متحدہ ہندوستان پر جب انگیریز حکمرانی کرتا
تھا تو ہندو کانگرس کہا کرتی تھی کہ اول تو ہندوستان میں ہندو مسلم مسئلہ
ہے ہی نہیں اور اگرمسلمانوں کے نزدیک ہے تو یہ داخلی ہے ہندو قیادت یہ
چاہتی تھی کہ مسلمان انگریز کے تسلط سے نکل کرہمیشہ کے کیلئے اُن کے محکوم
بن جائیں۔ تقسیم ہند سے قبل بر صغیر میں جب ہندوؤں نے مسلمانوں کیلئے گونا
ں گوں مشکلات پیدا کر کے اُن کے لئے عرصہ حیات تنگ کردیا تو قائد اعظم کی
سیاسی بصیرت نے ہندو کانگرس کی منافقت کی بساط لپیٹ دی اور انہوں نے
سنجیدگی سے اس بات کا جائزہ لیا کہ مسلمانوں کیلئے الگ مملکت ہونی چاہیے
جہاں پر وہ آزادی اور مرضی سے زندگی گزار سکیں اور اپنی مذہبی رسومات ادا
کر سکیں ۔ یہ ایک نظریہ تھا جس کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اس وقت کے تمام
اکابرین نے مل جل کر کام کیا اور اﷲ کے فضل سے وہ دن بھی آگیا جب ہمارا
پیارا وطن پاکستان ۱۴ اگست ۱۹۴۷ کو دُنیا کے نقشے پر نمودار ہوا۔ قائداعظم
پر امن جدو جہد پر یقین رکھتے تھے اسی لئے ان کی جدو جہد میں بندوق گولی کا
نام و نشان نہ تھا ، وہ آئینی حکمرانی کے دعویدار تھے اس لئے نئی ریاست
کیلئے سیاسی اور آئینی جدو جہد کی اور ہمیشہ دلائل و منطق کے ذریعے اپنے
نظریات کوپیش کیا۔
ناخواندگی کا لفظ جہالت سے عبارت ہے۔ اصطلا ح میں اس سے مراد کسی ملک میں
ایسے افراد کی تعداد تصور کی جاتی ہے جو پڑھنا لکھنا نہ جانتی ہو۔ اسلام
ہمیں سب سے پہلے تعلیم حاصل کرنے پر زور دیتا ہے۔قرآنی وحی کا پہلا لفظ ہی
!اقراء! ہے جس کے معنی ہیں پڑھ۔ تعلیم کی وجہ سے ہی انسان اپنے خدا اور
رسول ﷺ کی عظمت کو سمجھتا ہے۔ اسلام سے پہلے عرب قوم اَن پڑھ تھی ۔ اسلام
نے ان میں علم کا شعور بیدار کیا اور اسی کی بدولت ان کو بہترین قوم بنا کر
بھیجا۔ ہمارے ملک میں ناخواندگی کے خاتمہ کے لئے اگرچہ بہت سے اقدامات کئے
گئے لیکن چونکہ مُناسب اور دیرپا نہیں تھے ۔ اس لئے خاطر خواہ اثرات نمودار
نہ ہو سکے جس کی بنیادی وجہ تعلیم کی آگہی اور شعور کا اجاگر نہ ہونا ہے ۔
معاشرے سے ناخواندگی ختم کرنے کے لئے بنیادی ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے
نظام تعلیم کو صحیح سمت پر استوار کریں۔ دنیا کے نقشے پر پاکستان کا وجود
اﷲ تعالیٰ کی طر ف سے مسلمانوں کے لئے ایک انعام سے کم نہیں اسے معرضِ وجود
میں آئے69سال کا عرصہ بیت گیامگر ہم اپنے مقاصدِ تعلیم کا تعین کرنے سے
تاحال قاصر ہیں۔ اگر جائزہ لیا جائے تو ہمار ا موجودہ نظامِ تعلیم انگریز
کے نافذکردہ نظام کا تسلسل ہے۔ انگریز کے پیشِ نظر نہ تو یہ بات تھی اور نہ
ہی ہو سکتی تھی کہ اس سے ہمارے اندر خود شناسی پیدا ہویعنی ہم اپنے آپ کو
پہچانیں کہ ہم کیا ہیں بلکہ واضح طور پر اس سے ان کا مقصد ہمارے اندر
انگریز اور انگریزی شناسی پیدا کرنا تھا تاکہ ان کی خدمات کے لئے ان کو
