صحرا ،پہاڑ، دریا،میدان، سمندر ہر نعمت سے
اللہ نے اس ملک کو نوازا ہوا ہے یہ ملک جسے ہم پاکستان کہتے ہیں پاکستان
یعنی پاک لوگوں کے رہنے کی جگہ ، اٹھارہ کروڑ لوگوں کی ماں دھرتی۔ اس کو
سنوار نے اور بنا نے کے لیے اللہ تعالیٰ نے چھتیس کروڑ ہاتھ بنائے انہیں
طاقت دی اٹھارہ کروڑ ذہن دیے جو سوچیں اور اپنی صلاحیتیں اس کو ترقی دینے
کے لیے استعمال کریں ۔ تاریخ اس کی ہمتوں کی داستان ہے جہاں محمد علی جناح
جیسے ذہن اور عمل، علامہ محمد اقبال جیسا فلسفہ اور تخیل موجود ہے جہاں
لیاقت علی خان ، سردار عبدالرب نشتر جیسی سیاست عزیز بھٹی اور راشد منہاس
جیسی جوانمردی موجود ہے، سلیم الزماں صدیقی اور ڈاکٹر قدیر خان جیسے ذہن
رسا کی تحقیق بھی اس کا حصہ ہے ۔ جغرافیہ رب کریم نے اس کو ایسا عطا کیا کہ
دنیا اسے اہمیت دینے پر مجبور ہے وہ پاکستان کو نظر انداز کر کے بہت سارے
فیصلے نہیں کر سکتی اُسے پاکستان کی طرف دیکھنا پڑتا ہے یہی تو وہ پاکستان
ہے جسے میں سوچوں میں سوچتی ہوں۔ لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس لیکن کے بعد وہ
دکھی کر دینے والی حقیقتیں ہیں جو اس ملک کی بساط پر بکھری پڑی ہیں ، کرپشن،
بدعنوانی، سیاسی چالبازیاں، حکمرانوں کی قلابازیاں ، صحت ، تعلیم ، پانی،
خوراک،انصاف کی عدم دستیابی یا کمی اور بہت سی ساری دوسری بد قسمتیاں اس
ملک کا حال ہیں ۔ اس کے نشیبی علاقوں کی حالت انسانی المیوں کی کہانیاں ہیں
اس کی سڑکوں پر گندگی کے ڈھیر کسی ایسے صاف شفاف ذہن کے منتظر ہیں جو انہیں
صاف کردے ۔ تاریکیوں میں ڈوبے شہر اور دیہات اور بند کارخانے کسی ایسے مرد
مجاہد کی راہ تک رہے ہیں جو انہیں حسین اور ستھری گزر گاہوں میں تبدیل کر
دے۔
پاکستان کو اللہ نے بہت کچھ دیا ہے لیکن مسئلہ صرف اسے خلوص دل اور خلوص
نیت سے استعمال کرنے اور ملکی ترقی میں بروئے کار لانے کا ہے۔ ہم نے کبھی
اللہ کی ان نعمتوں کا شکر ادا نہیں کیا ہم تو فبا یء اَلاء ربکماتکذبٰن سن
کر کان بند کر لیتے ہیں کہ مباداضمیر جاگ اٹھے ایمان میں جوار بھاٹا اٹھ نہ
جائے ۔یہ وطن پاکستان جسے برصغیر کے مسلمانوں کو ہندؤں کے شر سے بچانے کی
خاطر بنایا گیا تھا آج اپنوں کے شر کی زد میں ہے یہ’’ اپنے‘‘ بہت سے غیروں
کے ہاتھوں بکے ہوئے ہیں وہ دشمن جو پاکستان کو مستحکم ہوے نہیں دیکھ سکتا
اس نے پاکستان کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا ہوا ہے ۔ پاکستان آج منتظر ہے
کسی ایسے مسیحا کا جو اس کی نبض پر ہاتھ رکھے اس کی بیماریوں کی تشخیص کرے،
علاج تجویز کرے اور مریض کو شفایاب ہونے میں مدد دے، پاکستان کو جن نعمتوں
سے اللہ تعالیٰ نے نوازا ہوا ہے ان کو پاکستانیوں کی قسمت بنادے ۔ کسی کی
طرف دیکھنے اور دیکھتے رہنے سے ہم کبھی بھی منزل مقصود حاصل نہیں کر سکتے
لیکن کاش کہ ہم ہر محرومی کے لیے ملک کو موردالزام ٹھہرانا چھوڑ دیں، اپنی
خدمات کا احسان کرنا چھوڑ دیں اور اللہ کے اس احسان پر اُس کے شکر گزار ہوں
