ملک خداداد کو آزادہوئے 70سال کو عرصہ
ہوچلاہے ،ان ستر سالوں میں ہم نے کیا کھویا کیا پایا ،ہمارے بزرگوں ،ہمارے
اسلاف نے ہمارے لئے کیا چھوڑا ،ہماری روایات کیا تھیں؟کیا ہیں؟اور مستقبل
میں ان کا کیا حال ہونے والاہے ؟ہم کہاں تھے ؟ہماری پہچان کیا تھی ؟کیا
ہے؟اور آگے جاکر کیا ہونے والی ہے ؟یہ تمام سوالات ہر اس انسان سے جڑے ہوئے
ہیں جو اس عرض پاک میں رہتا ہے ۔۔سانس لیتا ہے۔زندگی جیتا ہے۔۔اگر تو ہم ان
سوالات کے جوابات اپنی آئندہ نسلوں کو دینے کے قابل ہیں تو یقینا ہم ایک
بامقصد زندگی گزاررہے ہیں لیکن اگر ہم ایسا کرنے سے قاصر نظر آئے تو وہ وقت
دورنہیں ہوگا کہ ہمارا نام نہیں ہوگا نام لینے والوں میں۔۔۔خیر وقت کب بدلے
۔۔کب ہماری تقدیریں سنور جائیں یہ صرف اوپر والاہی بہتر طور جان سکتا
ہے۔مگر جناب ہر انسان کی زندگی کا ایک خاص مقصد ہوتاہے اگروہ ایک مقصد کے
ساتھ اپنی زندگی کی ڈگر پر چلتا ہے تویقینا حال اور مستقبل تابناک
ہونگے۔لیکن اگر اس کے جینے کا کوئی مقصد نہیں تو وہ خود اور اس کے اردگرد
کے لوگ بھی نقصان اٹھائیں گے۔اورپھر وہی کہاوت کہ ’’اب کیا ہوت جب چڑیا چگ
گئیں کھیت‘‘۔لیکن انسان کو اﷲ تعالیٰ نے باشعور پیدا فرما یا ہے اور اسی
شعور کو مدنظررکھتے ہوئے وہ اپنے حال اورمستقبل کا فیصلہ ضرور بالضرور کرے
گا۔بات کہاں سے شروع ہوئی اور کہاں چل نکلی ہے۔۔۔بات چونکہ ارض پاک پر
ہورہی تھی اور ارض پاک پر جتنی بھی بات کی جائے کم ہے کیونکہ اوپر بیان
ہواکہ ہم اس دھرتی پر جنم لئے ہوئے ہیں۔۔ہمیں اس دھرتی ماں نے ایک پہچان دی
ہے۔۔ہم اس کے باسی اور رکھوالے ہیں ۔۔۔اور جناب ایساتب ہی ممکن ہوپائے گا
کہ ہم اس کے رکھوالے کہلا پائیں کہ ہم اس دھرتی ماں کی ترقی اور خوشحالی کے
اپنا تن من دھن سب کچھ لٹا دیں۔۔پاکستان جواﷲ تعالیٰ کی دین ہے۔۔آج اگر میں
،آپ اورہم سب اپنے اپنے لئے کچھ خاص کرنے کی سو چ رکھتے ہیں تویقینا ا س
میں ہمارے ملک کی ترقی اور خوشحالی کا عنصر بھی موجودہونا چاہیے ورنہ دوسرے
الفاظ میں ہم چند لوگ تو ترقی کرسکیں گے مگر ہمارا ملک اور اس میں بسنے
والے کروڑوں لوگ غربت اوربے چارگی میں پسے رہ جائیں گے۔میں جس طرح خود کے
لئے تابناک اورروشن مستقبل چاہتا ہوں ویسے ہی اپنے ملک کے لئے میری سوچ
مثبت ہونی چاہیے۔آج اگر میں یا ہم کسی مقام پر ہیں تو یقینا اس ارض پاک کی
بدولت ہیں۔۔آج اگر میں اپنے بارے میں سوچتا ہوں تو یقینا میری سوچ کا دائرہ
کار اتنا وسیع ہونا چاہیے کہ اس میں صرف اور صرف میرا ملک اور میرا وطن ہی
