میرے دل کا زخم ہے۔مجھے دوست طعنے دیتے ہیں۔
تین عشرون تک صحافت کے خار زار میں بھٹکنے کے بعد ان دوستوں نے میرا نام کشمیر قمر رکھ دیا ۔
کشمیر کے جاں نثاروں کی بے شمار داستانیں اگر میں صفحہ قرطاس پر منتقل نہ کرنا تو شاید سینے کے حصار میں مقید میرا دل پھٹ جاتا۔کئی شبوں کی تنہائیوں میں یہ کہانیاں میرے احساس کے لیے جراحت کا سامان بنی رہیں ۔ بہت کوشش کی کہ اس طوفان کو میں اپنے اندر سموئے رکھوں اور اس موضوع پر کسی اور کو اظہار کا موقع دوں جو اسے کماحقہ تاریخ کا حصہ بنا سکے ‘ لیکن شدت احساس بڑھتی رہی اور میں انتظار نہ کر سکا۔ شاید یہ میرے ظرف کی سمائی بلھے شاہ جیسی نہ تھی کہ جس نے کہا تھا۔
دل دریا سمندروں ڈونگے کون دلاں دیا جانے ہو

جموں و کشمیر میں ظلم کی طویل اور گھور رات کو دیکھ کر …… ان مظالم کی آندھیوں کے بارے میں سن کر کون متاع صبر و قرار بچا سکتا ہے ۔ یہ تو اب سمندر کے سینے کے بس میں بھی نہیں کہ اتنے دکھوں اور ایسے حالات کو چھپا سکے ۔اس قلم کار کی تو اوقات کیا ‘ پہاڑوں کی بھی کہیں آنکھیں ہوتیں کہ جن کے دامن میں دیواروں سے بد تر انسانوں کا ایک غول کچھ مجبور و معذور انسانوں کی ہڈیاں چچوڑ رہا ہے ‘ تو وہ تاب نظارہ نہ لا سکتے۔کشمیر کے چناروں ‘ دیوداروں اور صنوبروں کو زبان مل جاتی ‘ وہ بھی وحشیوں اور قاتلوں کی اس درندگی پر چیخ اٹھتے ۔کوہستانی چشموں اور ندیوں کی زبان ہوتی ‘معصوم بچوں کی چیخیں سنائی دیتیں ‘ تو وہ اپنے آنسوؤں سے ڈل اور ولر کو بھردیتیں …… لیکن انسانوں کے دل پہاڑوں سے زیادہ کٹھور اور اشجار و احجار سے زیادہ سخت ہو گئے ہیں۔ ایسے دلوں کی قساوت کی گواہی تو خودخالق ارض و سما نے دی ہے ۔

’’ آخر کار تمہارے دل سخت ہو گئے ‘ پتھروں کی طرح سخت‘ بلکہ سختی میں کچھ ان سے بھی بڑھے ہوئے ‘ کیونکہ پتھروں میں سے تو کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جس میں سے چشمے پھوٹ بہتے ہیں ‘ کوئی پھٹتا ہے اور اس میں سے پانی نکل آتا ہے اور کوئی خدا کے خوف سے لرزر کر گر بھی پڑتا ہے ۔ ‘‘ ( البقرہ ۔۷۲)
عالم انسانیت یہ سب کچھ دیکھ رہا ہے ‘ سن رہا ہے لیکن جدید دور کے معیارات بدل گئے ہیں ‘ ضمیر کا پیمانہ بھی تبدیل ہو گیا ہے ۔ اب انسانیت کا ضمیر برفانی ریچھ اور پانڈا کی نسل کو ختم ہوتے دیکھ کر دکھی ہوتا ہے ۔ اب انسانوں کو انسان کے لہو سے زیادہ ڈولفن مچھلی اور سبز کچھوے کی قدرو قیمت ہے ۔کشمیر اور بوسنیا میں انسانوں کا لہو دریاؤں اور جھیلوں کی رنگت بھی بدل دے تو کیا پروا کہ سری نگر میں تیل کے چشمے جو نہیں ابلتے ۔ یہ عالم تثلیث سے تعلق نہیں رکھتے نہ یہودی ہیں ان کا جرم تو یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں ’’ اﷲ ہمارا رب ہے ‘ وہ ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں۔‘‘

میرے چاہنے سے کچھ نہیں ہو سکتا۔ میرے کاش کہہ دینے سے یا آہیں بھرنے سے نظام کائنات بدل نہیں سکتا۔ میری تو آرزو یہ تھی کہ کشمیر آزاد ہوگا ۔کشمیریوں پر صدیوں کا بوجھ ختم ہوگا ‘ شہیدوں کی روحوں کو سکون ملے گا اور پاکستان کی تکمیل ہوگی ۔میں تو چاہتا تھا کہ کشمیر کی میری کسی بہن اور کسی بیٹی کو چشم فلک بھی نہ دیکھتی ‘ میں تو دعائیں مانگتا رہتا ہوں …… الٰہی …… اس خطہ بہشت صورت کی بہت آزمائش ہو چکی …… میرے مالک ! اب تو اسے آزادی کا انعام بخش دے …… لیکن مالک کی مرضی میری مرضی کی ماتحت تو نہیں …… وہ اپنی مرضی سے ہزاروں برس کے عبادت گزار کو ابلیس معلون بنا دیتا اور خاکی انسان کو مسجود ملائک قرار دے دیتاہے ۔ اس کی مرضی ہو تو یونس ؑ مچھلی کے پیٹ سے اور یوسف ؑ چاہ کنعان سے محفوظ نکل آتے ہیں ۔ وہ اپنے دوست ابراہیم ؑ کے فرزند کو اسی کی چھری تلے لٹا دیتا ہے …… وہ سرور انبیاءؐ کے جوتے ان کے لہو سے بھروا دیتااور ان کے مقدس دانت شہید کر ا دیتا ہے …… بلال ؓ کا ایمان تپتی ہوئی ریت پر آزماتا اور جناب بن الارت ؓ کی چربی سے انگارے ٹھنڈے کرا دیتاہے ۔