سستے اور وفادار خادم مل سکیں۔ اس نظامِ تعلیم نے ہماری قوم کے کھاتے پیتے
گھرانوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیا مگر غریب کے لئے حصول تعلیم کے دروازے
پوری طرح نہ کھل سکے۔ انگریز کی غلامی سے رہائی کے بعد تقاضہ تو یہ تھا کہ
سب سے پہلے ہمارے نظامِ تعلیم میں ملی اوراسلامی تقاضوں کے مطابق ردوبدل
کیا جاتا مگر صد افسوس تاحال ہم اسی نظامِ تعلیم کو اپنائے ہوئے ہیں جس کی
وجہ سے آج بھی ہم پروردہ بیوروکریٹس کی غلامی میں زندگی بسر کرنے پر مجبور
ہیں۔ پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے لیکن ہمارے نظامِ تعلیم میں قرآن و سنت
کی تعلیمات کو ثانوی حیثیت دی گئی جس کے نتیجہ میں آج کا نوجوان عریانی،
فحاشی اور کلاشن کوف کے کلچر سے تو بخوبی آگاہ ہو گیا مگر اپنے اصلاف کے
کارہائے نمایاں اور ورثے سے بالکل ناواقف رہاہمارا نظامِ تعلیم آزادی سے
آغاز سے ہی سیاست کی نظر ہو گیا اور نام نہاد سیاسی لیڈروں نے اپنے مذموم
عزائم اور کمزوریوں پر پردہ ڈالنے کے لئے حتی المقدور کوشش کی کہ ان کے زیر
اثر پلنے والے غریب عوام تعلیم کی نعمت سے محروم رہیں ہمارے ذرائع ابلاغ
جوکہ فروغ تعلیم کے لئے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں وہ بھی مصلحت اور
کاروباری تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان نام نہاد سیاسی لیڈروں کے سیاسی
قد بڑھانے میں مصروف ہیں۔ حصول علم کا اصل مقصد انسانیت کی فلاح و بہبود کے
کام آنا ہے حصول تعلیم کے لئے مرد کو عورت پر ترجیح نہیں دی گئی ہے بلکہ
دونوں کے کئے یکسر زور دیا گیا ہے البتہ چونکہ عورت کو گھریلو ذمہ داریوں
سے نبردآزما ہونا ہوتا ہے اس لئے عورت کو امورِ خانہ داری سے متعلق علوم پر
بھی دسترس رکھنی چاہئے ۔
اگر ہم اسلامی تاریخ پر نظر ڈالیں تو منصور ، مہدی ، ہارون الرشید اور
مامون الرشید جیسے حکمران نہ صرف خود اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے بلکہ ان کے دور
میں آباد ی کا زیادہ تر حصہ زیر تعلیم سے آراستہ تھا۔ اسی طرح ابوبکر محمد
ابن زکریا الرازی ، ابن سینا ، اسحاق الگذری ، البیرونی ، الخوارزمی ، جابر
بن حیان اور ایسے سینکڑوں درخشاں ستاروں سے اسلامی تاریخ مزین ہے اور ساتھ
شاندار روایات کی امین بھی مگر جب موجودہ پاکستان میں ناخواندگی کا تناسب
دیکھا جائے تو ندامت کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ ناخواندگی ایک ایسی لعنت
ہے جو پاکستان کی بنیادوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ ناخواندہ افراد ملکی
تعمیر و ترقی میں عملی طور پر حصہ نہیں لے سکتے بلکہ الٹا رکاوٹ بنے ہوئے
ہیں ان کا ہر عمل جاہلانہ سوچ کی بھر پور عکاسی کرتا ہے آج ہر دوسرا شخص
خود ساختہ مفتی بنا بیٹھا ہے جب کہ اس درجہ کمال تک پہنچنے کے بہت سے دینی
اور دنیاوی علوم پر دسترس لازمی ہے۔ قرآن میں واضع طور پر ارشاد ربانی ہے "
