حکومتی ارکان اور کاروبار!

گزشتہ قومی الیکشن میں جب خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف کی عددی اکثریت سامنے آئی تو پاکستان بھر سے سنجیدہ حلقوں کا خیال تھا کہ پارٹی کو ایک اچھا موقع میسر آگیا ہے کہ وہ اپنی کارکردگی سے اپنے دعووں اور نعروں میں رنگ بھریں، عوام کو بتائیں کہ ان کے منصوبے صرف تقریروں اور تحریروں تک ہی محدود نہیں، بلکہ وہ قابلِ عمل بھی ہیں۔ لیکن ایک تصور پایا جاتا ہے کہ خیبر کی حکومت اس طریقے سے کچھ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی، جس طرح اس کی خواہش اور عوام کی توقعات تھیں۔ صوبہ چونکہ دہشت گردی کا مرکز ہے، اس لئے یقینا وہاں مسائل بھی زیادہ ہیں۔ تاہم پولیس اصلاحات میں بہتری کی خبریں سنتے ہیں، پولیس چونکہ ایک بہت ہی بگڑا ہوا محکمہ سمجھا جاتا ہے ، اس لئے اس کی اصلاح بھی اسی قدر مشکل ہے۔ دوسری بہتری جو خیبر کے جنت نظیر پہاڑی علاقے میں لانے کی کوشش کی جارہی ہے، وہ بھی قابلِ تحسین ہے، کہ وہاں پر کروڑوں کی تعداد میں درخت لگائے جارہے ہیں، جو آنے والے سالوں میں خوشگوار تبدیلی کا موجب بنیں گے۔ تعلیم کے لئے بھی بجٹ میں اضافہ کیا گیا ہے، اس کے اثرات بھی ایک آدھ سال میں سامنے آجائیں گے۔ تاہم یہ بات بھی دیکھنے میں آئی ہے، کہ اگر وہاں کچھ اصلاحات ہوئی ہیں تو آئی ٹی کے دور میں اور سوشل میڈیا کے دلدادہ لوگوں کے ہوتے، وہاں کی مثبت کارکردگی کی تفصیل دوسرے صوبوں کے عوام تک نہیں پہنچ رہی۔

خیبر پختونخواہ کو اﷲ تعالیٰ نے جس قدرتی حسن سے نوازا ہے، اس سے بے شمار ملک محروم ہیں۔ پاکستان میں قدرتِ حق نے ہر قسم کی سطح زمین اور ہر قسم کا موسم عطا فرمایا ہے، مگر خیبر پختونخوا کے بلندوبالا درختوں سے ڈھکے پہاڑ، برف پوش چوٹیاں، آبشاریں، طلسماتی جھیلیں، سیاحوں سے اٹھکیلیاں کرتے بادل، برف پگھلنے ، بارش ہونے اور چشموں کے پانی کے اکٹھا ہونے سے بننے والے دریا، کیا کیا نظارے ہیں کہ بس انسان دیکھتا ہی رہ جاتا ہے۔ یہ سیاحوں کے لئے کسی جنت سے کم نہیں۔ کچھ عرصہ سے یہ یہاں دہشت گردی وغیرہ کے جواز کی بنا پر سیاح ادھر کا رخ نہیں کرتے تھے، یا ان میں نمایاں کمی آگئی تھی، مگر اس علاقے میں سیاحت کی کمی کی خاص اور بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں سیاحت کو فروغ دینے کے لئے ضروری سہولتوں کا فقدان ہے۔ حکومتیں اپنے وسائل اس طرف منتقل کرنے کے بارے میں غور ہی نہیں کرتیں۔ پاکستان کی سیاست میں تاریخی کامیابیاں حاصل کرنے والے میاں برادران بھی سیاحت کا بہت شوق رکھتے ہیں، انہوں نے خاص طور پر پنجاب میں پارکوں وغیرہ پر کافی توجہ دی ہے، مگر بحیثیت وفاقی حکمران شمالی علاقوں کے لئے ان کے کارناموں کی فہرست تشنہ تکمیل ہے، اس طرف انہوں نے کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ اب عمران خان سے اس ضمن میں بہت سی توقعات تھیں، مگر معاملہ درخت لگانے تک ہی محدود ہے۔ اگر شمالی علاقہ جات میں سیاحوں کے لئے پرامن ماحول کے ساتھ ساتھ سہولتیں بھی بہم پہنچا دی جائیں، سڑکوں کو کشادہ کردیا جائے، خستہ سڑکوں کی مرمت ہو جائے، صاف ستھری رہائش گاہیں اور اچھے کھانے وغیرہ ملیں تو کوئی وجہ نہیں کہ یہاں سیر کرنے والوں کو جمِ غفیر نہ جمع ہو جائے، جس سے یہاں کے لوگوں کے روز گار میں معقول اضافہ ہوگا اور ملک بھر سے ہی نہیں ، پوری دنیا سے سیاح یہاں آکر قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہو سکیں گے۔

بات حکومت کی کارکردگی سے شروع ہوئی تھی، جذباتی ہو کر خوبصورت مناظر کی طرف مڑ گئی۔ خیبر پختونخواہ حکومت ایک بہت ہی اہم قدم اٹھانے جارہی ہے،ایک بل کی منظوری دی گئی ہے، جس کے مطابق صوبے میں گورنر، وزیراعلیٰ، سپیکر، ڈپٹی سپیکر، وزراء، مشیر، معاونین خصوصی، ضلع تحصیل ناظم، چیف سیکریٹری سمیت تمام سیکریٹریز، ایڈووکیٹ جنرل وغیرہ میں سے کوئی بھی حکومت میں رہتے ہوئے اپنا ذاتی کاروبار نہیں کر سکے گا، اور نہ ہی کاروبار پر اپنا اثر ورسوخ استعمال کر سکے گا۔ ایک کمیشن تشکیل دیا جائے گا جو ہر سال پبلک آفس ہولڈرز کے اثاثوں کی چھان بین کرے گا۔ قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کو پانچ لاکھ روپے تک جرمانہ ہوگا۔ کمیشن تین ارکان پر مشتمل ہوگا، جس کا انتخاب دو رکنی سلیکشن کمیٹی کرے گی، جس کا ایک رکن حکومتی اور دوسرا اپوزیشن کی طرف سے نامزد کردہ ہوگا۔ خیبر پختونخواہ کا یہ اقدام قابلِ تحسین ہے۔ اس سے ایک بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ تمام بڑے عہدیداروں کے اثاثے سالانہ بنیادوں پر سامنے آجایا کریں گے۔ ایسے اقدام دوسری حکومتیں بھی کرلیں تو کرپشن میں کسی حد تک کمی آسکتی ہے۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472759 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.