ہو۔ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ میرے وطن میں کیا ہورہاہے؟کیا ٹھیک ہورہاہے
اور کیا غلط؟کون اس کی بھلائی چاہتا ہے اورکون اسے تذلیل کی راہوں سے گزار
کر صفحہ ہستی سے مٹانے پر تلا ہواہے؟یہ جو ہم اپنے اردگرد دشمنوں کے
پیداکردہ حالات دیکھتے ہیں کیا ہم اتنی بھی سکت یا طاقت نہیں رکھتے کہ ہم
ان حالات سے اپنے پیار ے وطن کونکال باہرکر لیں۔۔مانا کہ ہمارے اپنوں نے
ہمیں اور اس وطن کو تاریکیوں میں دھکیل دیا ہے لیکن جناب ایسا بھی نہیں کہ
ہم سب مردہ مچھلیاں بن کر پانی کے ساتھ چل پڑے ہیں۔۔آج اگر وطن عزیز مشکل
اورکٹھن حالات سے گزر رہاہے تو اس میں ہمارا بھی کہیں نہ کہیں قصوربنتاہے
لیکن حالات اتنے بھی گئے گزرے نہیں کہ ہم انہیں ٹھیک نہ کرسکیں۔ماناکہ ملک
میں چند مفاد پرستوں نے اہم اداروں کو نقصان پہنچایا ہے لیکن کیا ہم اتنی
بھی صلاحیت نہیں رکھتے کہ ان اداروں کو ٹھیک کرسکیں۔اس کے ساتھ ساتھ ہمیں
ان تمام پہلوؤں پر بھی نظرثانی کرنی ہوگی جن کی وجہ سے ہم دنیا سے کافی
پیچھے نظرآتے ہیں۔۔جیسے کسی بھی ملک کی ترقی کا راز اس ملک کے تعلیمی
ڈھانچے پرہوتاہے ۔۔ہمیں سب سے پہلے اپنے تعلیمی ڈھانچے پر نظرثانی کرنی
ہوگی۔ہم دیگر اداروں کو جلد ازجلد ٹھیک کرنے کی توبات کرتے ہیں مگر جناب کہ
ہم اپنے تعلیمی ڈھانچے میں مثبت تبدیلی کی بات بھی کرتے ہیں۔افسوس سے کہنا
پڑجاتاہے کہ اس وقت ملک میں چار قسم کے بچے تیا رہورہے ہیں۔ہمارا پہلی قسم
کا بچہ او لیول اوراے لیول کی تعلیم حاصل کررہاہے۔دوسری قسم کا بچہ
پرائیویٹ سکولوں میں ،تیسری قسم کا بچہ ہمارے انتہائی ناگفتہ بہ حالت میں
سرکاری سکولوں میں کہ جن کی تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے۔اور ہمارا چوتھا بچہ
دینی مدارس میں۔اب آپ خود سوچیں کہ جب ایک ملک میں چار اذہان والے بچے تیار
ہونگے تو اس ملک کے تعلیمی ڈھانچے کاکیا حال ہوگا ۔۔یہاں یہ سوال ضرور ذہن
میں گرد ش کرنے لگتاہے کہ کیا ہمارے ہاں ماہرین کی کمی ہے؟نہیں جناب ایسا
بھی نہیں ۔توپھر کیوں ایسا نہیں کیا جارہا؟آپ سوچ رہے ہونگے ایسا کیونکر
نہیں ہورہا۔ہرسال بجٹ میں بھی اچھاخاصا فنڈ مقرر کیا جاتاہے پھر کیوں۔ہمارے
پاس ماہرین کی بھی فوج ٹھنڈے ٹھنڈے کمروں میں اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہیں
تو پھر کیوں ملک تعلیمی لحاظ سے ترقی نہیں کررہا ۔۔اس کا آسان سا جواب ہے
کہ ہم خود نہیں چاہتے کہ ہمارے ملک کاتعلیمی ڈھانچہ ٹھیک ہوسکے۔کیونکہ ان
اعلیٰ عہدوں پر پہنچے والے ہم پاکستانی ہی ہیں؟لیکن جناب میں ان لوگوں کو
