پچھلے دنوں مجھے فیملی کے سا تھ
آدھےسےزیادہ پاکستان کی سیا حت کا موقع ملا اور میرا پاکستان کیسا ہے؟
دیکھنےکو ملا۔ میری سیاحت کا آغاز بلوچستان میں اپنے ایک پسماندہ ترین ضلع
آواران سے ہوا ۔ جہاں آبادی کا ننا نوے فیصد حصہ مٹی کے بنے ہوئے یا پھر
لکڑی کے بنے ہوئے گھروں میں رہتا ہے۔ جہاں کے لوگ بجلی،گیس ،صاف پانی ،اسکول
اور پختہ سڑکیں دیکھنے کو ترستے ہیں ۔ راستے میں مجھے کئی جگہ کیچڑ اور
گندے کپڑوں میں ملبوس بچے بکریاں چراتے دکھائی دیئے۔ اسکول کے وقت کہیں
کہیں درختوں کے سائے تلے بچے بیٹھے تعلیم حاصل کرتے نظر آئے۔ کہیں کہیں
بغیر چار دیواری کے گھروں کے نزدیک گندے اور پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس
عورتیں لکڑیاں جمع کرتی نظر آئیں ۔ اور کہیں کہیں لکڑیوں پھونک پھونک کر
کھانا بناتی نظر آئیں۔ گاؤں سے نسبتاً دورایک ہینڈ پمپ نظر آیا جہاں عورتیں
لائن میں لگی اپنی اپنی باری کا انتظار کر رہی تھیں۔ تاکہ تھوڑے بہت پانی
سے گھر کی ضروریات زندگی پوری کرسکیں ۔ جبکہ کہیں بارش کی وجہ سے کھڑے پانی
میں بچے نہاتے نظر آئے۔ پانی ، بجلی ،گیس ، تعلیم ، گھر اور باقی ضروریات
زندگی سے بےنیازان سب کی ایک الگ اپنی دنیا تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ یہ سب
اکیسویں صدی کے لوگ نہیں ہیں بلکہ کسی دوسرے سیارے کی مخلوق ہیں ٹوٹی پھوٹی
سڑک سے گزرتے ہوئے راستے میں سنگلاخ پہاڑ جو کہ اپنے اندر گیس، تیل ، سونا
، کرومائیٹ اور دیگردوسری کئی بیش بہا خزانے چپائے ہوئے نظر آئے۔آگے
ٹھاٹیں مارتا ہوا سمندر تا حد نگاہ دکھائی دیا۔سمندر کی وسعتوں کے ساتھ
ساتھ بوسیدہ کپڑوں میں اپنے مستقبل سے مایوس اور ناامیدی کے سائے تلے ماہی
گیر مچھلیاں پکڑنے میں مشغول نظر آئے۔ ہم دکھ اور خوشی کے تاثر سمیت سندھ
کی حد ود میں داخل ہوگئے۔ ہیاں پاکستان تھوڑا ترقی یافتہ اوربہتر لگا۔ اور
دل کو جو ٹھیس بلوچستان کی سرزمین میں پہنچی تھی وہ کم ہوئی بلندوبالا
عمارات ، پختہ سڑکیں بڑی بڑی فیکٹریاں ،اسکول ، ہاسپیٹل اور بڑے شاپنگ
سینٹردکھائی دئے۔ بجلی یہاں اگر ناپید نہیں تھی تو مسلسل بھی نہیں تھی۔ جب
اندرون سندھ میں داخل ہوئے تو یہاں کے باسیوں کی معاشی حالت کو دیکھ کر دکھ
ضرور ہوا۔ البتہ قدرتی حسن جو کہ بلوچستان کے بلند و بالا کوہساروں اور
سمندر کی بھپرتی لہروں میں ملا وہ یہاں ہر سو چھائی ہوئی ہریالی، پھل دار
درختوں نہروں اور دریا میں دکھائی دیا۔ جونہی ہم پنجاب اور بعد میں خیبر
پختونخواہ اور آزاد کشمیر کی سرزمین میں داخل ہوئےخوبصورت اور کشادہ سڑک
