میرا پاکستان کیسا ہو؟

ہر فرد اپنی بہتری کے ساتھ ملک وقوم کی ترقی بھی چاہتا ہے کیونکہ انفرادی طور پر آپ کتنے ہی عروج پر ہوں قوم کی بد حالی آپ کو خوش نہیں رہنے دیتی۔ اس مضمون میں اپنے پاکستان کی بہتری کے لیے کچھ عملی تجاویز ہیں ۔جن میں سے کچھ انفرادی ہیں ، کچھ معاشرتی طور پرتھوڑی سی محنت ، توجہ اور دلچسپی سے حاصل کر سکتے ہیں، کچھ محض احتیا طوں اور روز وشب کی تبدیلی سے حاصل ہوسکتے ہیں ! کچھ اداروں کے کر نے کا کام ہے ۔یعنی ہر کام حکومت پر چھوڑنے کے بجائے معاشرے کے بالغ نظر اور باشعور افراد اپنا کردار ادا کریں
بچپن کی کہانیوں میں مہربان پری کی تین خواہشات کاتذ کرہ ہم سب نے سنا ہے ۔اگر کسی پاکستانی سے اپنے وطن کے بارے میں خواہش پوچھی جائے تو امید ہے کہ جوابات ان تین جملوں کے ارد گرد ہی ہوں گے ۔۔۔
میرا پاکستان مضبوط ہو ! میرا پاکستان خوشحال ہوجائے ! میرا پاکستان پر امن رہے !

یہ تین خواہشیں محض الفاظ نہیں ہیں بلکہ ان کے پیچھے حسرتوں کی ایک فہرست ہے جسے یہ تین عنوان دیے گئے ہیں ۔

سب سے پہلے مضبوطی کا سوال اٹھتا ہے جس کے کئی پہلو ہیں :
جغرافیائی /طبی/ نظریاتی تہذیبی /ثقافتی مذہبی/دینی

جغرافیائی لحاظ سے بھی دو طرح کی مضبوطی ہے یعنی بیرونی اور اندرونی

بیرونی سر حدیں جو کارگل سے لے کر بحیرہ عرب تک پھیلی ہوئی ہیں ۔جبکہ اندرونی طور تمام شہری اور قانونی ادارے شامل ہیں۔افواج، رینجرز، پولیس، شہری دفاع،عدالتیں ، ادارے جن میں مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ شامل ہیں ۔ ذخائر کی حفاظت اور توانائی کا حصول اور تلاش بھی مضبوطی کے اہم نکات میں سےہے۔ماحول کا صاف ستھرا ہونا بھی ایک محفوظ معاشرے کی پہچان ہے ۔ دہشت گردی ایک بہت بڑا چیلنج ہے اس کی وجوہات جانےبغیر سد باب ممکن نہیں ۔ اس میں اہم ترین وجہ بنیادی انسانی ضروریات میں رکاوٹیں اور غیر ملکی دشمن قوتیں ہیں ۔ انسانی ضروریات میں محض غذا ، لباس اور گھر نہیں ہیں بلکہ ان کا دائرہ علاج، تعلیم ، تحفظ اور انصاف تک پھیلاہوا ہے ۔

پاکستان دو قومی نظریہ کی بنیاد پر وجود میں آیا لہذا اس کے مطابق یہاں قانون سازی ہواور آئین کی شقوں میں اس کا تحفظ ہو !نظریاتی طور پر مضبوط ہونے کی جھلک تہذیبی اور ثقافتی طور پر مطمئن اور پر اعتماد ہونے میں نظر آتی ہے ۔ یعنی طرز رہائش ، رسم و رواج ، تقریبات، تفریح سمیت مکمل آداب زندگی اس کے مطابق ہو ! بھیڑ چال اور دیگر اقوام کی نقالی سے پاک ہو کیونکہ فرد کی طرح ہر قوم بھی منفرد ہے اور اس کا طرز زندگی اس کے حالات ،ضروریات، محل وقوع کے مطابق ہی ہونا چاہیے۔

