میرا پاکستان کیسا ہو؟
(Sajid Mahmood Muslim, Jhang)
پاکستان کے نام میں پاکستان کا مقصدِ تخلیق چھپا ہے۔علامہ اقبال مرحوم نےاسلامیانِ ہند کو آزادوطن حاصل کرنے کی ترغیب دی، جسےمحمد علی جناح مرحوم نے ببانگِ دھل دنیا کے سامنے پیش کیا۔لھٰذا پاکستان اسی صورت میں ٓزاد، خود مختار اور ترقی یافتہ و خوشحال ہو سکتا ہے جب اسے اقبال کے خواب اور اسلامیانِ ہند کی اپنے خون سے لکھی تحریر کے موافق تعمیر کیا جائے۔ |
|
|
وطن عزیز پاکستان اللہ تعالیٰ کا ایک عظیم
احسان ہے جس کے لئے ہم ربَ ذوالجلال کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے۔علامہ
اقبال مرحوم نے بالکل صحیح فرمایا تھا:
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال اپنی حالت کے بدلے کا
سب سے پہلے ایک ہمہ گیر تخریک کی ضرورت ہے جو پاکستانی عوام کو یہ شعور دے
سکے کہ پاکستان بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی اور اس کی تخلیق کا مقصد کیا
تھا؟ اسلامیان ہند کو اقبال نے کیا پیغام دیا اور اس پیام کی ترجمانی قائد
اعظم محمد علی جناح نے کیسے اور کن حالات میں کی؟لاکھوں مسلمان اپنا گھر
بار، مال اسباب، جائیداد ، کارو بار اور کھیت کھلیان چھؤرنے کے لئے کیوں
آمادہ ہوئے؟پاکستان کی سرحد تک پہنچنے کی خواہش میں پانچ لاکھ مسلمانوں نے
اپنی جانیں کیوں قربان کیں؟اگر مسئلہ محض ایک گھر سے دوسرے گھر، ایک کھیت
سے دوسرے کھیت، ایک دوکان سے دوسری دوکان میں منتقل ہونے کا تھا تو اس کے
لئے اتنی گردنیں کٹانے اور اور اپنی عزتیں پائمال کرانے کی کیا ضرورت لاحق
تھی؟
پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ کی صدا بلند کرنے والےدیوانے نہیں
تھے۔گرچہ اس نعرہ کو بلند کرنے کے لئے انہیں اپنے سینے گولیوں سے چھلنی
کرانا پڑے مگر وہ پورے شعور و خلوص اور حواس کی سلامتی کے ساتھ اس نعرہ کی
سچائی پر یقین رکھتے تھے۔پاکستان کا نعرہ انہوں نے ہندوستان کے مقابل ایجاد
کیا تھا۔ قرآن کے مطابق بت پرست مشرک معنوی طور پر نجس ہیں۔جیسا کہ ارشاد
ہے: انما المشرکون نجس(سورہ توبہ:٢٨) چانچہ اسلامیان ہند ایک ایسی پاک سر
زمین چاہتے تھے جہاں ہندووں کا پلید سایہ نہ ہو۔ جہاں بت پرستی کی بجائے
توحید کے پرچم لہراتے ہوں۔ جہاں ان کے بچوں کو ہندو دیو مالا پر مبنی بندے
ماترم کی بجائے قرآن حکیم کی مقدس آیات تلاوت کرنے کی سعادت حاصل ہو۔جہاں
مسلمان کے چھو جانے سے کسی برہمن کا دھرم بھرشٹ ہونے کا امکان نہ ہو۔جہاں
گائے ذبح کرنے کے جرم میں خود ذبح نہ ہونا پڑے۔جہاں گائے کا پیشاب تبرک
سمجھ کر نہ پیا جاتا ہو۔جہاں ملکہ برطانیہ کی بجائے قرآن کا حکم چلتا
ہو۔جہاں ہندوؤں اور انگریزوں کی بجائے مسلمانوں کی اپنی خود مختار حکومت
