پاکستان کو ایک بہترین اور ترقی یافتہ ملک کیسے بنایا جاسکتا ہے؟

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ موجودہ کرپٹ اور ناہل سیاسی نظام اور اسٹیبلشمنٹ کے ہوتے ہوئے، کسی بھی سطح کی ترقی یا خوشحالی کا صرف خواب دیکھا جا سکتا ہے اس کو عملی تعبیر نہیں دی جا سکتی۔مزید آسان الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت اس فرسودہ نظام سے آزادی کے بعد ہی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر کیا جا سکتا ہے، اور آزادی حاصل کرنے کے لئے پاکستان کے پڑھے لکھے طبقات، اور خاص طور پہ نوجوانوں کو ایک طویل جدو جہد کرنی پڑے گی۔
بیسویں صدی کی سیاسی تاریخ میں پاکستان کا قیام ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے یہ صرف اس لئے نہیں کہ ایک نیا ملک دنیا کے سیاسی نقشہ پر نمودار ہوا بلکہ اس لئے کہ اس ملک کی جدو جہد کرنے والوں کے مد نظر مسلمانوں کو سیاسی زوال سے نکالناتھا ۔اس کے قیام میں کسی ایک فرد کی کوشش شامل نہیں تھیں بلکہ اس میں برصغیر کے تمام مسلمان شامل تھے جو آزاد اسلامی ریاست میں عادلانہ نظام کے تحت زندگی گزارنا چاہتے تھے۔

پاکستان کو قدرت نے ہر طرح کی نعمتوں سے مالا مال کر رکھا ہے، ہر طرح کے موسم اور ہر طرح کی زمینی ساخت،سرسبز میدان، پہاڑ،جنگلات، دریا، جھیلیں اور سمندر جیسی قدرتی نعمتوں سے مزین ایک مکمل اور خوبصورت خطہ ،قدرتی وسائل کی بات کریں تو دنیا کی سب سے بڑی نمک کی کان،تقریباً ایک سو پچتر ملین ٹن کوئلے کے ذخائر،تقریباً آٹھ سو بچاسی اعشاریہ تین بلین کیوبک گیس کے ذخائر،سونے، کاپر، زمرد، جپسم، سنگ مرر، گرومیائٹ، لوہا،چاندی،قیمتی پتھر،اس کے علاوہ پاکستان کی زمین میں بہترین کوالٹی کا یورینییم بھی موجود ہے۔مٹی ایسی کہ ہر طرح کے پھل،سبزیاں، فصلیں چار موسموں میں پیدا کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہے۔ان بیش بہا قدرتی وسائل کے ساتھ ساتھ پاکستان میں اس وقت بیس کروڑ سے زیادہ باشندے آباد ہیں، جن میں اکثریت نوجوان طبقہ ہے۔یہ آبادی اپنے خطہ زمین کی طرح بے شمار ذہنی، جسمانی،فنی صلاحیتوں سے مالا مال ہے۔

قدرتی وسائل اور افرادی قوت سے مالا مال یہ خطہ زمین اکیسویں صدی کی بدلتے ہوئی دنیا میں اس وقت کس حال میں ہے اس کا تجزیہ کرنے سے پہلے ان نئے تقاضوں پہ بات کی جائے جنہیں اس صدی میں اختیار کئے بغیر قومیں ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں کر سکتیں۔ وہ تقاضے یہ ہیں کہ اب سیاسی نظام حکومت بغیر جمہوریت کے قابل قبول نہیں، تعلیمی نظام کے نصاب بغیر سائنس اور ٹیکنالوجی کی بصیرت و فہم کے ادھورے اور فرسودہ ہیں، قوموں کی مسابقت اب جنگ کے میدانوں کی بجائے تجارتی مارکیٹوں میں ہے، تخلیق وتحقیق کے کلچر کے بغیر قومیں مردہ تصور کی جاتی ہیں، مارکیٹ اکانومی پہ اب اس کا کنٹرول ہو گا جو سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدانوں کا فاتح ہو گا۔اب آزادی و غلامی کا تصور معاشی بالا دستی اور وسائل پہ کنٹرول کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔

