دو قومی نظریہ…… دو ملتی نظریہ

۱۹۴۵؁ء میں جب دوسری جنگ عظیم ختم ہوئی اور اتحادی فوجوں کو فتح ہوئی تو اس کا جشن اور جلوس دار العلوم دیوبند میں منایا گیا اور یہ آغاز تھا ’’تحریک پاکستان ‘‘ کا ۔ شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی اور مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب جو اس وقت دار العلوم دیوبند کے جلیل القدر اساتذہ میں سے تھے دار العلوم دیوبند سے مستعفی ہوکر’’ تحریک پاکستان‘‘ میں شامل ہوکر شب و روز اس میں منہمک ہوگئے تھے ۔ ان دو حضرات کے علاوہ اور بھی کئی جلیل القدر اساتذہ دارالعلوم دیوبندسے مستعفی ہوکر ’’تحریک پاکستان‘‘ میں شامل ہوگئے تھے ۔اور دارالعلوم دیوبندسے مستعفی ہوجانے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ دار العلوم میں رہتے ہوئے سیاسی مشاغل اور سیاسی کاموں کے کرنے کو یہ حضرات مناسب نہیں سمجھتے تھے ،کیوں کہ اس سے دیگر اسباب کے علاوہ ایک بڑا سبب طلباء کی تعلیم میں نقصان ہونے کا اندیشہ بھی تھا ، اس واسطے یہ حضرات وہاں سے مستعفی ہوکر ہمہ تن دن رات’’ تحریک پاکستان‘‘ کی جد و جہد میں شریک ہوگئے ۔

دارالعلوم دیوبند میں اس وقت تین جماعتیں کام کر رہی تھیں ۔ ایک جمعیت علمائے اسلام کی، جس کے بانی مبانی شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی تھے اور اس کا آغاز کلکتہ سے ہوا تھا۔ اس جماعت نے ملک گیر پیمانے پر اپنا کام شروع کیا اور پورے متحدہ ہندوستان میں اپنی شاخوں کا جال بچھال دیا اور ایک بڑے پیمانے پرکام کیا ۔ علامہ شبیر احمد عثمانی فرمایا کرتے تھے کہ: ’’ اگرچہ سیاست سے میں کنارہ کش ہوچکا ہوں اور میری صحت بھی اتنے سخت اور صبر آزما کام کی اجازت نہیں دیتی ،لیکن اس وقت مسلمانانِ ہند کے لئے علیحدہ وطن کی تحریک سے الگ رہنا میرے لئے کسی طرح بھی ممکن نہیں ۔ اور پاکستان کے حصول کے لئے اگر مجھے اپنا خون بھی دینا پڑا تو میں اس سے بھی دریغ نہیں کروں گا ۔ چنانچہ ان حضرات نے بڑے پیمانے پر متحدہ ہندوستان کے طول و عرض کے دورے کیے ، تقریریں کیں ، جلسے کیے حتیٰ کہ دارالعلوم دیوبند میں بھی اسی موضوع پر جلسے ہوتے رہے ۔

دوسری جماعت دارالعلوم دیوبند میں مسلم لیگ ہی کی ایک اور تحریک’’ مسلم لیگ اسٹوڈنٹس فیڈریشن‘‘ کے نام سے تھی، جو تقریباً تمام شہروں میں ہوتی تھی یہ تحریک کالجوں اور اسکولوں کے طلباء کی ایک تنظیم تھی اور یہ بھی تقریباً پورے ہندوستان میں پھیلی ہوئی تھی یہاں تک کہ دیوبند میں بھی تھی اور ان کے بھی آئے دن جلسے ہوتے تھے اور جلوس نکلتے تھے۔

تیسری جماعت دیوبند میں’’ بچہ مسلم لیگ‘‘ کی تھی اس جماعت میں تقریباً ۶۰۰ سو بچے شامل تھے، جو جمعہ کی نماز کے بعد دیوبند سے باہر شہر کے وسط میں جلوس نکالا کرتے تھے اور اس میں بچے یہ نعرے لگا رہے ہوتے تھے : ’’لے کے رہیں گے پاکستان ، دینا پڑے گا پاکستان، بٹ کے رہے گا ہندوستان، بن کے رہے گا پاکستان، پاکستان بنائیں گے اپنا سر کٹائیں گے، مسلم مسلم بھائی بھائی ، پاکستان کا مطلب کیا ؟ لا الٰہ الا اﷲ ۔‘‘