ہو۔جہاں ہندو ساہوکاروں کے سودی نظام کا جال نہ بچھا ہو۔جہاں عدالتوں سے
وہی انصاف مل سکے جو سرزمین عرب کے باسیوں کو محمد عربی صلی اللہ علیہ و
آلہ وسلم کی عدالت سے ملتا تھا۔جہاں ایک غلام کو وہی مقام حاصل ہو جو سیدنا
عثمان رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو حاصل
تھا۔جہاں ورن آشرم کا بنایا ہوا ذات پات کا نظام نہ ہو۔جہاں محمود و ایاز
ایک صف میں کھڑے ہوکر رب کی بندگی کر سکیں۔جہاں ویسا ہی اخوت و محبت کا
ماحول ہو جو ہجرت مدینہ کے بعد مہاجرین و انصار کے مابین مواخات قائم ہونے
سے پیدا ہوا تھا۔
یقینا میں بھی ایسا ہی پاکستان چاہتا ہوں جس کا خواب ہمارے آباو اجداد نے
دیکھا تھا۔عملی طور پر ایسا کیسے ممکن ہے، اس کے لئے میں درج ذیل اقدامات
تجویز کرتا ہوں:
١۔ فوری طور پر سکول اور مدرسہ میں تفریق ختم کی جائے۔اسلام مکمل ضابطہ
حیات ہے جس میں دین اور دنیا کو الگ الگ دائروں میں تقسیم نہیں کیا گیا
بلکہ دنیا کا دائرہ اسلام کے وسیع دائرے کے اندر سمویا ہوا ہے۔میٹرک کی سطح
پر تمام طلبہ یکساں نصاب پڑھنے کے پابند ہوں۔جس میں بنیادی دینی علوم کے
ساتھ ساتھ ریاضی، سائنس، جغرافیہ اور تاریخ کے مضامین شامل ہوں۔قومی زبان
اردو کو ذریعہ تعلیم بنایا جائے۔ کالج کی سطح پر تمام شعبہ جات الگ الگ کر
دئے جائیں۔جو طالب علم جس شعبہ میں آگے بڑھنا چاہے وہ پوری یکسوئی کے ساتھ
اس میں مہارت حاصل کر سکے۔
ایک دانشور کا قول ہے کہ اگر آپ اپنی قوم میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو
اپنے معلمین میں تبدیلی لائیں۔مذکورہ بالا نظام میں وہی اساتذہ کامیابی کے
ساتھ تعلیم دے سکتے ہیں، جو اسلامی اصول تعلیم کو خوب سمجھتے ہوں اور ان
میں مہارت بھی رکھتے ہوں۔ چناچہ اساتذہ کی تقرری کے لئے معیاری اسلامی
قواعد کو پیش نظر رکھا جائے۔ اولا انہیں ایسا امتحان دینا پڑے جو اسلامی
اصول تعلیم سے واقفیت و مہارت کو جانچ سکتا ہو۔ثانیا تمام اساتذہ کی تقرری
پرائمری درجہ میں کی جائے پھر ان کی کارکردگی کی بنیاد پر انہیں ترقی دی
جائے۔
٢۔ انسان کے اپنے تجربات کی بنیاد پر بنائے ہوئے قوانین انصاف فراہم کرنے
کی ضمانت نہین دے سکتے۔لہٰذا ضروری ہے کہ بتدریج اسلامی قوانین نافذ کئے
جائیں۔اسلامی قوانین سے میری مراد صرف حدود و تعزیرات نہیں ہیں مکمل اسلامی
قانون ہے جو ہمارے آئمہ مجتہدین نے بارہ سو سال پہلے مدون کر دئے تھے۔،
خواہ ان کا تعلق معاشرتی جرائم سے ہو یا نکاح و طلاق سے، سودو قمار سے ہے
یا مشارکت و مضاربت سے، اسلامی قوانین کے بغیر عدالتیں انصاف فراہم کر ہی
نہیں سکتیں، لہٰذا ان کا نفاذ ناگزیر ہے۔
٣۔ قوانین کتنے ہی اچھے کیوں نہ ہوں اگر ان کے نافذ کرنے والے بد دیانت اور
