میرا پاکستان کیسا ہو؟

کیا یہ بھی پوچھنے کی بات ھے؟ کہ ہمارا پاکیستان کیسا ہو؟ کیا وہ دور بھول گئے جب ہمارےنبی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صفا کے چبوترے پر بیٹھ کر بغیر کسی سازوسامان کے ہمارے صحابہ کرام کی ایسی تربیت کی کہ ان صحابہ کرام نے دنیا میں ایسے کارنامےانجام دئے جو تاریخ میں سنہرے حروف میں درج ہیں ۔ایسی طرز حکومت دنیا کو دی جس میں امیر ،غریب،عربی،عجمی،کالا،گورا سب ایک انسان ہونے کے ناطے سے برابر تھےنہ کوئی فرقہ واریت ،نہ کوئی دہشت گردی،نہ کوئی غربت نہ افلاس اورایسی قانون سازی تھی کہ آج چودہ سو سال بعد بھی دنیا کے کئی ممالک صحابہ کرام کی قانون سازی پر عمل پیرا ہیں اور امن سے اپنے ملک کی ترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔ اب ہمیں اتنی ہمت کی ضرورت ہےجتنی ہمت حضرت عمر بن عبدالعزیز نے کی اور دنیا کو دکھایا کہ جس ملک میں عدل کا بول بالا ہو گا خواہ وہ کوئی بھی ملک ہو اس میں بکری اور شیر ایک گاٹ میں پانی پی سکیں گے۔آج ہمیں قانون بنانے کی ضرورت نہیں ہے جتنا کہ قانون پر عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہے۔ جس طرح خلفائے راشدین نے کیا اور کروایا کیونکہ ہر قانون معاشرے کی تشکیل اور ترقی کے لئے بنایا جاتا ہے۔اسلام نے چودہ سو سال پہلے قانون پر ایسے عمل کر کے دکھایا جس کے نتیجے میں بہترین اسلامی ریاست کا مشاہدہ دنیانے کیا جس میں دنیا ہر مذہب کے لوگ امن اور بھائی چارے کے ساتھ رہتے تھے۔ کیا اب بھی چودہ سو سال کے بعد یہ سوال عجیب نہیں کہ اسلام کے نام پر بننے والی ریاست پاکستان کیسا ہو؟ بحیثییت مسلمان ہمارے لئے تو ایک ایسا ہی پاکستان ہونا چاہیےجیسا کہ خلفائے راشدین کادور تھا۔پاکستان کو بہتر بنانے کے لئے صرف ایک ایسی تعلیم کی ضرورت ہے جو کسی تعلیمی ادارے سے نہیں بلکہ عمل اور مشاہدے سے حاصل ہوتی ہے۔ ایک ایسا علم جو انسان کو اپنے فرائض ادا کرنے اور دوسروں کے حقوق محفوظ رکھنے اور انسان کو اپنی عاقبت سنوارنے کے لائق بنا دیتاہے اگر عوام اور حکومت ایک دوسرے کو قصوروار سمجھنے اور اپنا کام دوسروں پر ڈالنے کے بجائے “اپنی مدد آپ“ پر عمل کریں تو کامیاب پاکستان کی تعمیر دنیا کی کوئی رکاوٹ نہ آ سکی گی کیونکہ اپنی مدد آپ نہایت آزمودہ مقولہ ہےاور دنیا کی کئی قوموں نے اسی کی بدولت ترقی کی ہے۔ اگر ہم سب علم کے ساتھ عمل اور سوانح عمری کی بہ نسبت عمدہ چال چلن اوربہترکردار کو اپنا لیں تو معزز انسان بن سکتے ہیں اور بہتر پاکستان کی تعمیر کر سکتےہیں۔جس طرح پانی اپنی پنسال میں خود جاتا ہے اسی طرح عوام کی بدولت حکمران چنے جا تے ہیں۔عوام کا سسٹم کو اور حکومت کا عوام کو قصوروار سمجھنے سے سوائے بد نظمی اور باہمی انتشار کے کچھ حاصل نہ ہو سکے گا۔اگر عوام اور حکومت کے ارکان شکوہ شکایات کی بجائے ہر حال میں خوش رہنا سیکھ لیں تو ہم لوگ آج کی فرقہ واریت اور باہمی انتشار سے باہر آسکتے ہیں۔ اور مل کر پاکستان کے وقار کی حفاظت کر سکیں گے۔آج ہمیں پیسہ، طاقت، بم، اسلحہ وغیرہ کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ایک اچھی سوچ کی ضرورت ہے۔ ایک عام سی مثال ہے کہ جس طرح پودے کو پرورش کے لئے روشنی، حرارت، پانی اور ہوا کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح ایک اچھی سوچ کو سچ، ایمانداری، محبت اور خلوص کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر آج ہم ایک اچھی سوچ کی پرورش کی کوشش کریں توہم ایک بہتر پاکستان بنانے کے خواب کو جو آج ہر پاکستانی کی آنکھ میں ہے تعبیر میں بدل سکتے ہیں۔ جیسے علامہ اقبال کے خواب کو قائداعظم نے اپنی محنت اور کاوشوں سے تعبیر کا روپ دیا۔

ایک بہتر ۔۔۔۔ایک مثبت۔۔۔۔ ایک مضبوط سوچ ایک بہتر۔۔۔ ایک مثبت۔۔۔۔ ایک سچے۔۔۔۔۔ ایک مضبوط پاکستان کی بنیاد ہے۔

اگر آج ایک اچھی سوچ کی پرورش کرنے کا عہد کریں تو ایک اچھے پاکستان کو تعمیر کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔(انشااللہ)
samra
About the Author: samra Read More Articles by samra: 8 Articles with 18146 views my name is samra.i am studied in lcwu. i live in lahore... View More