پاکستانی نہیں کہوں گا جو پاکستان کے مفاد اورترقی کے لئے اپنے دن رات ایک
نہیں کرتے۔بات ہورہی تھی تعلیمی ڈھانچے حکومتی دعوے تو سننے کوملتے ہیں ہم
نے سکولوں کی حالت ٹھیک کردی ہے۔اس میں اساتذہ کی تعداد بڑھا دی ہے ۔مگر
کیا حکومت نے ان سکولوں میں پڑھانے والے اساتذہ کی کارکردگی کو جانچنے کی
کبھی کوشش کی ہے۔ایک عرصہ ہوا سرکاری سکولوں میں پڑھانے والے اساتذہ کی
کارکردگی پر بات ہوتی ہے مگر پھر سمند رکی جھاگ کی طرح ہمارے ارادے بیٹھ
جاتے ہیں۔ہمارے ماہرین جوکہ ہم میں سے ہیں وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ غریب
کا بچہ بھی اعلیٰ اورمعیاری تعلیم حاصل کرے۔آپ لوگوں نے ملک کا آئین تو
پڑھا ہی ہوگا اس میں بات کی جاتی ہے بنیادی حقوق کی۔کیا ہم نے کبھی بنیادی
حقوق پر بات کی ہے؟کیا ہم بنیادی حقوق بارے کچھ جانتے ہیں؟اگر ہاں تو مجھے
جواب چاہیے کہ آج اس ملک میں بنیادی حقوق کسے مل رہے ہیں؟آج اس ملک کا بچہ
ایک وقت کی روٹی کے لئے کیوں ترس رہاہے؟آج غریب کے بچے کو بنیادی تعلیم
کیوں نہیں مل رہی؟بنیادی تعلیم کامطلب یہ نہیں کہ کوئی بھی بچہ پرائمری یا
مڈل تعلیم حاصل کئے بنا نہ رہے بلکہ بنیاد ی تعلیم کا مطلب ہوتاہے ایسی
تعلیم جس سے کسی بھی ملک کا ہر بچہ مستفید ہوسکے اور جدید دور سے مقابلہ
کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ہم اورہمارے نااہل ماہرین جسے ماہرین آپ لوگ
سمجھتے ہونگے میں نہیں کیونکہ وہ صرف کتابی باتوں پر یقین رکھتے ہیں عملاً
پر بھی۔آج اگر ہمارے ملک کا تعلیمی ڈھانچہ تنزلی کا شکار ہے تویقینا وہ
تمام نااہل ماہرین تعلیم اس کے ذمہ دار ٹھہرتے ہیں جو کبھی نہیں چاہتے کہ
غریب کا بچہ بھی معیاری تعلیم حاصل کرسکے۔اس لئے ہمیں ان لوگوں کو ماہرین
کے عہدے دینا ہونگے جو پہلے توپاکستانی ہوں۔۔میرا مطلب پاکستان سے انہیں
لگاؤ ۔۔مفاد پرست کا داغ ان کے دامن پر نہ ہو۔ اسی طرح ان میں حب الوطنی
کوٹ کوٹ کربھری ہوئی ہو۔۔ایسے لوگ جب تعلیم کے شعبہ میں اپنی صلاحتیں منوا
ئیں گے تویقینا ملک میں یکسا ں نظام تعلیم کا نعرہ عملی جامہ پہنے گا ورنہ
دوسرے الفاظ میں چار قسم کے بچے تو پہلے ہی سے تیا رہورہے ہیں۔ہم جہاں
تبدیلی کی بات کرتے ہیں وہاں یہ یکسر بھول جاتے ہیں کہ تبدیلی ہم سے ہے ہم
اگر اپنے آپ کو تبدیل نہیں کریں گے تو ملک میں تبدیل کبھی نہیں آئے گی۔۔اس
لئے سب سے پاکستان کا تعلیمی ڈھانچہ مثبت تبدیلی کا متقاضی ہے۔یہاں چونکہ
بات جدید دورسے اپنے آپ کو ہم آہنگ کرنے کی ہورہی ہے اس لئے ہماری ذمہ