نا اہل ہوں تو وہ قوانین بے کار ہوجاتے ہیں۔ پس قانون نافذ کرنے والے جملہ
اداروں میں انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں
کے سبھی اہلکاروں کے لئے لازم ہو کہ وہ اسلامی قوانین کی لازمی تعلیم حاصل
کریں۔پس تقرری سے قبل ان کی جانچ اسلامی قوانین کی واقفیت کی بنیاد پر ہونا
چاہئے اور تربیت کے طویل مراحل میں گزارا جائے جس میں اخلاقی تربیت سرَ
فہرست ہو۔
٤۔ یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ جن لوگوں کو ہم قانون ساز اداروں یعنی قومی
اسمبلی اور سینٹ کے لئے اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں وہ عموما قانون کی
ابجد سے بھی واقف نہیں ہوتے چہ جائیکہ وہ قانون سازی کر سکیں۔لہٰذا ضروری
ہے کہ قومی نمائندوں کی اہلیت کی شرئط میں بنیادی شرط اسلامی قوانین سے
مکمل واقفیت بھی ہو۔ اس کے لئے جدید طرز کے اسلامی لا کالج بنائے جاسکتے
ہیں۔جس سے فارغ التحصیل ہونا قومی نمائندہ بننے کی لازمی شرط ہو۔
٥۔ تمام جدید فنون سے متعلق پیشہ وارانہ ادارے الگ الگ بنائے جائیں۔نیز ان
میں محض تحریری و تقریری تعلیم کی بجائے عملی تربیت کا لازمی اہتمام کیا
جائے، تاکہ تمام قسم کے کارخانوں کے لئے ہنر مند افراد اپنے دیس میں ہی
مہیا ہو جائیں۔
٦۔ تمام اجناس کی پیدا وار میں خود کفیل ہونے کے لئے ضروری ہے کہ ایسے
مستقل ادارے قائم کئے جائیں جو میٹرک کے بعد جدید زرعی تعلیم و تربیت مہیا
کریں۔ نیز زرعی شعبہ میں استعمال ہو نےوالے تمام آلات اور مرکبات پر ٹیکس
ختم کیا جائے۔ اسی طرح زرعی ٹیوب ویلوں اگر مفت نہیں تو کم از کم ٹیکس فری
بجلی فراہم کی جائے۔
٧۔ توانائی کا بحران ختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ کالا باغ ڈیم سمیت مزید
بڑے ڈیم بنائے جائیں اور جتنے ممکن ہو سکیں نیو کلیئر پاور پلانٹ لگائے
جائیں۔
٨۔ سرکاری افسران اور عہدے داروں کے احتساب کے لئے الگ الگ احتسابی ادارے
بنانے کی ضرورت نہیں بلکہ عدالتی نطام کو آزاد، خود مختار اور شفاف بنایا
جائے۔نیز ہر شہری کو یہ حق حاصل ہو کہ وہ کسی بھی سرکاری افسر کے خلاف
شکایت لے کر عدالت میں جاسکے۔
٩۔ فرقہ واریت کے خاتمہ کے لئے ضرور ہے کہ ایسا تحریری مواد ضبط کر لیا
جائے جس مین امت کے اجماعی عقائدو مسائل کے خلاف لکھا گیا ہو۔نیز ہر ایسے
مقرر کی تقریر پر تاحیات پابندی لگا دی جائے جو عوام کو دوسرے مسالک کے
خلاف اکساتا ہوا پایا جائے۔
١٠۔ تمام سیاسی پارٹیوں پر پابندی لگا دی جائے، اور نمائندوں کا انتخاب غیر
جماعتی بنیادوں پر مذکورہ بالا معیار کے مطابق کیا جائے۔
زلزلوں کی نہ دسترس ہو کبھی اے وطن تری استقامت تک
ہم پر گزریں قیامتیں لیکن تو سلامت رہے قیامت تک
|
|