پھر بات آتی ہے دینی /مذہبی لحاظ سے مستحکم ہونے کی تو اس کے بھی دو حصے ہیں : عقائد و عبادات اور معاملات

عقائد کے لحاظ سے بین المسالک اور بین المذاہب ہم آ ہنگی نظر آئے ،غیر مذاہب کی تقلید نہ ہو اور بدعات کےمظاہر سے پاک ہو۔

معاملات انفرادی بھی ہوتے ہیں اور اجتماعی بھی ! انفرادی طور پرہرپاکستانی جسمانی،ا خلاقی ،رو حانی ،جذباتی ، مادی طور پر مطمئن ہو، معاشرتی معاملات میں حقوق و فرائض کا توازن ہو ،معاشی لحاظ سے ہر ایک کے لیے تسلی بخش روز گار ہو اور آگے بڑھنے کے مواقع ہوں ،سیاسی معاملات میں ہر شہری کو اس کے حقوق میسر آئیں! اس میں آزادانہ ووٹ ڈالنے سے لے کر اپنی پسند کی جگہ رہائش اور کاروبار کی آزادی حاصل ہو!

یہاں تک کی تحریر سے اندازہ ہوا کہ صرف ایک نکتے مضبوطی میں خوشحالی اور امن خود بخود سمٹ آ یا ہے ۔یعنی تمام باتیں ایک دوسرے سے منسلک ہوتی ہیں ۔ خوشحالی کا مطلب یہ کہ ہر فرد کو نصیب ہو ،اور روز گار بھی امن سے مشروط ہے۔

اب سول یہ ہے کہ یہ سب کیسے ہو؟؟؟عملی اقدامات کی شکل کیا ہو؟کون ساکام سب سے پہلے کیا جائے ؟ اس سلسلے میں کچھ عملی کا موں کو نمایاں کیا جارہاہے جن میں سے کچھ انفرادی ہیں ، کچھ معاشرتی طور پرتھوڑی سی محنت ، توجہ اور دلچسپی سے حاصل کر سکتے ہیں، کچھ محض احتیا طوں اور روز وشب کی تبدیلی سے حاصل ہوسکتے ہیں ! کچھ اداروں کے کر نے کا کام ہے ۔یعنی ہر کام حکومت پر چھوڑنے کے بجائے معاشرے کے بالغ نظر اور باشعور افراد اپنا کردار ادا کریں

تعلیم:
ہرتعلیم یافتہ کا فرض ہے کہ وہ معاشرے میں تعلیم کے فروغ کے لیے اپنا فریضہ ادا کرے ۔اپنے ارد گرد پانچ/دس ایسے افراد کو ڈھونڈے جو اس کے معاون بن سکیں ۔ یہ ساتھی نہ صرف مالی معاونت کریں بلکہ نصا بی مدد بھی کر سکیں ،روزانہ دو گھنٹے کا دورانیہ ہو ، تین بنیادی مضامین پڑھائے جائیں اور انہی کے ذریعے اخلاقی ، روحانی ، معاشرتی اوصاف کے ساتھ ساتھ کچھ فنی تربیت کا انتظام ہوجو اس کے متعلقہ روز گار میں مدد گار ثابت ہو ۔اس تعلیمی پراجیکٹ میں فرد کے طبقے اور ذہنی سطح کو مد نظر رکھا جائے ۔ ابتدا دس یا کم از کم پانچ افراد / بچوں سے شروع کیا جا ئے ۔چھہ چھہ ماہ کے کریش پروگرام ہوں جن میں استعداد کے مطابق آگے بڑ ھا یا جائے ۔اس کام کے لیے موجودہ دور کی ہر تیکنیک کو استعمال کیا جائےجن میں موبائیل سے لے کر کمپیوٹر انٹر نیٹ ،ملٹی میڈیا ، پراجیکٹر ، آڈیو/ ویڈیو /اسکائپ شامل ہیں ۔ ہر فارغ التحصیل طا لب علم کی ڈگری کو اس بات سے مشروط کیا جا ئے کہ وہ گائوں اورقصبوں میں جاکرایک مقررہ مدت کی ٹیچنگ کریں گے۔

