میڈیاکی ملاوٹ
(Shamim Iqbal Khan, Attock)
اس مضمون کا عنوان میں رکھنا چاہتا تھا
’میڈیا کا دوغلہ پن(اردو اخبارات کو چھوڑ کر)‘ لیکن میں نے اس ڈر سے نہیں
رکھا کہ کہیں میڈیا والے،ناراض ہو کر، مجھے راتوں رات نیتا نہ بنا دیں۔یہ
قوم(میڈیا)جس کسی کے پیچھے پڑ جاتی ہے تو اس کو اتنا گھسیٹتی ہے وہ بیچارہ
اپنی موت کی دعائیں مانگنے میں ہی عافیت سمجھتا ہے۔بھارتی فضائیہ کا جہاز
۲۹؍افراد کے ساتھ آج کئی دنوں سے لا پتہ ہے ابھی کوئی سراغ نہیں مل سکا ہے
اور میڈیا ہے کہ،اُس پر سوار افراد کی زندگی و موت سے بے خبر، سوئے چلی جا
رہی ہے۔وہیں کبھی کبھی یہ اتنی جاگروک رہتی ہے کہ اخلاق کے گھر کے فِرِج
میں رکھا بیف دیکھ لیتی ہے اور اس سے پہلے کہ وہ اپنی موت کی دعا مانگے اس
کی مراد پوری کر دی جاتی ہے۔
میڈیا نے اپنے ذمہ صرف دو کام لے رکھے ہیں یا تو کسی کی تعریف کرنا جس سے
فائیدے کی امید ہے یا کسی سے فائیدہ اُٹھا کر کسی کو ذلیل کر دینا۔کبھی
کبھی یہ لوگ فائیدے سے اُوپر اُٹھ کر بھی کام کرتے ہیں جسے بے مقصد کی
دشمنی کہتے ہیں۔مسلم عورتوں کے پردے کے پیچھے پڑے رہتے ہیں ، جب کہ سناتن
دھرم میں بھی پردے کی اہمیت ہے۔بھارت میں کئی علاقوں میں آج بھی ہندو
عورتیں لمبا گھونگھٹ اپنے بڑوں کے سامنے نکالتی ہیں یہ ان کی مذہبی ذمہ
داری ہے کیونکہ ان کی مذہبی کتابوں میں یہ واقعہ لکھا ہے کہ ’’رام اور سیتا
سے جب مہارشی پروش رام ملنے آئے تو رام نے اپنی بیوی سیتاسے مہارشی کا
تعارف کراتے ہوئے کہا ’’ سیتا! یہ ہمارے بذرگ ہیں، اپنی آنکھیں نیچی رکھو
اور پلّو ڈال لو‘‘۔اسی طرح عیسائی مذہب میں بھی پردے کی اہمیت ہے اسی لیے
سبھی ’ننس‘ حجاب میں رہتی ہیں۔پردے کا رواج یہودیوں میں بھی ہے،یہ لوگ
مذہبی کتابوں کو پڑھیں یا پڑھے لکھوں سے ملیں تو ان کو پتہ چلے گا کہ اسلام
نے پردے کی ا بتدایا ایجاد نہیں کیا ہے بلکہ پہلے سے چلے آرہے پردے کے رواج
سے اتفاق اور تائید کیا ہے۔لیکن میڈیا اور بھکت لوگ صرف مسلمان عورتوں کے
حجاب پرآنسو بہانے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔
اخبار کے پہلے ورق پر موٹے حروف میں یہ خبر شائع ہوئی کہ ’’اٹھارہ سال کی
لڑکی سے عرب کے ایک پچاس سالہ شیخ نے شادی رچائی‘‘۔ یہ خبر کئی اخباروں کی
سرخی اور ٹی․وی․چینلوں کی زینت بنتی رہی۔ جائز اور رضامندی کی شادی کا مذاق
اُڑایاجاتا رہا ۔دوسری طرف ایک غیر مسلم نے جس کی عمر پچاس سال تھی، ایک