یہ جو کچھ کشمیر میں ہو رہا ہے ‘ یہ بھی اس کی مرضی سے ہو رہاہے ۔اس کے عشق کی ریت یہی ہے ۔ اپنے ساتھ محبت کا دعویٰ کرنے والوں کی وہ اسی طرح آزمائش کرتا ہے اور آزمائش پر پورا اترنے والوں کو وہ انعام بھی بڑے بڑے عطا کرتا ہے ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آزمائشوں پر پورا اترنے کے بدلے میں انہیں امام کائنات کا عظیم رتبہ عطا کیاگیا۔ مجھے اعتراف ہے کہ ہم بے صبرے ہیں ‘ جلد باز ہیں ۔ قربانی کا بدلہ اور ہر آزمائش کا انعام جلد وصول کرنا چاہتے ہیں ۔ ہم بے تاب ہو جاتے ہیں اﷲ کی مرضی پر اپنی مرضی کو فوقیت دینے لگتے ہیں ۔

مجھے معلوم ہے کہ اس وقت ساری دنیا ایک طرف ہے اورمیرے کشمیر کے غازیوں اور شہیدوں کا کارواں دوسری طرف…… طاغوت کی ساری ٹیم ایک جانب ہے اور کشمیر کے بے بس مسلمان دوسری طرف …… مجھے تسلیم ہے کہ کشمیریوں میں کبھی بھی رزم آرائی کا ذوق نہیں رہا لیکن تاریخ کے طعنے سہنے والے کشمیریوں نے اپنی جنگ گریزی کی تاریخ کی تلافی کر دی ہے اور جدوجہد کی ایسی مثال قائم کی ہے کہ جو آنے والی صدیوں میں آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والوں کے لیے نمونہ ہوگی کشمیریوں نے جان و مال یہاں تک کہ انہوں نے عزت و آبرو تک لٹا کر اپنا حق ادا کر دیا ہے ۔ان کے ہاں موت سے محبت بڑھنے لگی ہے اور جو قوم موت کا تعاقب کرتی ہے اسے زندگی مل جاتی ہے ۔ جس طرح کل سورج طلوع ہونے کا یقین ہے اسی طرح اس بات پر یقین ہے کہ ان شاء اﷲبہت جلد کشمیر کے افق پر آزادی کا سورج طلوع ہونے والا ہے ۔ دنیا کی کوئی طاقت ابھرتے سورج کو ضوفشانی سے روک نہیں سکتی ۔ اوڑی سے لکھن پور تک ہزاروں شہیدوں کا بہتا خون رنگ لانے کو ہے ۔ یہ لہو رائیگاں نہیں جا سکتا۔ اس لیے کہ یہ خون میرے ہزاروں بے غرض بھائیوں کا ہے ۔

میری کہانی انہی باہمت شیر دل بے غرض جوانوں کی روداد ہے ۔ یہ بکھری بکھری داستانیں میں نے اپنا حصہ اداکرنے کے لیے لکھی ہیں ۔ وہ حصہ جو میرے ذمے قرض ہے ۔آزاد میڈیا کے اس دورمیں جب سیاست کار ‘ سیاسی جماعتیں ‘ کرپشن ‘ لوٹ مار ‘ دہشت گردی ‘ بے انصافی ‘ ناموس شکنی ‘ نفسا نفسی جیسے ہزار ہا موضوعات سامنے کھڑے ہوں ‘ اکثر کشمیر کی بات کرنا مجھے بہت اچھا لگتا ہے ۔ یہ پاکستان کی تکمیل ‘ بقا اور سرخروئی کے لیے ضروری ہے ۔ بے موسمی اور بے وقت کی راگنی کا طعنہ سنتے مدت ہو گئی لیکن یہ قلم کار کشمیر کی بات کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے ۔ کشمیر ہمارے دل کا زخم ہے ۔ انتخابات کا موسم آن لگا ہے تو پھر سے بے وقت کی راگنی چھیڑنے کو دل کرتا ہے۔ اپنے ناخنوں سے اپنے زخم کریدنا مشغلہ ہے کسی کو اچھا لگے یا برا ہم کشمیر کی بات کر کے اپنے زخم تازہ کرتے ہیں ۔
Saghir Qamar
About the Author: Saghir Qamar Read More Articles by Saghir Qamar: 51 Articles with 37909 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.