بسم اﷲ الرحمن الرحیم
ابھی دو دن پہلے کی بات ہے کہ میں گھر سے چوبرجی کی طرف نکلا تو راستے میں
مال روڈ اور دیگر مقامات پرمقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم و ستم اجاگر کرنے
والے بڑے ہورڈنگز لگے نظر آئے۔ یہ تحریک آزادی جموں کشمیر کی طرف سے لگائے
گئے تھے۔ ان بورڈوں پر ہندوستانی فوج کی طرف سے پیلٹ گن جیسے مہلک ہتھیاروں
کے استعمال سے زخمی ہونے والے بچوں، عورتوں اور نوجوانوں کی کربناک تصاویر
دکھائی گئی تھیں جن کے چھلنی جسم دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا اور اس بات کا
بخوبی اندازہ ہوتا تھا کہ بی جے پی سرکار کی آٹھ لاکھ فوج نہتے کشمیریوں کے
ساتھ کیا سلوک کر رہی ہے؟ تحریک آزادی جموں کشمیر کی جانب سے لگائے گئے ان
بورڈوں پر بھارتی ریاستی دہشت گردی کیخلاف اور مظلوم کشمیریوں کے حق میں
خوبصورت تحریریں درج تھیں۔یہ بورڈ جہاں بھی لگائے گئے لوگوں کی اس میں بہت
زیادہ دلچسپی دیکھنے میں آئی۔ لاہور کے مال روڈ، جیل روڈ، فیروز پور روڈ
اور دیگر شاہراہوں پر لگائے جانے والے ان بورڈوں پر یقینا لاکھوں روپے کے
اخراجات آئے ہوں گے لیکن کشمیر میں ظلم وبربریت کی جو داستانیں رقم کی
جارہی ہیں‘پیلٹ گن سے جس طرح معصوم بچوں و عورتوں کی آنکھوں کی بینائی ضائع
ہو رہی ہے اورکشمیریوں کے گھروں میں گھس کر جس طرح کشمیر ی خواتین کی عزت و
آبروسے کھیلا جارہا ہے‘ پاکستانی عوام میں اس صورتحال سے متعلق شعور و آگہی
پیدا کرنے کیلئے کی جانی والی تمام کوششیں یقینا لائق تحسین ہیں۔ میں دل ہی
دل میں یہ بورڈ لگانے والوں کو خراج تحسین پیش کر رہا تھااور مجھے اس بات
کی بہت زیادہ خوشی تھی کہ پاکستانی عوام میں غاصب بھارتی فوج کے مظالم کا
شکار کشمیریوں کی بے لوث مدد کے حوالہ سے زبردست جذبات پائے جاتے ہیں لیکن
میری یہ ساری خوشی اس وقت کافور ہو گئی جب اگلے دن کئی مقامات پر سے یہ
بورڈ اتار دیے گئے۔ مال روڈ کے ایک مقامی ہوٹل میں محترم اسد اﷲ غالب صاحب
نے کشمیر کی تازہ ترین صورتحال جاننے کیلئے سینئر صحافیوں اور کالم نگاروں
کی ایک خوبصورت مجلس سجا رکھی تھی جس میں جماعۃالدعوۃ کے سربراہ حافظ محمد
سعید کو گفتگو کیلئے مدعو کیا گیا تھا۔ یحییٰ مجاہد صاحب کی دعوت پر میں
بھی وہاں موجود تھا ۔حافظ محمد سعید نے اہل علم کی اس مجلس میں جہاں کشمیر
پالیسی کو از سر نو تشکیل دینے اور ماضی میں کی جانے والی غلطیاں نظر انداز
کرتے ہوئے جرأتمندانہ راستہ اختیار کرنے کی ترغیب دی وہیں لاہور کی اہم
شاہراہوں اور علاقوں سے کشمیر میں بھارتی فوج کی ریاستی دہشت گردی اور
کشمیریوں کی مظلومیت اجاگر کرنے والے بورڈ اتارے جانے پر بھی گہرے دکھ اور
افسوس کا اظہا رکیا۔ کشمیر سے متعلق بورڈ اتارے جانے کا سن کر ہر کوئی
حیران تھا۔ محترم ضیاء شاہد نے کہاکہ حافظ صاحب آپ کو اس سلسلہ میں بھرپور
آواز بلند کرنی چاہیے ‘ سارا میڈیا آپ کے ساتھ ہو گا۔ مجلس میں موجود دوسرے
کالم نگاروں اور سینئر صحافیوں نے بھی ان کی تائید کی تاہم حافظ محمد
سعیداور ان کی جماعت سے وابستہ افراد ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں سے کسی طور
پریشان ہونے اور محاذ آرائی کی سیاست کرنے کی بجائے اپنے کام کو ہر صورت