آٹھ سال کی بچی کے ساتھ زنا کرتا ہے۔ یہ خبر معمولی خبر کی طرح اندر کے
اوراق میں چھاپ دی گئی اور ٹی․وی․والوں نے بھی کم سے کم الفاظ میں خبر پڑھ
کر ختم کر دی۔ان کی نظر میں زنا اور شادی میں کوئی فرق ہی نہیں ہے ،رضا
مندی سے ہویٔ شادی کوکسی برائی کی طرح خوب اُچھالا گیالیکن پچاس سال عمرکے
بوڑھے آدمی کا ایک نابالغ لڑکی کے ساتھ زنا کی معمولی خبر سمجھی گئی۔شادیاں
اسی لیے کی جاتی ہیں کہ لوگ زنا جیسے گھنونے جرم سے بچیں لیکن واہ رے
میڈیا،اسلامی طرزکی شادی ایک خرافات اور وحشیانہ طرز کا زناایک معمولی اور
عام بات۔اسی کو کہتے ہیں دوغلا پن اور مسلم دشمنی۔
بھارت میں جتنی طاقت مسلمانوں کو بدنام کرنے میں لگائی جا رہی ہے یا لگائی
جاتی رہی ہے وہی طاقت اگرملک کے تعمیراتی کاموں میں لگائی جاتی تو بھارت
طاقتورممالک میں نمبر ایک پر ہوتا۔بھکت لوگ اس سچائی کو جانیں کہ اسلام
اپنی خوبیوں کی بنا پر ہی صرف چودہ سو سال میں دنیا میں دوسرے نمبر پر
اسلام کے ماننے والے ہیں۔۲۰۱۵ء میں دنیامیں عیسائی کا تناسب 31.50% تھا
وہیں پر مسلمانوں کا تناسب22.32%تھا۔یہ اُس صورت میں ہے جب نبووت کے آغاز
سے اسلام کی مخالفت ہوتی چلی آرہی ہے۔خیر۔۔۔
انگلینڈ میں بھی بہت سے بے گناہ قتل کیے گئے ہیں اور اس طرح کے قتل کی ذمہ
دارI.R.Aیعنی آئرش رپبلکن آرمی تھی۔ یہ لوگ کیتھولک عیسائی ہوتے ہیں کبھی
ان کو عیسائی دہشت گرد نہیں کہا گیا۔اسی طرح LTTEؑیعنی Liberation Tigers
of Tamil Elem ان کو کبھی ہندویا تمل دہشت گرد نہیں کہا گیااورULFA یعنی of
Assam United Liberation Front کوکبھی ہندودہشت گردنہیں کہا گیا ہے۔اگر
کوئی مسلمان پکڑا جاتا ہے تو اسے مسلم دہشت گرد کہہ دیا جاتا ہے۔یہ میڈیا
کا دوہرا معیار کیوں؟ جب کہ اسلام میں دہشت گردی کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔
۸؍ستمبر۲۰۰۶ء بروزجمعہ مالیگاؤں میں سلسلہ وار بم دھماکے میں۳۷؍لوگوں کی
موت ہوئی تھی اور ۱۲۵؍لوگ زخمی ہوئے تھے۔ میڈیا نے اس کا تعلق فوراً اسلامی
دہشت گردی سے جوڑ کرکسی نام نہاد تنظیم کو ذمہ دار ٹھہرا کرمسلم ملزمان کو
نامزد کرکے ان کا شجرہ تک بتلانا شروع کر دیا۔لیکن جب سادھو، سادھوی اور
فوجی پروہت کے نام سامنے آنے پر میڈیاکو پھر سانپ سونگھنے والے محاورے کی
طرح پھر خاموش ہونا پڑا۔اسی طرح حیدرآباد کی مکّہ مسجد میں کوئی مسلمان
کیوں اپنی عبادت گاہ کوتباہ کر کے اور اپنے بھائیوں کو مار کر جہنم کا طوق