اُدھر کانگریسی بچوں کا بھی جلوس نکلتا تھا اور ان کے نعروں میں ایک نعرہ یہ ہوتا تھا کہ: ’’ ہند و مسلم بھائی بھائی‘‘ اور ’’بچہ مسلم لیگ‘‘ کا نعرہ ہوتا تھا : ’’مسلم مسلم بھائی بھائی۔‘‘

چنانچہ مسلم لیگ اور کانگریس کا یہ بنیادی اختلاف تھا ۔ کانگریس کا نظریہ یہ تھا کہ ہندوستان کے تمام لوگ ایک قو م ہیں ۔ قائد اعظم محمد علی جناح اور اکابرین علمائے دیوبند نے ان نظریئے کو ردّ کیا اور ان کو کہا کہ مسلم ہندو ایک قوم اور ایک ملت نہیں ہوسکتے۔ قرآن پاک نے واضح کردیا ہے کہ پوری دنیا میں دو ہی قومیں اور دوہی ملتیں ہیں۔ چنانچہ سورۃ تغابن میں ہے : ’’ ترجمہ:اﷲ تعالیٰ نے تم کو پیداکیا اور تم میں سے کچھ لوگ کافر ہیں اور کچھ لوگ مؤمن ۔‘‘

حضرت آدم علیہ السلام کی ولادت کے بعد پوری انسانیت پہلے ایک تھی ، لیکن بعد میں جب اس کے اندر کفر کی دراڑ پڑی تو اس نے انسانی اخوت کو دو مختلف حصوں میں تقسیم کردیااور اس طرح مسلمان لگ ہوگئے اور کافر الگ ہوگئے ۔اور یہ نزاع آج تک چلا آرہا ہے۔ اسی طرح تمام انبیاء علیہم السلام نے اپنی اپنی امتوں کو کھل کر کہا کہ: ’’ اگرچہ تم میری قوم کے لوگ ہو لیکن اگر میرے دین سے الگ ہو تو تمہارا دین الگ ہے اور میرا دین الگ ہے۔‘‘ لہٰذا ہم ایک الگ ملت ہیں اور ایک الگ قوم ہیں۔اور مسلمان اور غیر مسلم ایک ملت او رایک قوم ہرگز نہیں ہوسکتے ۔ اور ہندوستان کی تمام آبادی کے لوگ ایک قوم اور ایک ملت ہرگز نہیں ہوسکتے ۔

اس زمانہ میں ہندوستان کی مردم شماری چالیس کروڑ تھی ۔ جس میں دس کروڑ مسلمان تھے اور تیس کروڑ غیر مسلم تھے۔ اور یہ بات طے شدہ تھی کہ جب ہندوستان آزاد ہوگا تو مسلم آبادی ایک جمہوری اور سیکولر حکومت ہوگی۔ اور یہ بات کانگریس نے اپنے منشور میں شامل بھی کر رکھی تھی۔ لیکن اگر یہ سیکولر حکومت ہوتی تو اس کا حاصل یہ ہوتاکہ آج تیس کروڑ کی ہندو آبادی مسلمانوں کی اقلیت پر حکمران بنی ہوئی ہوتی۔ اور اگر وہ نعرہ مان لیا جاتا تو آج کراچی اور پاکستان کے تمام صوبوں پر ہندوستان کے موجودہ وزیر اعظم کی حکومت ہوتی ۔ اور اﷲ تعالیٰ نے ہمیں ۱۴/ اگست ۱۹۴۷؁ء کو جو آزادی کی نعمت عطا فرمائی اس سے ہم محروم رہ جاتے ۔