جاری رکھنے کے عادی ہیں یہی وجہ ہے کہ تین دن گزرنے کے باوجود انہوں نے اس
حوالہ سے کوئی میڈیامہم نہیں چلائی بلکہ جہاں سے بورڈ اتارے گئے وہاں پھر
سے دوبارہ ایسے ہی بورڈ لگاکر یہ پیغام دیا ہے کہ
وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے‘ ہم اپنی وضع کیوں بدلیں
بہرحال وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف صاحب کو دیکھنا چاہیے کہ ان حالات میں
جب پوری قوم میں کشمیر کے حوالہ سے شدید جذباتی کیفیت پائی جاتی ہے اورہر
شخص اخبارات، ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پرپیلٹ کے چھروں سے زخمی ننھے
کشمیری بچوں کی دل دہلا دینے والی تصویریں،عفت مآب ماؤں، بہنوں ، بیٹیوں کی
چیخ و پکاراور کٹی پھٹی لاشیں دیکھ کر مظلوم کشمیری بھائیوں کی مدد کرنا
چاہتا ہے‘ ان حالات میں یہ افسوسناک حرکت کس کے کہنے پر کی گئی اور کونسا
خفیہ ہاتھ اس میں ملوث ہے؟اس سے یہ پیغام ملتا ہے کہ کشمیر میں اتنا کچھ
ہونے کے باوجود آپ کی حکومت میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہیں کشمیریوں کے بہتے
خون کی پرواہ نہیں اور ان کے دل میں اب بھی مودی سرکار کے ساتھ دوستی کا
نرم گوشہ موجود ہے۔ مسلم لیگ(ن) حکومت کی جانب سے حالیہ دنوں میں کشمیریوں
کی مدد کے سلسلہ میں اچھے جذبات کا اظہار کیا گیا ہے۔ حافظ محمد سعید نے
اپنی گفتگو میں بھارتی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کی طرف سے دہشت گردی کے
الزامات پر چوہدری نثار احمد کی طرف سے کشمیر میں بھارتی دہشت گردی کامسئلہ
اٹھانے اور مظلوم کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی بہت زیادہ تحسین کی۔ وہ وزیر
اعظم نواز شریف کی جانب سے پیلٹ گن سے متاثرہ کشمیریوں کی آنکھوں کے علاج
معالجہ کے لئے تمامتر ذرائع اور وسائل فراہم کرنے کے اعلان پر بھی خوش ہیں
اور ان کی باتوں کی تائید کرتے نظر آتے ہیں اور کرنی بھی چاہیے کہ اچھی بات
جو کوئی بھی کرے اس کی تائید وحمایت کی جانی چاہیے لیکن مسلم لیگ(ن) کے
حکومتی ذمہ داران کو بھی دیکھناہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ کی صفوں میں
موجود بعض لوگوں کی جانب سے کشمیر کے بورڈ اتار کرمنظم منصوبہ بندی کے تحت
آپ کی حکومت کو بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہو ۔اگر ایسا ہے تو اس واقعہ
میں ملوث لوگوں کا احتساب ضروری ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ بے نظیر بھٹو کے
دور میں اسلام آباد میں کشمیرہاؤس کا ایک بورڈ ہی اتارا گیاتھا کہ عوامی
سطح پر ایسی نفر ت پھیلی کہ اس کی حکومت پھر دوبارہ تحریک آزادی کشمیر کو
نقصان پہنچانے کے الزامات سے جان نہیں چھڑا سکی اور اب تو کشمیر کے حوالہ
سے صورتحال پہلے سے بہت مختلف ہے اور ایک عام ریڑھی والا شخص بھی اس طرح کی
بات برداشت کر نے کیلئے تیار نہیں ہے۔ تحریک آزادی جموں کشمیر کے سیکرٹری
جنرل حافظ خالد ولید کے مطابق شہر کے پچیس مقامات سے یہ بورڈ اتارے گئے ہیں۔
وزیر اعلیٰ شہباز شریف صاحب کو چاہیے کہ وہ سنجیدگی سے اس معاملہ کا نوٹس
لیں اور جن مقامات پر سے بورڈ اتارے گئے ہیں ضلعی انتظامیہ کو دوبارہ انہی