اپنے گلے میں ڈالنا چاہے گا؟یہاں بھی مسلمانوں کے خلاف سازش رچی گئی تھی۔
۱۹۸۵ء میں امریکہ میں بلاسٹ ہوتا ہے اور ۱۶۶؍ لوگ مارے جاتے ہیں اورمیڈیا
اس کا ذمہ دار مسلم تنظیم کو بتلاتا تھا۔ہفتوں اخباروں کی سرخی ’Middle
East Conspiracy‘ ہوتی رہی اور جب پتہ چلا یہ بلاسٹ کسی غیر مسلم تنظیم نے
کیا ہے تو میڈیاکوپھر سانپ سونگھ گیا۔
ممبئی میں جب بم بلاسٹ ہوئے تو مہینوں ’ماسٹر مائنڈ‘ کے لیے توقیراور
شعابان قریشی تلاش کیے جاتے رہے اور یہی نہیں ان کے پچھلے جرائم کا کچّا
چٹّھا یوں اگلنے لگے جیسے ٹیپ رکارڈر بج رہا ہو۔جب کچھ دنوں کے بعد پولیس
کمشنر کا بیان آیاکہ ’میں نے تو کبھی توقیر کو اور قریشی کو ماسٹر مائنڈ
کہا ہی نہیں اور انھوں نے یہ بھی کہا کہ یہ دونوں میڈیا کی پیداوار ہیں۔اس
کے بعد میڈیا ایسا خاموش ہوئی لگتا تھا کیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
میڈیا نے اس بار ’کنگ میکرکا رول ادا کیا ہے لہذاوہ کسی سے کیوں ڈرے جب
’سےّاں بھئے کوتوال‘۔ بقول شوقؔ بہرائچی
جس کو ہم چاہیں سزا دیں، جس کو چاہیں چھوڑ دیں
اب ہماری جیب میں چوکی بھی ہے، تھانہ بھی ہے
اسلام میں انصاف کو قائم کرنے کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ یہ صرف اسلامی
نظریہ نہیں ہے یہ عالمی نظریہ ہے دنیا کا کوئی بھی مذہب اس بات سے انحراف
نہیں کریگا۔انصاف صرف وہی نہیں کرتا ہے جو عدالتوں میں جج کی کرسی پر
بیٹھتا ہے بلکہ انصاف ہر شخص کی ذمہ داری ہے چاہے وہ کوئی وزیر ہو یاسرکاری
عہدے دار ہو یا عام شہری، پرنٹ میڈیا ہو یا الکٹرانک میڈیا۔ان کو بھی انصاف
قائم کر کے ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘نارے کو عملی جامہ پہنانا
چاہئے۔مسلمانوں کے لیے ملک کا وفادار ہونا مذہبی پابندی ہے لیکن ’بھکت لوگ‘
کچھ اپنے بارے میں بھی سوچیں کہ ان کا دھرم اور بھارت کا آئین کیا کہتا ہے؟
صرف طاقتور ہونا صحیح نہیں ہوتا،حق ہمیشہ صحیح ہوتاہے۔کسی خبر کوہو بہو پیش
کرنا یہ میڈیا کی ذمہ داری ہے لیکن ’تِل‘ کا ’تاڑ‘ بناکر پیش کرنے کو میڈیا
اپنی ذمہ داری سمجھنے لگا ہے۔ہو سکتا ہے اس طرح سے میڈیاکچھ فاضل پیسے کما
لینے میں کامیاب ہو جاتا ہولیکن دوسری طرف انصاف پسند لوگوں کے دِل کو
بیچین کررہا ہے۔
ــ’’جہاں ستیہ اہنسا اور دھرم کا پگ پگ لگتا ڈیرا۔وہ بھارت دیش ہے میرا‘‘
بھارت کی اس تفسیر کو بدلو مت ’ورنہ تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں
میں‘۔
|
|