پوچھئے کہ کیا جاننے والا (عالم ) اور ناجاننے والا (جاہل) برابرہو سکتے
ہیں یعنی عالم کو جاہل پر فوقیت دی گئی ہے جس کو کوئی ذی شعور چیلنج نہیں
کر سکتا قصہ مشہور ہے کہ " ایک مرتبہ خلیفہ ہارون الرشید گھوڑے پر سوار
کہیں جا رہے تھے راستے میں ایک گوشہ نشین عالم ابوالحسن علی بن حمزہ سے
ملاقات ہو گئی ہارون الرشید احتراماً گھوڑے سے نیچے اترے اور مصافحہ کرنے
کے بعد ان سے دربار میں نہ آنے کی وجہ دریافت کی انہوں نے جواب دیا کہ یا
امیر المومنین مطالعہ میں مصرو ف رہتا ہوں سر اٹھانے کی فرصت نہیں ملتی ،
خلیفہ نے کہا پھر اتنے علم کا فائدہ ؟ ابوالحسن نے فرمایا امیر المومنین
ایک دو فائدے ہوں تو گنواؤں اس کا ایک ہی فائدہ سب پر بھار ی ہے کہ اس کی
بدولت امیر المومنین گھوڑے سے اتر کر مصافحہ کرنے پر مجبور ہوئے۔
دیکھا جائے تو آج دینی مدارس کا نصاب بھی وقت کی ضروریات سے ناآشنا ہے اس
حوالے سے جو بھی اقدامات ہوئے وہ ایک مخصوص دائرے سے آگے نہ بڑھ سکے اگر
ہمارے مدارس مسالک کی بجائے صرف اور صرف کتاب و سنت کی بنیادوں پر قائم
ہوتے تو ان کے فارغ تحصیل طلبہ وصیح زاویہ نگاہ کے حامل بن کر مخصوص فرقوں
کی ترجمانی کی بجائے پور ی ملت اسلامیاں کی خدمات انجام دیتے اگر باہمی
مشاورت سے آج بھی مدارس کا نصاب وقتی تقاضوں سے ہم آہنگ کر دیا جائے تو بلا
شبہ ایسے علماء میدان عمل میں آئیں گے جو دین کے ساتھ ساتھ زمانہ حال کے
جدید تقاضوں کو بھی بخوبی سمجھ سکیں اور عوام الناس کی صحیح خطوط پر
رہنمائی کریں یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ آج کے علماء بڑی بڑی گاڑیوں اور
ہوائی جہازوں میں تو سفر کرنا پسند کرتے ہیں مگر روزمرہ کے عوامی مسائل کے
حل میں جدید تقاضوں کو یکسر فراموش کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے معاشرے میں
علماء کا احترام بتدریج کم ہو رہا ہے۔
ہمارا آج کا نوجوان تعلیم یافتہ کی بجائے سند یافتہ ہونا پسند کرتا ہے
چونکہ معاشرے میں تعلیم کا مقصد یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہاتھ میں سند آجائے
مگر عملی زندگی میں جب سند اور قابلیت میں تفاوت پیدا ہوتا ہے تو سند کی
اہمیت ختم ہو جاتی ہے۔ ہمارے ہاں کردار کی کمی صرف جاہل طبقے تک محدود نہیں
ہے بلکہ اکثر اعلیٰ بین الاقوامی یونیورسٹیوں/ جامعات کے سند یافتہ حضرات
بھی اس موذی مرض میں مبتلا ہیں۔جب تک سنجیدگی سے تعلیم پر توجہ نہیں دی
جائے گی اور خواندگی کی شرح کو دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک کے برابر نہ
کیا گیا تب تک حقیقی معنوں میں پرامن معاشرے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں
ہوگا-
مذکورہ بالا عوامل کو سطحی کی بجائے منطقی انداز سے پرکھا جائے تو یہ کہنے
میں عار محسوس نہیں کرنا چائیے کہ پاکستان کی ترقی میں یہ تمام عوامل شامل
ہیں۔ |