اور اسکے دونوں جانب درختوں کی قطاروں نے سفر کو خوشگوار کر دیا۔ اوراس د
لفریبی میں مذید اضافہ ہوتا گیا جب قدرتی حسن سے مالا مال اسلام آباد مری
، کاغان ، ناراں ،کالام، جھیل سیف الملوک،لالہ زار ،آزاد کشمیرجھیل نیلم
جیسے کئی دوسرے خوبصورت مقامات دیکھے۔ یہ سب دیکھ کر دل خود بخود اللہ
تعالٰی کی حمد وثنا کرنے لگا۔ کہیں درختوں کے بڑے بڑے جھنڈ دل لبھاتے تو
کہیں بادل اور بارشوں کی بوندھے دل موہ لیتیں۔ کہیں آبشار اور سڑکوں اور
پہاڑوں کے بیچ بہنے والے دریا کی موجیں اپنے حسن میں ڈبوتیں۔
ہم اپنے خوبصورت پاکستان کی خوبصورت اور دلفریب تصویر ذہن میں بسا کر واپس
آئے اور رب عالیشان کے شکر گزار ہوئے کہ اس نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے۔ ۔ابھی
اس خوشی کا خمار بھی نہیں اترا تھا کہ لاہور میں بچوں کے مسلسل اغوااور
کوئٹہ کے اسپتال میں خود کش حملہ کا ایک انتہائی دلخراش واقعہ رونما ہوا۔
جس نے ہماری روحوں کو جھنجوڑ ڈالا۔اس میں سو کے قریب لوگوں کے گھر اجڑ گئے۔
پل بھر میں ان کے بچے یتیم اور عورتیں بیوہ ہوگئیں۔ اور یہیں سے میرے ذہن
میں بنا ہوا نقشہ بالکل بدل گیا۔اور مجھے پاکستان میں ہونے والے کئی سفاک
واقعات تسلسل سے یاد آنے لگےسو بچوں کی لاشوں کو تیزاب میں ڈالنے والا بے
حس شخص ، کراچی کے سفاک نامعلوم قاتل ،کوئیٹہ میں ہزارا قبیلے کا سو لاشوں
کے ساتھ احتجاج ،توتک میں اجتمائی لاشوں کا ملنا۔ مستونگ میں کھیل کے میدان
میں بکھرا خون ،کوئٹہ میں طالبات کی دھماکے سے جلی ہوئی بس ،آرمی پبلک
اسکول کے احاطے میں دو سو کے قریب معصوم بچوں کا بہتا ہوا خون ، روزانہ
بلوچستان سے ملنے والی مسخ شدہ لاشیں۔ اور سب سے بڑی بات روزانہ گدھوں اور
کتوں اور دوسرے مردار جانوروں کا گوشت جو سب نہایت شوق سے کھاتے ہیں۔
اگر ایک طرف پاکستان کا قدرتی حسن اس کے چار موسم، ،وسائل، پھل ، پھول،
دریا، سمندر، آبشار،نہریں ، جھیل ،برف پوش پہاڑ گلیشیئر ان سے بہنے والے
چشمے خوبصورت بادل اور بارش مجھے مغرور کر رہے تھے کہ یہ ہے میرا پاکستان،
اس میں وہ سب کچھ ہے جس کے لیے دنیا ترستی ہے، اور یہی میرا فخر ہے۔ تو
دوسری جانب بھوک ، افلاس ، پینے کے پانی کی کمی، ،ناخواندگی ،لاقانونیت،
کرپشن، بد امنی، ،دہشت گردی،اسلام اور غیرت کے نام پر قتل و غارت گری،خون
کی ہولی، لاشوں کے انبھار ،دو طبقاتی نظام ،بنیادی ضروریات زندگی کو ترستا
انسان،پاکستان کا قرض میں ڈوبا بچہ بچہ،صحت کی سہولتوں کا فقدان۔ تعصبانہ
طرز نظام،وی آئی پی کلچر، لولی لنگڑی جمہوریت ، بھکاری حکمران ، غربت سے
