آزادیٔ ہند اور حالت حاضرہ
(Sajid Hussain Nadvi, India)
۱۵؍اگست ۱۹۴۷ کو ہندوستان برطانوی حکومت کے
شکنجے سے آزاد ہوا ۔برطانوی سامراج سے ہندوستان کوآزاد کرانے میں ہندو ،
مسلم، سکھ، عیسائی سب نے برابرکی قربانی پیش کی، کسی ایک طبقہ کی محنت اور
کوشش سے ہندوستان آزاد نہ ہوا بلکہ تمام باشندگان ہندنے متحدہوکر انگریزوں
کا مقابلہ کیا اور ہندوستان کوآزادکرایا۔لیکن یہ بات بھی مسلم ہے کہ ۱۸۵۷کے
بعد ملک میں انگریزوں کے خلاف جنگ کی جو فضا بنائی گئی تھی اس میں پیش پیش
علماء کرام ہی تھے ،یہی وجہ ہے کہ انگریزان جبہ قبہ، عمامہ بردار،باریش
علماء کرام کو اپنی بقا کے لئے موت کا سامان تصور کرتے تھے، اور ان کے سایہ
سے بھی سخت نفرت کرتے تھے۔ایک روایت کے مطابق دہلی کی چاندنی چوک پر پچاس
ہزار مسلمانوں کو پھانسی دی گئی تھی جن میں صرف علماء کی تعدا دپانچ ہزار
سے زائدتھی۔
افسوس آج ہماری نصابی کتابیں ان مجاہدین کی بے لوث اور تاریخ ساز قربانیوں
سے خالی پڑی ہیں ۔ہماری نئی نسلوں کو کوئی یہ بتانے والا بھی نہیں ہے کہ
شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن دیوبندی رحمۃ اﷲ علیہ نے عالمی پیمانہ
پر انگریزوں کے خلاف یلغار کی اور ان کو وطن سے بے دخل کرنے کے لئے عالمی
تحریک، تحریک ریشمی رومال کا آغاز کیا تھا ۔ اتنا ہی پر بس نہ کیا بلکہ وہ
قومی یکجہتی اور پر امن بقائے باہم کے علم بردار تھے، وہ یہاں کی مشترکہ
تہذیبی قدروں پر یقین رکھتے تھے اور ایک عظیم متحدہ ہندوستان تشکیل دینا
چاہتے تھے۔ جس میں ہندو مسلم دونوں پیار اور محبت کے ساتھ اپنے اپنے مذہب
پر عمل کرنے میں آزاد ہوں اور مشترکہ قومی فرائض میں ایک دوسرے کے شانہ
بشانہ چلیں۔
حضرت مولانا حسین احمد مدنی ؒ نے ایک موقع پر فرمایا تھا: ’’ ہم باشندگان
ہندبحیثیت قوم ہونے کے ایک اشتراک رکھتے ہیں جو کہ اختلاف مذاہب اور اختلاف
تہذیب کے ساتھ ساتھ ہر حال میں باقی رہتاہے، جس طرح صورتوں کے اختلاف،
ذاتوں اور صفتوں کے تباین، اور رنگوں اور قامتوں کے افتراقات سے ہماری
مشترکہ انسانیت میں فرق نہیں آتا ،اسی طرح ہمارے مذہبی اورتہذیبی اختلافات
ہمارے وطنی اشتراک میں خلل انداز نہیں ہوتا، ہم سب وطنی حیثیت سے ہندوستانی
ہیں ، اور وطنی منافع کے حصول اور مضرات کے ازالہ کی فکر اسی طرح کاایک
فریضہ ہے جس طرح دیگر ملتوں اورقوموں کا۔․․․․․․․․․ اگر آگ لگنے کے وقت گاؤں
کے تمام باشندے آگ نہ بجھائیں ، سیلاب کے موقع پر تمام گاؤں کے بسنے والے
بند نہ باندھیں، تو گاؤں برباد ہوجائے گا اور زندگی سب کے لیے وبال بن جائے
گی۔‘‘
برطانوی حکومت سے آزاد ی ملنے کے بعد ہندوستان کاآئین اور دستور جمہوری بنا
،تاکہ ہرایک دین و مذہب پر عمل کرنے میں آزاد ہو، کیونکہ دین ومذہب کی