میڈیا تعلیم کا ایک بہت بڑا ذریعہ ثابت ہوسکتا ہے ۔اس سلسلے میں حکومت پر دبائو ڈالا جا ئے کہ وہ تمام چینلز کو اس بات کا پابند کریں کہ وہ تفریحی دورانیہ مختصر کریں ، تعلیمی اور تر بیتی نشریات ہوں ۔یکساں نظام تعلیم اور قومی زبان میں تعلیم کی قانون سازی کرکے عملی شکل دی جائے۔ اعلٰی تعلیمی اداروں میں ملک کی حقیقی ضرورت کے مطابق داخلے دیے جائیں ۔ بے مقصد، ادھوری تعلیم سے ملک و قوم کا سرمایہ اور وقت ضائع ہوتا ہے۔آن لائن تعلیمی کریش پروگرامز تیار کر کے پیش کیے جائیں۔

ماحول :
ہر فرد کی جسمانی اور ذہنی صحت کے لیے ماحول بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ ماحول کی ستھرائی کے لیے تین آ ر
( REDUCE , REUSE , RECYCLE )
کے فارمولے پر عمل کیا جائے اور ڈسپوزیبل کلچر کو ترک کیا جائے۔ نامیاتی اور غیر نامیاتی کچروں کو علیحدہ رکھا جائے ۔ نامیاتی فضلہ سے کھاد بنانے کا کام لیا جائے ۔ درختوں کے اگانے اور نشوونما پر حوصلہ افزائی کی جائے۔ باغبانی کو مہماتی طریقوں سے نافذ کیا جا ئے۔یہ کثیر الفوائد نسخہ ہے۔ ماحول کی درستگی کے ساتھ ساتھ ، کئی قسم کے کاروبار کی راہ کھلے گی ، روز گار دستیاب ہوں گے اور غذائی و دوسری مفید اشیاء کی پیداوار میں اضافہ ہو گا ۔نوجوانوں کو تخریبی اور منفی سر گر میوں میں ملوث ہونے سے روکا جا سکے گا ۔ یہاں مالی استحکام رکھنے والوں کو روحانی اور دائمی ثمرات سمیٹنے کی خوشخبری کے ساتھ خرچ کرنے پر مائل کرنا پڑے گاکہ یہ ان صدقہ جاریہ بنے گا ! اس کے ساتھ نوجوانوں اور فارغ افراد کو بھی متحرک کرنا ہوگا ۔ یہ سارے کام بہت چھوٹی /محلہ کی سطح پر بآسانی ہو سکتے ہیں ۔ اسی طرح سڑکوں ، گلی محلوں کی صفائی ستھرائی کے لیے بھی انعامات رکھ کر صفائی پر آمادہ رکھا جا ئے، صفائی کا مظاہرہ گھر اور باہر دونوں جگہ نظر آئے۔ کچرا پھیلانے والوں کی حوصلہ شکنی ہو ۔

معاشرتی اقدامات :
شادی بیاہ اور دیگر مواقعوں پر سادگی کا رواج ڈالا جائے ۔معاشرتی اصلاحات کے لیے محلہ کمیٹیوں اوربرادری کی سطح پر اقدامات حکومتی قوانین سے کہیں زیادہ موئثر ثابت ہوسکتے ہیں ۔اس معاملے میں خوشحال ، تعلیم یافتہ، اعلیٰ عہدے داران اور صاحب استطاعت متمول افراد نسبتاً فعال اور بہتر کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ ایسی شخصیات عمومی افراد کے لیے روشن مثال بن سکتے ہیں کیونکہ عموماً ان کی بات سنی جاتی ہے اور پیروی بھی کی جاتی ہے۔