داریاں بھی جو بنتی ہیں انہیں بھی ملحوظ خاص رکھنا ہوگا جیسے ہمارا پڑوسی
ملک چائنا ہمیں سستے نرخوں میں جدیدآلات فراہم کررہاہے تو اس کے بعد ہماری
کیا ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم بھی اپنا فرض اداکرکے ملک کو ترقی کی راہوں پر
گامزن کرسکیں۔جیسے آپ اگر کوئی بھی ملک اوریجنل ٹیبلٹ ساٹھ سے ستر ہزارمیں
مہیاکررہاہے تودوسری جانب اسی طرح کا ٹیبلٹ چائنا ہمیں چھ سے سات ہزارمیں ۔اب
یہاں ہماری کیا ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اپنے آپ کو اس جدید ٹیکنالوجی سے ہم
آہنگ کرکے ملکی ترقی میں اپنا مثبت کردارااداکریں۔جیسا اوپر بیان ہوچکاکہ
پاکستان کیسا ہونا چاہیے؟تو یقینا جناب ملکی ادارے تب ہی مستحکم ہوسکیں گے
جب ہمارا تعلیمی ڈھانچہ مستحکم ہوگا ،اس میں ماہرین تعلیم اپنی ذمہ داریاں
احسن طریقے سے نبھائیں گے اور سرکاری سکولوں سے نکلنے والے بچے معاشرہ پر
بوجھ بننے کی بجائے معاشرہ کی ترقی میں اپنا کرداراداکریں گے۔اگر تو ہم یہ
بات کریں کہ ہمیں ان لوگوں کو اقتدارکے ایوانوں تک پہنچانا چاہیے جو اہل
ہیں تو جناب یہ بھی قابل غور ہے کہ ماہرین کی عدم دستیابی ہی ہماری بدقسمتی
ہے ۔ہم اگر اقتدارکے ایوانوں تک اہل لوگوں کو پہنچائیں گے تو پہلے تو ہمیں
اہل لوگوں کو ڈھونڈنا ہوگا کہ اہل لوگ پاکستان میں رہتے کہاں ہیں؟کیونکہ
ہمارے ڈاکٹرز ،انجینئرز،اساتذہ ،وکلاء اوردیگر شعبہ جات میں ماہر لوگوں کو
ماہرین سمجھا جاتاہے یہ بھول کر کہ ان تمام شعبوں میں کام کرنے والوں کی
کارکردگی کیا ہے؟ہم اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتے ہیں کہ ہمارے تمام شعبہ جات
کس نہج کو پہنچ چکے ہیں بلکہ ہم وقت کو ضائع کئے بغیر ان امور پر
غورفرمائیں گے جن سے ہماراپاکستا ن ترقی کی راہوں پر گامزن ہوسکے۔آج جیسے
میں اپنی زندگی اور اپنا مستقبل تابناک چاہتاہوں ایسے ہی میری سوچ میرے ملک
کے بارے میں بھی ہو۔پاکستان کیسا ہونا چاہیے؟اس کے لئے ضروری بات سب سے
پہلے کہ ہمیں اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا ۔بحث شروع کہاں سے ہوئی تھی اور پہنچ
کہا ں کو گئی ۔۔آج میں اگر اپنے کو اپنے پاکستان کو کہیں دیکھنا چاہتاہوں
تو اس کے لئے مجھے خود کوبدلنا ہوگا۔اسی طرح سیڑھی بنے گی۔۔اور ملک میں وہ
تمام ادارے اپنی اپنی کارکردگی کو مثبت بنانا شروع کردیں گے ورنہ دوسرے
الفاظ میں جیسا ہے ویسا چلنے دو۔لیکن اگر تبدیلی چاہتے ہو تو خود کو
بدلو۔۔معاشرہ اور ادارے خود بدل جائیں گے۔۔پاکستان زندہ باد |