میرا پاکستان کیسا ہو۔۔۔۔۔؟
(Prof Talib Ali Awan, Sialkot)
ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کر
اس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کر
۱۹۴۰ء میں قراردادِ پاکستان کی منظوری کے بعد کلکتہ دورے کے دوران قائدِ
اعظمؒ سے سوال کیا گیا کہ پاکستان کیسا ہونا چاہیے؟ تو قائدِ اعظم محمد علی
جناحؒ نے بڑے پُر اعتماد انداز سے جواب دیتے ہوئے کہا ،’’یہ مملکت
یقیناًاسلامی ہوگی ،میرا یقین کہ قرآن کریم میں ہمارے لئے ایک مکمل ضابطۂ
حیات موجود ہے ،جس میں کسی قسم کی ترمیم وتنسیخ اور اصلاح کی گنجائش موجود
نہیں ۔‘‘یوں اس مختصر سے جواب میں آپ ؒ بہت کچھ کہہ گئے ،یہ حقیقت ہے کہ
اسلام کے نام پر بننے والی اس مملکتِ خداداد کی بقاء ،دین ِ اسلام اور قرآن
سے رہنمائی میں مضمر ہے۔بقول اقبال :
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور ہم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
اب سوال یہ ابھرتا ہے کہ کون سا اسلام ۔۔؟بد قسمتی سے ہمارے ہاں ہر ایک نے
دین ِ اسلام کی اپنی ہی تعریف’’ گھڑی ‘‘ہوئی ہے،ہم نے اپنی درخشاں روایات
ترک کرکے مغربی روایات کو اپنا لیا ہے، تبھی تو ہم پوری دنیا میں رسوا ہو
رہے ہیں ،بقول ِ اقبال :
یہی درس دیتا ہے ہمیں ہر شام کا سورج
مغرب کی طرف جاؤ گے تو ڈوب جاؤ گے
اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنے درخشاں ماضی کو مدِنظر رکھتے ہوئے اپنا طرزِ عمل
بدلیں ، بروقت اپنا لائحہ عمل اپنائیں اوروطن عزیز کی تعمیر وترقی میں اپنا
اپنا بھرپور حصہ ڈالتے ہوئے پاک سر زمین کواقوامِ عالم کی صف اول میں
لاکھڑا کریں ،اس کے لئے ہمیں بلا امتیازِرنگ ونسل آگے بڑھنا ہو گا اور
انفرادی و اجتماعی لحاظ سے حسب ذیل اقدامات کو ترجیحی بنیادوں پر عملی جامہ
پہنانا ہو گا:
٭ تعلیم کو عام کرناہوگا ،امیر اور غریب کے بچوں کو یکساں نصاب اور یکساں
تعلیمی مواقع فراہم کرنا ہونگے ۔
٭ صحت عامہ کی بنیادی سہولیات اوربنیادی ضروریات ِ زندگی کی فراہمی کو
یقینی بناناہو گا ۔
٭ عدل و انصاف ،بھائی چارے ،امن و امان ،مساوات،برداشت ا ور پرامن بقائے
باہمی کے جذبے کو پروان چڑھانا ہو گا ۔
٭ حقیقی معنوں میں جمہوریت اور جمہوری اقدارکو فروغ دینا ہوگا ،ایسی
جمہوریت جس میں مڈل کلاس کے بچے کو بھی حصہ لینے کاحق ہو ۔
٭ ذات ،برادری ،علاقائیت ،صوبائیت ،رنگ و نسل کے امتیاز کو بلائے طاق رکھتے
ہوئے صرف اور صرف پاکستانیت اور انسانیت کے جذبے کو عام کرنا ہو گا ۔
٭ صفائی نصف ایمان ہے ،اس حدیث پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ہمیں اپنے گھر ،گلی
،محلہ ،پارک ،شہر اور ملک کو صاف رکھنا ہو گا،یہ ہماری انفرادی و اجتماعی
ذمہ داری ہے ۔نیزہمیں کسی صورت بھی احتجاج کے دوران سرکاری و نجی املاک کو
نقصان پہنچانے سے گریز کرنا ہوگا۔
٭ تمام قومی،صوبائی اور شہری و دیہی اد ارے اور عہدیداران اپنی اپنی آئینی
حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنے اپنے فرائض منصبی اور اختیارات اﷲ تعالیٰ کی
طرف سے امانت سمجھتے ہوئے پورے کریں اور ملکی مفاد کے منافی کوئی اقدام
اٹھانے سے ہر صورت دور رہیں ۔
٭ قانون کی بالا دستی اورمیرٹ کو ہر صورت عملی طور پر نافذ کرنا ہوگا ،اس
سلسلے میں امیر وغریب ،چھوٹا بڑا سب برابر ہوں ۔
٭ جھوٹ ،منافقت ،بغض ،کینہ ،کرپشن ،بدعنوانی ،بے ایمانی ،رشوت خوری ،اقرباء
پروری اور دیگر سماجی و معاشرتی برائیوں کے خاتمے کے لئے بلا امتیاز
اقدامات کرنا ہونگے ۔
٭ تمام سیاستدانوں کے اثاثے ڈکلیئر اور ملک کے اندر ہونے چاہئیں ،اگر کوئی
اس قانون کی خلاف ورزی کرے تو اس پر اور اس کی آئندہ آنیوالی نسلوں پر
سیاسی سر گرمیوں میں حصہ لینے پرمستقل پابندی ہونی چاہیے ۔
٭ 1973ء کے آئین کاباتوں کی بجائے عملی طور پر نفاذ کرنا ہو گا
،جاگیردارانہ و سرمایہ دارانہ نظام اور حکومتی شاہ خرچیوں(بشمول صوابدیدی
فنڈز) کا خاتمہ کرنا ہو گا ۔
٭ کرپشن اور غداری کی سزا ،سزئے موت ہونی چاہیے، کرپٹ اور غدار لوگوں کے
خاندانوں پر ہر قسم کے سرکاری عہدے کے حصول پر پابندی ہونی چاہیے اور
احتساب کاایک ایسا فعال ادارہ ہو جو صدر و وزیراعظم سمیت کسی کو بھی احتساب
کے کٹہرے میں لا سکے ۔
یہ وطن ہمارا ہے ہم ہیں پاسباں اس کے
٭٭ پاکستان زندہ و پائندہ باد٭٭ |
|