غذائی عادات :
کسی بھی معاشرے کی غذائی عادات کے اثرات اس کے انفرادی بجٹ سے لے اجتماعی ماحول تک اثر انداز ہوتے ہیں ۔ بین الاقوامی غذائی تحقیق کے مطابق پاکستانی سبزیوں کا استعمال اپنے معیار سے بہت کمتر سطح پر کرتے ہیں گویا متوازن غذا سے محروم رہتے ہیں اور یہ ہمارا واضح مشاہدہ ہے کہ متمول افراد پروٹین اور شکر کی مقدار بہت زیادہ لیتے ہیں جبکہ غریب افراد بھی جہاں موقع ملے یا دستیاب ہو ایسی ہی غذا استعمال کرتے ہیں ۔ اس معاملے میں صاف ستھرے کھانے کا اہتمام کرنے کی تلقین اور حوصلہ افزائی کی جائے۔ کھانے کے ضیاع کو روکا جائے۔ کچن گارڈن اور کھانے پکانے کے سہل طریقے عام کیے جائیں ۔
توانائی کی بچت اور حصول :
اس سلسلے میں ظاہر ہے حکومتی پالیسیاں اہم ہیں مگر بہت سے معاملات انفرادی اور معاشرتی سطح پر بھی کیے جاسکتے ہیں مثلاً بہت سے کام جو بجلی کے بغیر ہوسکتے ہوں ، کم فاصلوں کے لیے پیدل چلیں ، شاپنگ اور دیگر امور کے لیے دن کے اوقات استعمال کیے جائیں اور قریبی بازاروں سے استفادہ کیا جائے، کوشش کریں کہ ایک گاڑی میں زیادہ افراد سفر کریں ( یہ باہمی رابطوں اور ضروریات کے لحاظ سے طے کیے جاسکتے ہیں )۔شمسی توانائی اور دیگر دستیاب وسائل کا حصول اور استعمال آسان بنا یا جائے ۔

روزگار :
معاش کی ذمہ داری بنیادی طور پر مرد کی چنانچہ ہر مردکے لیے اس کی صلاحیت کے مطابق باعزت روز گار ہو ۔اس کے لیے ہنگامی بنیادوں پر ان تمام شعبوں میں مرد وں کو جگہ دی جائےجہاں خواتین کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ خواتین کے ساتھ ہر گز زیادتی نہیں ہے بلکہ وہ گھر بیٹھ کر باعزت کام کر سکتی ہیں ۔سب سے بڑھ کر وہ اپنے گھر کو بہتر بنا کر بچوں کی تر بیت کر سکتی ہیں جو آیا ، ٹیوٹر اور ڈے کئیر سے بری طرح متا ثئر ہے معاشرے کے ہر فرد کو ضرور فعال کیا جائے مگر اس کی استطاعت اور صلاحیت کے مطا بق ! بوڑھوں اور بچوں پر ذمہ داریاں نہیں ڈالی جاسکتیں مگر انہیں بھی کچھ نہ کچھ حصہ دار ضروربنا یا جائے ۔ اس کی بہت سی عملی اشکال ہو سکتی ہیں مثلا باغبانی ،محلے کی صفائی وغیرہ

اختتام :
ایک مضمون کے اندر وہ تما م باتیں نہیں آ سکتیں جو میرے وطن کی خوشحالی ،مضبوطی اور امن کی مکمل تصویر پیش کرے مگر ایک اجمالی خاکہ ضرور پیش کرتی ہیں کہ میرا پاکستان کیسا ہو ؟ فلاح خاندان کی طرح فلاح مملکت ہمارا مطمع نظر ہو نا چا ہیے !
Farhat Tahir
About the Author: Farhat Tahir Read More Articles by Farhat Tahir: 72 Articles with 80587 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.