اکیسویں صدی کے ان تقاضوں کی تکمیل تو بہت دور کی بات ہے ، ریاست پاکستان کے نظام نے ملک کی باصلاحیت آبادی اور قدرتی وسائل کی طاقت کو استعمال میں لا کر بیسویں صدی کے تقاضوں سے بھی ہم آہنگ نہیں کیا۔زندگی کا ہر شعبہ نوحہ کناں ہے، انسٹھ سال گذرنے کے باوجود کرپٹ فوجی و سول بیورو کریسی، سرمایہ و جاگیردار سیاستدانوں کے گٹھ جوڑ نے جمہوریت کو ایک جمہوری سیاسی نظام کے چلنے نہیں دیا، اس کی جگہ آمریت نے لی اور ملک ایک فوجی یونٹ کی طرح چلایا جانے لگا، عوامی رائے، سیاسی جمہوری اداروں کو مستحکم نہیں ہونے دیا گیا،’’ جس کی لاٹھی اس کی بھینس ‘‘کے ماحول نے ایک خطرناک مثلث جو کہ فوجی وسول بیوروکریسی، سرمایہ دار جاگیردار سیاستدانوں پہ مشتمل ہے نے ایک بدترین مافیا کی صورت میں پاکستان کے تمام ریاستی اداروں کو اپنے کنٹرول میں کیا ہوا ہے۔گذشتہ نصف صدی سے یہی طبقات نسل در نسل قومی اداروں پہ کنٹرول حاصل کئے ہوئے ہیں،قوم کو ایک ریوڑ کی طرح رکھا ہوا ہے، قوم کا خون پسینے پہ مشتمل بجٹ کی بندر بانٹ ہوتی ہے یہ خطرناک مثلث اپنی ذاتی جائیدادیں بنانے، اپنے خاندانوں کو نوازنے اور اپنے اقتدار کو طول دینے پہ خرچ کرتی ہے۔پورے ملک سے کرپٹ افراد کے ٹولوں کو انہوں نے اپنا وفادار بنایا ہوا ہے اور اس بد قسمت ملک کو استحصال کے بدترین چنگل میں کسا ہوا ہے۔

شاید میرے الفاظ سخت محسوس ہوں لیکن ’’یہ تلخی بے جا نہیں ہے‘‘ ریاستی نظام پہ قابض یہ کرپٹ مافیا نے اپنے ذاتی کمیشن کے لئے قومی قدرتی وسائل کو سامراجی کمپنیوں کے حوالے کر دیا گیا، اس وقت وطن عزیز میں ڈیڑ سو سے زائد ’’ایسٹ انڈیا‘‘ کمپنی جیسی استحصالی کمپنیاں پوری قوت کے ساتھ پاکستانی مارکیٹ پہ قابض ہیں اور خوب دل کھول کر قدرتی وسائل کو بھی لوٹ رہی ہیں اور اپنا پیسہ بغیر کسی رکاوٹ کے باہر منتقل کر رہی ہیں نیز سب سے افسوسناک صوررتحال یہ ہے کہ مقامی صنعت کو انہوں نے چلتا کر دیا ہے، ملک کو عالمی سامراجی اداروں کے ہاں اربوں ڈالرز کا مقروض بنا کر معاشی و سیاسی حوالے سے غلام بنا دیا گیا۔دفاع کے نام پہ،کک بیکس اور کمیشن کی خاطر ملک کا اکثریتی بجٹ جنگی سازو سامان بنانے والی سامراجی کمپنیوں کو کھلایا جا رہا ہے،ملکی دفاع کو خودکفالت کی طرف لے جانے کی بجائے سامراجی ممالک کے ناکارہ ٹیکنالوجی کو قومی استحصال کا ذریعہ بنایا جا رہا ہے، ہر سال خسارے کا بجٹ بنتا ہے، بیرونی سود خوروں اور اندرونی سود خوروں کے قرضوں کی ادائیگی کے لئے مزید قرضے لئے جاتے ہیں،اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ ایک ایسا گھر جو کہ ہر طرح کی نعمتوں سے مالا مال ہے اس گھر کے باشندوں کو سود خوروں کے ہاں گروی رکھ دیا گیا، اور اس گھر کے تمام وسائل قومی اور بین الاقوامی استحصالی اور کرپٹ مافیا کے قبضے میں چلے گئے۔