جب مسلم لیگ کی تحریک نے قوت پکڑی اور یہ بات تقریباً سامنے آگئی کہ اب پاکستان بنائے بغیر چارۂ کار نہیں ہے اور مسلمانوں کی بھاری اکثریت انگریز کی غلامی سے نکل کر ہندوستان کی اکثریت کی غلامی میں جانے کے لئے تیار نہیں ہے تو خیبر پختون خواہ کے اس وقت کے مشہور لیڈر غفار خان نے پختونستان کا نعرہ لگا دیا۔ اورکہا کہ: ’’ اگر پاکستان بنا تو ہم پختونستان الگ بنائیں گے، کیوں کہ پختون ایک الگ قوم ہے۔‘‘ چنانچہ قدرت اﷲ شہاب نے شہاب نامہ میں لکھاہے کہ غفار خان کا یہ ایک عجیب بھینگا پن تھا کہ جب تک پاکستان بننے کی امید قائم نہیں ہوئی تھی اور ظن غالب نہیں ہوا تھا اس وقت تک تو ان کا نعرہ تھاکہ : ’’ ہندو ستان کے تمام لوگ ایک قوم ہیں۔‘‘ یعنی اس وقت انہیں ہندوستان کے تمام لوگ ایک قوم نظر آتی تھی اور جیسے ہی پاکستان کے وجود میں آنے کا نمبر آیا تو ان کو دو دو قومیں بلکہ پاکستان کے چار صوبوں کی شکل میں چار چار قومیں نظر آنے لگ گئیں کہ ہر صوبہ ایک الگ قوم ہے۔ یہ ان کا ایک عجیب بھینگا پن تھا کہ جب تک ہندوؤں کی حمایت میں وہ بول رہے تھے تو پورے ہندوستان میں ان کو ایک قوم نظر آرہی تھی اور جیسے ہی پاکستان کا نام آیا اور امکان ہواکہ پاکستان اب قائم ہونے والا ہے تو یہ شوشہ چھوڑ دیا کہ پختونستان ہمارا الگ ہونا چاہیے۔ کیوں کہ پختون ایک الگ قوم ہے۔ یہ ایک بہت بڑا چیلنچ تھا جسے بہت بڑے پیمانے پر اٹھایا گیاتھا اور صوبہ خیبر پختو نخواہ میں اس کی باقاعدہ ایک تحریک چلائی گئی تھی ۔ اورجس وقت ان کا یہ مطالبہ بڑھا تو حکومت ہند نے طے کیا کہ:’’ یہ فیصلہ ریفرینڈم کے ذریعہ سے کروایا جائے گا کہ صوبہ خیبر پختون خواہ پاکستان میں داخل ہو یا نہ ہو؟ اور پختونستان الگ بنے یا نہیں؟۔‘‘

اس وقت قائد اعظم محمد علی جناح نے علامہ شبیر احمد عثمانی سے درخواست کی کہ صوبہ خیبر پختونخواہ کو آپ کی بہت زیادہ ضررت ہے اس لئے کہ یہ وہ علاقہ ہے جہاں آپ کے بہت زیادہ شاگرد علمائے کرام ، مذہبی اور دین پر جان دینے والے لو گ موجود ہیں۔ آپ ان کو جاکر ریفرینڈم کے لئے تیار کریں۔ چنانچہ علامہ شبیر احمد عثمانی، مفتی محمد شفیع دیوبندی ،مولانا محمد متین خطیب اور محترم ذکی کیفی نے سخت گرمی کے زمانہ میں پورے صوبہ خیبر پختونخواہ اور آزاد قبائل کادورہ کیا ۔گاؤں گاؤں اور شہر شہر گئے۔ جس کے نتیجہ میں وہاں کے لوگوں نے کہا کہ: ’’ ہم پاکستان کی خاطر اپنی جانیں بھی قربان کردیں گے۔‘‘ اس کے بعد ریفرینڈم ہو ا اور صوبہ خیبر پختونخواہ کی اکثریت نے پاکستان کو تسلیم اور پختونستان کو ردّ کردیا چنانچہ یہ پاکستان کی ایک بہت بڑی فتح تھی جس کے نتیجہ میں اﷲ تعالیٰ نے ہمیں یہ ملک پاکستان عطا فرمایا ۔
Mufti Muhammad Waqas Rafi
About the Author: Mufti Muhammad Waqas Rafi Read More Articles by Mufti Muhammad Waqas Rafi: 188 Articles with 255619 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.