کہ اُس نے ہمیں آزادی کی عظیم نعمت سے نوازا ہوا ہے۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ ہم
اپنی نوکری کابھی احسان ملک کے اوپر یوں کرتے ہیں گویا ہم نے اپنی خدمات کا
کوئی معاوضہ حاصل کیا ہی نہ ہو، کاش کہ ہم معاشرتی خرابیوں پر صرف رونے کی
بجائے خود اپنی ذات اپنے گھر سے ابتداکریں اور معاشرے کی بنیادی اکائی یعنی
اپنے گھر کو درست کریں اور ایک ایسے معاشرے کی بنیاد رکھیں جہاں ایک دوسرے
کا احترام ہو، نسلی، صوبائی، لسانی اور فرقہ وارانہ احترام ،جہاں بات بات
پر کفر کے فتوے نہ نافذہوں ،جہاں شیعہ سنی تنازعات نہ ہوں بلکہ ایک دوسرے
کو کھلے دل سے قبول کیاجاتا ہو۔ ایک ایسے پاکستان کی بنیاد رکھنی ہوگی جو
اقبال اور قائد کے تصورات کے مطابق ہو۔ جہاں سیاست دان سیاست برائے حکومت
نہیں برائے خدمت کرتے ہوں۔ حکمرانوں کی ترجیحات میں ملک کو اولیت حا صل ہو،
جہاں تعلیمی ادارے اپنے نتائج بہتر کرنے کے لیے محنت کریں نقل نہ کروائیں
اچھے انسان بنا نا ان کا پہلا اور آخری مقصد ہو جہاں ادارے عوام کے مسائل
کے حل کی خاطر کام کریں راشی ذہن نہ پیدا کریں الرّاشی و المرتشی کلا ھمافی
النار کا تصور ہی اتنا مضبوط ہو کہ بدعنوانی پیدا ہونے سے پہلے مر جائے۔
عدالتوں میں انصاف ہو فیصلے بیچے نہ جائیں حکومتیں اپنی مرضی کے ججوں سے
اپنی مرضی کے فیصلے نہ کروائیں جہاں ہسپتال شفاخانے ہوں تجارتی مراکز نہیں،
جہاں پل بنیں تو گرنے کے لیے نہیں بلکہ مضبوط رابطے پیدا کرنے کے لیے ،جہاں
نوجوان ستاروں پر کمندیں ڈالنے کے ارادے اور عمل سے لیس ہوں فلمی ستاروں کے
گرویدہ نہیں ۔
ناممکن کچھ بھی نہیں بس ایک ذرا چلنے کی ہمت چاہیے اور ایک بار پہلا قدم
اٹھ جائے تو پھر سفر مشکل نہیں رہتا کرنا ہے تو صرف یہ کہ مضبوط عزم کے
ساتھ آگے بڑھنا ہے اور یہی عزم صمیم ہمارے تمام مسائل کا حل اور ہماری تمام
بیماریوں کا علاج ہے خلوص نیت ہو تو منزلیں خود چل کر مسافر کے سامنے آجاتی
ہیں اگر ہم اس یوم آزادی پر یہ عزم کر لیں کہ ہم نے اپنے مسائل کا حل خود
کرنا ہے دوسروں کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنی ہمتیں مجتمع کرنی ہیں قرض کی
مے پی کر یہ کہنا کہ رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن مسائل کا حل نہیں
۔ قوموں کا عروج تو اس میں ہے کہ فاقے کرو لیکن قرض نہ لو ۔ اپنی تاریخ پر
فخر کرتے ہوئے اگر اس کا یہ حصہ بھی پڑھ لیا جائے کہ مغل سلطنت کی شان و
شوکت کو اُن کی عیش پرستی اور نا اتفاقی نے ڈبویا تو شاید عقل میں یہ بات
آجائے کہ وقت اور قدرت ہمارے ساتھ بھی وہی کرے گی جو اُس نے پہلی قوموں کے
ساتھ کیا اور اگر ہم نے اللہ پاک کے اس انعام جس کا نام پاکستان ہے اور جو
لیلۃ القدر کا تحفہ ہے کی قدر اور حفاظت نہ کی تو ہم اللہ تعالیٰ کی نا
شکری کے گناہ گارہوں گے۔ اللہ کی اس نعمت کا شکر ہم پر واجب ہے اور اسی شکر
کا تقاضاہے کہ ہم نے اپنے تمام تر مفادات کو پس پشت ڈال کر اپنی تمام
کشتیاں جلاکر اس کی ترقی کے لیے آگے بڑھنا ہوگا اس تہیے کے ساتھ کہ منزل پا
کر ہی دم لیناہے۔ |