ظاہر ہے معیشت کسی بھی قوم کی ریڑھ کی ہڈی ہے، جب وہ کمزور ہو جائے یا ٹوٹ جائے تو پھر قوم کا جسم بے جان ہو جاتا ہے، یہی کچھ پاکستان کے ساتھ ہوا، اس وقت وہ تمام شعبے یا ادارے جن کا قومی اور ملکی ترقی میں بنیادی کردار ہے سب زوال کا شکار ہیں، تعلیمی نظام کے لئے مناسب بجٹ نہیں، جس کے بغیر قومیں اپنے مستقبل کا تعین نہیں کر سکتیں ہیں،صحت کے نظام لئے بجٹ نہیں جس کے بغیر قومیں صحت مند نسلیں پیدا نہیں کر سکتیں، اگر بجٹ کا ایک بڑا حصہ چاہئے تو وہ اسلحہ و گولہ بارود کے لئے، اگر بجٹ چاہئے تو بڑے بڑے پلوں اور سڑکوں کے لئے۔توانائی کا بحران عوام کے کے لئے وبال جان بن چکا ہے، بیروز گاری اور امن و امان کے مسئلے نے معاشرے کو عدم تحفظ کا شکار بنا دیا ہے۔باصلاحیت اور ذہین نوجوان ملک چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں، معاشرہ غربت اور امارت کی ایک بڑی خلیج سے گذر رہاہے، سستا انصاف، بنیادی ضروریات سے محروم معاشرہ تشدد اور ذہنی انتشار کا نقشہ پیش کرتا ہے۔خلاصہ کلام یہ ہے کہ ایک بدترین ریاستی نظام جس میں فوجی ،سول بیورو کریسی، سرمایہ دار و جاگیردار سیاستدان طبقات شامل ہیں کی بد انتظامی، نااہلی اور انتہائی درجہ کی کرپشن سے پاکستان اکیسویں صدی کے تقاضوں سے نبرد آزما ہونے سے محروم ہو چکا ہے ۔

ہر محب وطن اور باشعورپاکستانی کا یہ خواب ہے کہ ہمارا وطن پاکستان دنیا کی اقوام میں ایک باعزت مقام کا حامل ہو،ریاست کا ہر ادارہ اکیسویں صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو کر معاشی اور تعلیمی میدانوں میں کار ہائے نمایاں انجام دے۔ملک کے اندر ایک مضبوط اور مستحکم جمہوری سیاسی نظام ہو جو تمام صوبوں کو آپس میں اس طرح جوڑ کر رکھے کہ آپس کی نفرتیں اور کدورتیں ختم ہو جائیں، ریاست کے دیگر ادارے مثلاً فوج سول بیورو کریسی اور عدلیہ وغیرہ پبلک سرونٹ ہونے کی حیثیت سے ریاست کے آئین میں تفویض کردہ حدود میں رہتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں نبھاہیں۔ ملک کے سیاسی نظام میں آئین کے تحت سو فیصد شفاف الیکشن کا نظام موجود ہو جس کے تحت منتخب شدہ عوامی نمائندے ، عوامی جذبہ خدمت کے تحت قومی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے ملکی قوانین اور پالیسیاں وضع کریں اور ان پہ عمل در آمد کو یقینی بنائیں۔پولیس کا نظام غیر سیاسی ہو اور عوام کی جان ومال کے تحفظ کے لئے انہیں بہترین اخلاقی اور پیشہ وارانہ تربیت فراہم کی جائے نیز انہیں تمام بنیادی سہولیات مہیا کی جائیں تاکہ وہ معاشی کسمپرسی سے نکل کر اپنی ڈیوٹی انجام دیں اور معاشرے میں امن و امان ہو،عدلیہ کا نظام ایسا ہو کہ قانون صرف کمزور کے لئے نہ ہو بلکہ طاقتور کو بھی سزا دے سکے،فوری اور سستا انصاف سب کے لئے ہو، قانون پہ سختی سے عمل در آمد ہو،وی آئی کلچر کا خاتمہ ہو،معاشی ، تجارتی پالسیاں قومی مفادات کو سامنے رکھ کر بنائی جائیں اور پھر ہر حکومت میں ان پہ عمل در آمد کو یقینی بنایا جائے ۔