آزادی انسان کے ان بنیادی حقوق میں سے ایک ہے جسے انسان کا فطری خاصہ مانا
جاتاہے ، یہی وجہ ہے کہ حکومت نے ہرمذہب کے اس فطری حق کاپاس و لحاظ رکھا،
خود ہمارے ملک ہندوستان کی قدیم تاریخ میں اس کی مثالیں موجود ہیں ۔’’
انگریزی راج‘‘ کے مصنف پنڈت سندر لال الہ آبادی نے عہد مغلیہ پر گفتگو کرتے
ہوئے تحریر فرمایاتھا ۔
’’ اکبر ، جہانگیر، شاہجہاں، اور ان کے بعد اورنگ زیب کے تمام جانشینوں کے
زمانہ میں ہندومسلم یکساں رہتے تھے، دونوں مذاہب کی یکساں توقیر کی جاتی
تھی، اور مذہب کے لیے کسی کے ساتھ جانب داری نہ کی جاتی تھی۔(روشن مستقبل
،ص؍۲۴)۔
مذاہب عالم کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب بھی کسی حاکم یا حکومت کی طرف سے
آزادیٔ مذہب پر قدغن لگانے کی کوشش کی گئی تو عوام نے اسے برداشت نہ کیا
اور یہ ایک بغاوت کا پیش خیمہ بن گیا ۔ خود ہمارے ملک ہندوستان میں یہی ہوا
اور ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کا اہم ترین محرک ہندوؤں اور مسلمانوں کایہ اندیشہ
تھا کہ ان کے مذہب میں رخنہ اندازی اور اس میں بگاڑ پیدا کرنے کی کوشش کی
جارہی ہے۔
۱۹۴۷ کی جنگ آزادی میں جمعیۃ علماء ہند نے اہم کردار اداکیا ، اور ہندوستان
کو متحدہ ملک بنانے کے لئے مسلمانوں کی طرف سے نمائندگی کرتے ہوئے لاہور کے
اجلاس میں درج ذیل تجاویز پیش کی۔
(الف) ہمارا نصب العین آزادی ٔ کامل ہے ۔(ب) وطنی آزادی میں مسلمان آزاد
ہونگے، ان کا مذہب آزاد ہوگا، مسلم کلچراور تہذیب کی آزادی ہوگی، وہ کسی
ایسے آئین کو قبول نہ کریں گے جس کی بنیادایسی آزادی پر نہ رکھی گئی ہو۔(ج)
جمعیۃ علماء ہند کے نزدیک ہندوستان کے آزاد صوبوں کا سیاسی وفاق ضروری اور
مفید ہے مگرایسا وفاق اورایسی مرکزیت جس میں اپنے مخصوص تہذیب وثقافت کی
مالک نو کروڑ نفوس پر مشتمل مسلمان قوم کسی عددی اکثریت کے رحم وکرم
پرزندگی بسر کرنے پر مجبور ہوں،ایک لمحہ کے لئے بھی گوارا نہ ہوگی، یعنی
مرکز کی تشکیل ایسے اصولوں پر ہونی ضروری ہے کہ مسلمان اپنی مذہبی، سیاسی
اور تہذیبی آزادی کی طرف سے مطمئن ہوں۔(جمعیۃ علماکیا ہے)
ملک کی آزادی کے بعد جب دستور مرتب ہوا تو اس میں خصوصیت کے ساتھ مذہبی
حقوق پر توجہ دی گئی اور آزادی مذہب کو بنیادی اصول میں شامل کیا گیا۔جس
میں صاف طور پر یہ کہا گیا کہ تمام اشخاص کو آزادیٔ ضمیراور آزادی سے مذہب
قبول کرنے، اس کی پیروی اور اس کی تبلیغ کرنے کا پورا پوراحق ہے، بشرطیکہ
امن عامہ، اخلاق عامہ، صحت عامہ اور اس حصہ کی دیگر توضیعات متأثر نہ ہوں۔
مذکورہ بالاباتوں سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ہر قوم وملت کو ہندوستان
میں برابری کے ساتھ رہنے اور اپنے مذہب پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے
کی کھلی آزادی ہے ۔ لیکن ادھر گزشتہ کئی سالوں سے ہندوستان میں جو کھیل
