میرا پاکستان کیسا ہو ؟
(Hina Sadaqat, Rawalpindi)
میں اور میرے گھر والے اپنی ذاتی چاردیواری
میں پنکھے کی ھوا میں رات بھر آرام سے سوئے۔صبح سویرےاٹھے نمازِ فجر ادا
کرنے کی غرض سے وضو کے لیے نل کھولا تو صاف شفاف پانی آ رہا تھا۔وضو کیا
نماز ادا کی اور تلاوت کی۔ناشتے کے لیے کھانے پینے کی چیزیں مناسب مقدار
میں موجود تھیں۔گیس جلائی ناشتہ بنایا کھایا پیا اللہ کا شکر ادا کیا اور
پھر تیار ھونے کے لیے الماری کھولی تو پہننے کے لیے اچھے اچھے کپڑے بھی
موجود تھے۔قصہ مختصر روٹی،کپڑا،مکان،پانی،بجلی اور گیس اللہ کے فضل سے سب
موجود تھا۔
گھر سے باہر نکلے تو لیکن پھر گھر میں ھی داخل ھوئے ہاں میرا وطن میری
دھرتی ماں میرا گھر ھی تو ھے۔گویا کہ کبھی گھر سے نکلے ھی نہ ھوں۔ہاں تو جب
باہر آنے تو زیادہ انتظار نہ کرنا پڑا اور آرام دہ بس مناسب کرائے کے ساتھ
موجود تھی۔سڑکوں پر کوئی رش نہ تھی ہر کوئی اپنی اپنی لائن میں جا رہا
تھا۔جہاں جہاں نظر پڑتی جائے صاف ستھرا ماحول اور تھوڑے تھوڑے فاصلے پر
کچرا پھینکنے کےبڑے بڑے ڈبے تھے جنہیں صبح صبح خالی کیا جا رہا تھا۔صاف
ستھری مہکتی ھوئ مضرِ صحت سے پاک ھوا چل رھی تھی۔جگہ جگہ درختوں کے سائے
سورج کی کرنوں کو ڈھانپے ھوئے سایہ فگن تھے۔امن وامان کی چڑیاں ہر جگہ چہک
مہک رھیں تھیں۔اتنے میں بس رکی اور اچھی و معیاری تعلیم،قابلیت واھلیت اور
صلاحیت کے مطابق جو روزگار ملا تھا اس کو ایمانداری ،دیانتداری،جفاکشی،محنت
و مشقت اور تمام تر ذہنی صلاحیتوں سے نبھانے کے لیے خوشی خوشی خدمتِ خلق کے
جذبے سے سرشار ہو کر قدم آگے بڑھتے جا رہے تھے آخر کار اپنی نشست پر بیٹھ
کر اپنے منصب کو اپنے عطا کردہ مالکِ حقیقی کی طرف سے امانت سمجھ کر خیانت
نہ کرنے کی نیت سے صداقت اور شرافت سے ادا کیا جا رہا تھا۔نمازوں کے اوقات
میں وقفہ ہوتا اور نماز باجماعت ادا کی جاتی۔کھانے کے وقت مل جل کر کھایا
جاتا اور اسی دوران ایک دوسرے کے حالات معلوم ہوتے اور اگر کوئی مسائل ہوتے
تو مل جل کر حل کرنے کی کوشش کی جاتی۔اور اس کا جو برکتوں والا انعام مہینے
کے آخر میں ملتا اس سے آرام سے گھر کا گزارہ بھی ہو جاتا اور بچت الگ۔اسی
بچت کی رقم کو بنکوں میں رکھا جاتا جو کہ مضاربت اور شراکت کے نظام کے تحت
بلا سود چل رہے تھے۔چھٹی کے وقت سلام دعا ہوتی اور گھر کی راہ لی جاتی۔
گھر جاتے ہوئے راستے میں دھیان گھر کا کچھ سودا سلف لینے کی طرف گیا تو
بازار کا رخ کیا۔اچھے،سچے،نیک سیرت اور صاف ستھرے دکاندار اپنا اپنا مال
لیے ہوئے بازاروں میں بیٹھے ہوئے تھے۔ہر ایک کے پاس معیاری اور اچھی چیزیں
نہایت ہی مناسب داموں میں موجود تھیں۔اسی لیے بحث کرنی ہی نہ پڑی اور جلدی
سے سودا بھی خرید لیا گیا۔
اچانک ہی بہت تیز ہوائیں چلنے لگیں کیونکہ پیشگی اطلاعات تھیں اس لیے سائن
بورڈ اتار لیے گئے تھے اور پھر بہت تیز بارش ہونے لگی چونکہ نالیوں اور
غٹروں کا نظام صحیح تھا اس لیے سڑکوں پر کوئی پانی جمع نہ ہو ا ۔قریب ہی
ایک ہوٹل تھا بارش سے بچنے کے لیے اس ہوٹل میں داخل ہوتے ہی ہر طرف سے لذیذ
کھانوں کی مہک آنے لگی۔کھانے کو جی چاہا تو فہرست طعام ہاتھ میں لی ہر چیز
کے مناسب دام تھے۔کھانا منگوایا تو صاف ستھرے برتنوں میں پاک صاف لذیذ
کھانا لایا گیا۔کھانے کے بعد اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے باہر کی راہ لی گئی