اگر بہترین معاشی پالیسیاں بنائی جائیں اور ان پہ عمل در آمد کو یقینی بنایا جائے تو وہ وقت ضرور آ سکتا ہے کہ پاکستان کی مضبوط انڈسٹری ہر شعبہ کے اندر عالمی منڈیوں میں اپنی مانگ پیدا کرے، ہماری زراعت اتنی ترقی کرے کہ ہم نہ صرف اپنی ضروریات میں خود کفیل ہو جائیں بلکہ عالمی منڈیوں میں اپنی پروڈکس کو فروخت کریں۔ہمارا تعلیمی نظام عصری تقاضوں کے مطابق ہو، تعلیم سب کے لئے سستی اور یکساں ہو، اعلیٰ تعلیم کے مستند ادارے ہوں جہاں سے اعلیٰ دماغ نکلیں اور ملکی نظام کے مختلف شعبوں کو چلائیں نیز جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں نئی ایجادات کے زریعے ملکی صنعت وتجارت ودیگر شعبوں کو مزید مستحکم کریں۔صحت و صفائی کا نظام اس قدر فعال ہو کہ ہر شہری کو آسانی سے صاف پینے کا پانی میسر ہو، ماحولیات کی صفائی، سینی ٹیشن وغیرہ کا بہترین نظام ملک کے ہر گوشے اور ہر سطح پہ سختی سے کام کر رہا ہو۔اور پھر ہسپتالوں کا ایک ایسا نیٹ ورک موجود ہو جو ہر شہری کو بلا امتیاز بہترین علاج کی سہولیات مہیا کرے۔ہم سب کا خواب ایسا پاکستان ہے جہاں اتنی خوشحالی ہو کہ کوئی بھی فرد اپنا ملک چھوڑ کر روز گار کی تلاش میں پردیس نہ جائے، سبز پاسپورٹ کی دنیا بھر میں عزت ہو، ہم اپنی تعلیم،اخلاق، معاشی ترقی، اپنے خوبصورت کلچر اور تہذیب سے پہچانیں جائیں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ یہ خواب کیسے پورا ہو سکتا ہے؟سماجی مفکرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی معاشرے میں علت و معلول یعنیCauses & Effectsکا عمل ہمہ وقت جاری رہتا ہے۔ہر خرابی کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے،اگر خرابی کو ختم کرنا ہے تو سب سے پہلے اس کی وجہ کو جاننا اور اسے ختم کرنا ضروری ہوتا ہے۔بالکل اسی اصول پہ اگر ہم پاکستانی معاشرے کا جائزہ لیں تو ان تمام شعبوں میں رونما ہونے والی اجتماعی خرابیوں کی اصل وجہ تلاش کرنی پڑے گی،اور اس وجہ کے خاتمے سے ان خرابیوں کا تدارک کیا جا سکے گا۔