مقامات پر لگانے کا پابندکریں۔ یہ ان کی کشمیرسے وابستگی کا اظہار ہو گا
وگرنہ لوگوں کے ذہنوں میں غلط فہمیاں پیدا ہوں گے اور مخالفین کو بھی ان
کیخلاف توپوں کے دہانے کاکھولنے کا موقع ملے گا۔ حافظ محمد سعیدنے کالم
نگاروں کی مجلس میں کشمیر سے متعلق ماضی میں کی جانے والی غلطیوں کی
نشاندہی کرتے ہوئے کہاکہ 1948ء میں کشمیری مجاہدین سری نگر تک پہنچ چکے تھے
کہ نہرو مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ لے گیا اورپھر یواین کی طرف سے
کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دینے کی قرارداد پر عمل درآمد کا وعدہ کیا
۔ اس وقت چاہیے تو یہ تھا کہ اس پر مضبوط تحریک اٹھائی جاتی لیکن ایسا نہیں
کیا گیا۔ پاکستانی حکمران سمجھتے رہے کہ اقوام متحدہ نے قرارداد منظور کر
لی ہے اس لئے اب مسئلہ حل ہو جائے گا ۔اس کا نقصان یہ ہوا کہ انڈیا نے
ہماری اس کمزوری کا فائدہ اٹھاکرکشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیا اور پھر
آہستہ آہستہ پاکستان کیخلاف ہی کشمیر میں مداخلت اور دہشت گردی کا
پروپیگنڈا شروع کر دیا گیا۔انڈیا کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کچلنے کیلئے جو
کچھ کر سکتا تھا اس نے کیا لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ اس سارے عرصہ میں
کشمیری تو میدان میں کھڑے رہے مگر ہمارا موقف سرکاری سطح پر دن بدن کمزور
ہوتا گیا۔ شملہ جیسے معاہدوں پر دستخط کئے گئے ا ور سیز فائرلائن کو کنٹرول
لائن میں تبدیل کر دیا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اقوام متحدہ اور امریکہ
جیسے ملکوں نے بھی کشمیرکو انڈیا کا اندرونی مسئلہ قرار دیناشروع کر
رکھا۔ان کا یہ کہنا بالکل درست تھاکہ امریکہ اور اقوا م متحدہ جیسے ملک اور
ادارے کشمیر کے مسئلہ پر بھارت کے ساتھ ہیں‘ ہمیں ان سے کسی خیر کی توقع
نہیں رکھنی چاہیے بلکہ مسئلہ کو حل کرنے کیلئے خود تمامتر ذرائع اور وسائل
استعمال کرنا ہوں گے۔ ہمیں پالیمنٹ اور سینیٹ کا اجلاس بلاکر ازسر نو مضبوط
کشمیر پالیسی تشکیل دینی چاہیے جس کی بنیاد قائد اعظم محمد علی جناح کا
کشمیر پاکستان کی شہ رگ والا فرمان ہو۔ اگر انڈیا کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کے
باوجود کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہنے سے نہیں شرماتا تو پاکستان کو بھی شہ
رگ کشمیروالے موقف سے کسی صور ت پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے۔ اس وقت تحریک آزادی
کشمیر پورے عروج پر ہے۔ نہتے کشمیریوں پر پیلٹ برسائے جارہے ہیں لیکن اس کے
باوجود لاکھوں کی تعدا د میں کشمیری مسلمان سڑکوں پر نکل کر پاکستانی پرچم
لہرا رہے ہیں۔ مسلسل کرفیو سے شدید غذائی قلت پیدا ہونے اور علاج معالجہ
کیلئے ہسپتالوں میں جگہ نہ ملنے پر بھی ان کے قدموں میں لغزش نہیں
آئی۔مظلوم کشمیریوں کو غاصب بھارت کے قبضہ سے نجات دلانے کا یہ انتہائی
شاندار موقع ہے‘ اسے کسی صورت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ جماعۃالدعوۃ کے سربراہ
نے اپنی گفتگو کے دوران کئی نکات اٹھائے اور مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے عملی
تجاویز پیش کیں جن کا پھر کبھی ان شاء اﷲ ذکر کروں گا۔ |