کھیلاجارہاہے اس سے جمہوریت بدنام ہوکر رہ گئی ہے، اور پورے دنیا میں
ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کا تماشابن گیا ہے ۔ایک مخصوص طبقہ کو نشانہ
بنا کر اس کے نوجوانوں کو جیلوں میں ڈالا جارہاہے، اور انہیں دہشت گردثابت
کرنے کی ناپاک کوشش کی جارہی ہے ۔ خصوصا علماء اورمبلغین کو نشانہ بناکر ان
کو پریشان کیا جارہاہے ،اور غلط الزامات عائد کرکے سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا
گیاہے جن میں سے کچھ باعزت بری ہوگئے ہیں لیکن ابھی کئی علماء اور مسلم
نوجوان سلاخوں کے پیچھے ناکردہ گناہوں کی سزا پارہے ہیں۔
مبارک باد کے مستحق ہیں قائد ملت حضرت مولانا ارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم
جنہوں جمعیۃ علماء ہند کی قیادت کرتے ہوئے، مسلمانوں پر ہونے والے ظلم وستم
کے خلاف صدالگارہے ہیں بے جا جیلوں میں پڑے ہوئے مسلم نوجوانوں کی طرف سے
مقدمہ کی پیروی کرکے ان کو باعزت بری کرانے کی انتھک کوشش کررہے ہیں الحمد
ﷲ ان کی محنت اور لگن سے اب تک بہت مظلوم اور بے گناہوں کو انصاف ملا اور
وہ باعزت بری ہوگئے ۔ مسلمانوں سے اپیل ہے کہ وہ جمعیۃ علماء کی کوششوں کو
سراہتے ہوئے ہر طرح کا مالی وجسمانی تعاون فرماتے رہیں ۔ اﷲ تعالیٰ حضرت
والا کو اسی طرح جمعیۃ کی قیادت کرنے اور قوم وملت کی فلاح وبہبود کے لیے
سعی کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ (آمین)
ابھی حال ہی میں اسلام کے عالمی اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائک پر بے جا الزامات
لگاکر ان کو پریشان کیاگیا اور ان کے بیانات اور ان کے پیس ٹیوی چینل پر
پابندیاں عائد کرنے کی مانگ کی گئی۔ جو جمہوریت کے سراسرمنافی ہے ۔
دوسری طرف جنت ارضی وادیٔ کشمیر ان دنوں برف کی سفیدی کی جگہ خون سے سرخ
ہوگیاہے۔اور پلیٹ گن کے ذریعہ عوام کو زخمی کیاجارہاہے ۔ معلومات کے مطابق
پلیٹ گن جان لیوا تو نہیں ہے لیکن اس سے چہرے بگڑجاتے ہیں بلکہ کئی لوگوں
کی آنکھوں کی روشنی بھی چلی گئی ہے ۔ کہاجاتا ہے کہ اس گن کو دراصل شکار کے
لیے استعمال کیاجاتاہے کیونکہ اس کی گولیاں چاروں طرف بکھرتی ہیں اور اس سے
شکاری اپنے ہدف پر نشانہ لگانے میں آسانی ہوتی ہے۔
کشمیر کے جو حالات اخبارات اور ٹیوی پر دیکھنے کو مل رہے ہیں وہ نہایت ہی
ناگفتہ بہ ہے ، کشمیروں پر ظلم کیا جارہاہے ۔ کوئی ان کا پرسان حال نہیں۔
وہاں کی زندگی مفلوج ہوکررہ گئی ہے ، انٹر اخبارات پر پابندی عائد کردی گئی
۔ ہمیں کشمیر سے محبت ہے لیکن کشمیریوں سے نہیں ،سیاسی لیڈران ان کے زخموں
پر مرہم رکھنے کے بجائے نمک پاشی میں لگے ہیں ۔حکومت کو چاہیے کشمیر یوں پر
ہونے ظلم وستم کو ختم کرکے امن قائم کرے اور ان کی زندگی بحال کرنے کوشش
کرے۔ |
|