اوپر بیان کئے گئے تجزیہ پہ غور کریں تو اس تمام خرابی اور زوال کی بنیادی اور اہم وجہ ملک کا مرکزی نظام ہے جو کہ فوجی، سول بیورو کریسی اور سرمایہ دار وجاگیردار طبقے کے سیاستدانوں کے گٹھ جوڑ پر مشتمل ہے۔ جس کی کرپشن، نااہلی اور بد انتظامی کی وجہ سے آج یہ زوال موجود ہے۔نہایت آسان حل یہ ہے کہ اس بنیادی وجہ یعنی مرکزی نظام کو چلانے والے کرپٹ ، نااہل ارباب اختیار کو نہ صرف ان اداروں سے بے دخل کیا جائے، بلکہ انہیں ایک قومی مجرم کے طور پہ انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے، اور انہیں نشان عبرت بنایا جائے۔توجہ طلب بات یہ ہے کہ مرکزی نظام کو درست کئے بغیر ذیلی نظاموں اور شعبہ جات کی کار کردگی کو کبھی بھی تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ذیلی اداروں اور شعبوں میں بھلے جتنی بھی اصلاحی کوششیں کی جائیں، جتنے بھی ایماندار افراد موجود ہوں اور وہ اپنی بساط کے مطابق کوشش بھی کریں لیکن ان کی تمام تر کوششیں رائیگاں ہوں گی اور کسی بھی طرح کے مثبت اثرات مرتب نہیں ہوں گے جب تک مرکزی نظام فعال اور مثبت کردار ادا نہ کرے۔اس کی مثال اس طرح سے دی جا سکتی ہے کہ ’’ پانی کے کنوئیں میں مردہ کتا موجود ہو تو کتے کو نکالے بغیر پانی کبھی صاف نہیں ہو سکتا‘‘بالکل اسی طرح پاکستانی مرکزی ریاستی نظام سے اس ’’مردہ کتے‘‘ یعنی کرپٹ سول و فوجی بیورو کریٹس اور کرپٹ سیاستدانوں کو فارغ نہیں کیا جائے گا تو کسی بھی مثبت تبدیلی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔
سماجی مفکرین معاشرتی جسم کو صحت مند رکھنے کے حوالے سے ایک اور مثال بھی دیتے ہیں کہ جس طرح انسانی جسم میں’’ دل‘‘ مرکزی کردار ادا کرتا ہے بالکل اسی طرح کسی ریاست کے جسم میں ’’مرکزی سیاسی نظام‘‘ دل کا کردار ادا کرتا ہے، جس طرح انسانی جسم میں دل اپنا کام کرنا چھوڑ دے تو پورا جسم بیکار ہو جاتا ہے بالکل اسی طرح ریاستی جسم میں مرکزی سیاسی نظام اگر اپنا مثبت کردار ادا کرنا چھوڑ دے گا تو معاشرے کا پورا جسم بیکار ہو جائے گا۔اس طرح اگر جسم کے تمام افعال کو درست طریقے پہ چلانا ہے تو دل کی صحت کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے۔اور اگر ریاست کے افعال کو درست اور توانا رکھنا ہے تو مرکزی سیاسی نظام کو صحت مند بنانا ہو گا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خرابی کی وجہ بھی جان لی اب اس کا تدارک کیسے کیا جائے؟اس کے لئے اگر ہم تاریخ کے مطالعے سے سیاسی و سماجی تبدیلیوں میں کار فرما اصولوں اور جدو جہد کا شعور حاصل کریں تو یقیناً ایک بہترین حکمت عملی سے تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔یقیناًاجتماعی تبدیلی کا عمل وقت کا متقاضی ہوتا ہے لیکن پہلا قدم اٹھانے کی دیر ہوتی ہے، قدم سے قدم ملتا ہے اور سب کچھ تبدیل ہو جاتا ہے۔پاکستان میں خرابی کی اصل وجہ کو دور کرنے کے لئے ایک بہترین جمہوری سیاسی تنظیم کی تشکیل چاہئے، جو اس وقت ہمارے معاشرے میں موجود نہیں،سیاسی افق پہ موجود تمام گروہ گذشتہ نصف صدی سے جھوٹ اور کرپشن کی بنیاد پہ اسی کرپٹ نظام کا حصہ رہے ہیں لہذا ان سے بھی کسی قسم کی امید نہیں رکھی جا سکتی،اس وقت ہمارے معاشرے میں کروڑوں کی تعداد میں پڑھے لکھے نوجوان موجود ہیں جو اس وقت ملکی سیاست سے قطع تعلق کئے ہوئے ہیں، اس وقت ضرورت ہے کہ انہیں متحرک کیا جائے اور منظم کر کے ایک پلیٹ فارم پہ لانے کی ترکیب کی جائے، انہیں تربیت کے مراحل سے گذار ملک کو ایک بالکل نئی قیادت فراہم کرنے کی حکمت عملی پہ کام کیا جائے، ان نوجوانوں کی تنظیم کے لئے ایک مخصوص عرصے تک بہترین اور مخلص افراد کا انتخاب کیا جائے، ان کی سیاسی و اخلاقی تربیت کا بہترین انتظام موجود ہو، موجودہ ملکی نظام کی خرابیوں کا انہیں شعور ہو، عصری سیاسی، معاشی تقاضوں کا مکمل علم اور شعور ہو، سیاسی و معاشی نظام کو چلانے کی ان میں بھر پور صلاحیت پیدا کی جائے،تربیت کے عمل سے گذرنے کے بعد یہ تنظیم ایک قیادت کی صورت میں ملک کے سیاسی افق پہ نمودار ہو، اور عوامی طاقت کو ایک بہترین قیادت فراہم کرے، انہیں اپنا ہمنوا بنا کر جمہوری عمل سے سیاسی اداروں تک مکمل رسائی حاصل کرے، اور پھر بہترین قائدانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے، آہستہ آہستہ کرپشن سے پاک سول و فوجی بیوروکریسی، عدلیہ، کو آئین کے تابع اپنا کردار ادا کرنے کے لئے قانون سازی کرے۔اور ایسی معاشی، تجارتی پالیسیاں بنائیں اور ان پہ عمل کروائیں جس سے ملک قرضوں کے بوجھ سے نجات حاصل کرے، معاشی خود کفالت حاصل ہو، اس طرح جب معاشی طور پہ ملک مضبوط ہو گا تو باقی مسائل آہستہ آہستہ حل ہونا شروع ہو جائیں گے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ موجودہ کرپٹ اور ناہل سیاسی نظام اور اسٹیبلشمنٹ کے ہوتے ہوئے، کسی بھی سطح کی ترقی یا خوشحالی کا صرف خواب دیکھا جا سکتا ہے اس کو عملی تعبیر نہیں دی جا سکتی۔مزید آسان الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت اس فرسودہ نظام سے آزادی کے بعد ہی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر کیا جا سکتا ہے، اور آزادی حاصل کرنے کے لئے پاکستان کے پڑھے لکھے طبقات، اور خاص طور پہ نوجوانوں کو ایک طویل جدو جہد کرنی پڑے گی۔
Dr. Muhammad Javed
About the Author: Dr. Muhammad Javed Read More Articles by Dr. Muhammad Javed: 104 Articles with 136024 views I Received my PhD degree in Political Science in 2010 from University of Karachi. Research studies, Research Articles, columns writing on social scien.. View More