تب تک بارش تھم چکی تھی۔پھر کیا تھا فوراً سےٹیکسی روکی بیٹھا گیا ابھی
تھوڑی دور ٹیکسی والا چلا ہی تھا کہ ٹیکسی نے پٹرول کی کمی کی شکایت کی
فوراً پٹرول پمپ ٹیکسی لائی گئی نہایت ہی سستے داموں پٹرول ڈلوایا چونکہ
پٹرول سستا تھا اس لیے کرایہ بھی پہنچ میں تھا۔بس گھر اب کچھ ہی فاصلے پر
تھا۔راستے میں قریب سے ہی دو سرکاری گاڑیاں گزریں لوگوں نے دیکھ کر خوشی سے
ہاتھ لہرانا شروع کر دیے۔چونکہ اشارے سرخ ہو چکے تھے وہ دو سرکاری گاڑیاں
بھی رکیں ان کے رکتے ہی کچھ لوگ دور سے ہی اور کچھ قریب آ کر ان سرکاری
گاڑیوں میں سے ایک گاڑی کے اندر موجود شخص کو سلام دعا کر رہے تھے۔تب تک
ٹیکسی والا بھی قریب پہنچ چکا تھا۔اس سرکاری گاڑی میں جھانکنے سے معلوم ہوا
کہ یہ تو مادرِ وطن کا ہی ایک سچا،با کردار،اعلیٰ ظرف،عادل،بہادر،نیک
سیرت،شریفُ النفس،،عاجزُ الطبع اور عوام کی امانت یعنی بیت المال کا
رکھوالا سپوت ہے۔مادرِ وطن کے اس جوانمرد کو راستے میں وہ جہاں جہاں بھی
رکتاہر کوئی دعائیں دیتا اور اس کے کارناموں کا تذکرہ کرتا۔یہ وہ تھا جو
صرف اور صرف امراء سے مکس(ٹیکس)لیتا اور امراء بھی مکس دیتے ہوئے فخر محسوس
کرتے۔وہ ملک میں زکوٰۃ ایسے تقسیم کررہا تھا کہ غربت بس نام ہی کی رہ گئی
تھی۔ہاں یہی تو وہ سپوت تھا جو کہ حاکمِ وقت تھا اور اقتدار کے ایوانوں میں
باقاعدگی سے جاتا اور جس کی وجہ سے ہر ایوان صداقت و شرافت،عدل وانصاف کو
پسند کرنے والے لوگوں پر مشتمل تھا۔یہی وہ حاکمِ وقت تھا کہ جس نے انصاف
اور قانون کا بول بالا کیے ہوئے تھا۔آج اس حاکم وقت کے پُرنُور مہکتے دمکتے
چمکتے مسکراتے ہوئے چہرے کو میں نے بھی قریب سے دیکھ لیا تھا۔کچھ ہی دیر
بعد ٹیکسی بتائے ہوئے پتے پر رکی دیکھا تو گھر آ چکا تھا۔مناسب کرایہ ادا
کرنے کے بعد گھر کے اندر داخل ہوا گیا۔ھاتھ منہ دھو کر گپ شپ لگی سارے دن
کی روداد سنائی۔اسی اثناء میں رات ہوئی کھانا کھایا اور سونے کے لیے جایا
گیا اور پھر بتی بند کی۔آرام سے پنکھے کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا میں سونے کے لیے
بستر پر ابھی لیٹ کر آنکھیں بند ہی کیں تھیں کہ الارم نے بولنا شروع کر دیا
آنکھیں کھولیں تو معلوم ہوا کہ یہ سب تو ایک خواب تھا۔اتنے میں موبائل فون
پر ایک میل موصول ہوئی کھولنے پر معلوم ہوا کہ ایک مضمون"میرا پاکستان کیسا
ہو گا" کے نام سے ہونے والے مقابلے میں حصہ لیں۔جھٹ سے خیال آیا کہ خواب
میں جو ملک،عوام،سربراہِ مملکت اور ملکی حالات دیکھے میرا پاکستان ایسا ہو
گا انشاءاللہ۔تمام خواب کو قلم کی روشنائ سے کورے کاغذوں پر بکھیر دیا ۔وہ
کہتے ہیں ناں کہ عقل مند کے لیے اشارہ ہی کافی ہے۔تو قارئین کے لیے اگر غور
سے پڑھیں تو اس مضمون میں گزارشات بھی ہیں،سفارشات بھی،حل بھی موجود ہے اور
طریقہ کار بھی۔اس مضمون میں سب کچھ وہ ہے جو ایک انسانی دسترس سے کچھ دور
نہیں۔مگر ہاں یہ اور بات ہے کہ عام مضمون نویسی کے طریقہ کار سے ایک الگ
اور منفرد انداز اپنایا گیا ہے اور مضمون کو ایک خواب کی صورت میں لکھا گیا
ہے اب ایک عقل مند قاری ہی اسے پڑھ کر غوروخوص کر سکتا ہے ورنہ ایک عام
قاری تو اسے عجیب و غریب فلسفہ اور مجھے عجیب و غریب فلسفی کہہ کے ہی نظر
انداز کر دےگا۔اس خواب کی باریک بینی تک وہی پہنچے گا جو یہ جانتا ہو گا کہ
نہ صرف پاکستان بلکہ نظریہ پاکستان بھی صرف اور صرف ایک خواب ہی تھا۔ |
|