نچلی سطح پہ زندگی گزارنے والی زندہ لاشیں اور سب سے بڑھ کر حکمران طبقے کی
بےحسی۔ یہ ہیں پاکستان کی چند چیدہ چیدہ تلخ حقیقتیں جن کو دیکھ کر رونا
آتا ہے،کہ کیا یہ ہے میرا پاکستان ؟؟؟جس کا خواب علامہ اقبال نےدیکھااور
جس کے لئے مسلمانوں نے عظیم قربانیاں دیں۔ اور قائد اعظم کی سر پرستی میں
حاصل کیا۔ مگر افسوس کا مقام ہے کہ آج ملک میں جو بھی کچھ ہو رہا ہے وہ
قابل تزلیل ہےکیونکہ کسی بھی ملک میں پاکستان کی شخصیت کے ساتھ کئی سوالیہ
نشان بھی اٹھ کھڑے ہوت ہیں۔ قائد اعظم نےپاکستان بننے کے بعد کہا میں اپنا
کام پورا کر چکا ہوں قوم کو جس چیز کی ضرورت تھی وہ اسے مل گئی اب یہ قوم
کا کام ہے کہ وہ اسے تعمیر کرے۔
اگر سچے دل سےاور خلوص نیت سے کوشش کی جائے تو تبدیلی ممکن ہے اوریہ ہمارے
ہاتھ میں ہے کہ ہم پاکستان کو ویسا بنائیں جیسا ہم دیکھنا چاہتے ہیں ۔ اس
کے لئے ہمیں چند اصطلاحات اور عملی اقدامات کی ضرورت ہوگی تاکہ ہم معاشرے
میں اپنی کھوئی ہوئی حیثیت عزت اور آعلیٰ مقام حاصل کر سکیں اور دوسری
ترقی یافتہ قوموں کے شانہ بشانہ چل سکیں ۔اس کے لئے چند قبل عمل نقاط درج
ذیل ہیں ۔
تعلیم ۔ سب سے پہلے تعلیم کے شعبے میں اصطلاحات کی ضرورت ہے کیونکہ تعلیم
کے شعبے میں آگے بڑھ کر ہم ترقی کر سکتے ہیں ۔ تعلیم سب بچوں کے لئے لازمی
قرار دی جائے۔ اور آج کل جودو طبقاتی اور وی آئی پی نظام ہے اس نے تعلیم
کوبھی براہراست متاثر کیا ہے۔اس نظام کو مکمل طور پر ختم کرکےیکساں تعلیمی
نظام رائج کرنا چاہئےتاکہ لوگوں کے اندر جو احساس کمتری ہے اسے کم کیا
جاسکےاور انفرادی قوت کو اسی طرح یکجا کرکےترقی کی سیڑھی چڑھی جا سکتی ہے
تعلیم سے متعلق یہ بھی ضروری ہے کہ مدرسوں کوڈی گریڈ کرنے کے بجائے انہیں
رجسٹر کرکے گورنمنٹ اپنی تحویل میں لے ۔اور اگر ممکن ہوسکے تو مدرسوں کو
بھی یکساں تعلیمی نظام کا ہی حصہ بناے جائے۔تاکہ مستقبل میں کسی بھی ممکنہ
مذہبی دہشت گردی سے بچا جا سکے۔
انصااف ۔پاکستان میں بڑھتی ہوئی کرپشن، لاقانونیت،بد امنی ، دہشت گردی، قتل
وغارت گری کو روکنے کے لئے انتہائی ضروری ہے کہ نا انصافی کا خاتمہ ہو۔
کیونکہ نا انصافی اور طبقا تی نظام ہی پاکستان کی غیر مستحکم صورت حال کی
سب سے بڑی وجہ ہے ۔ کیونکہ پاکستان میں غریب کے لئے قانون الگ ہے اور امرا،
جاگیر دار سرمایہ کار اورحکام آعلیٰ کے لئے الگ ۔ غریب روٹی چرا کر جیل
میں چکی پیستا ہے اور امیر بڑے سے بڑاجرم کرکے بھی آزاد گھومتا ہے۔
وہ روٹی چرا کر چور ہوگیا
لوگ ملک کھا گئے قانون لکھتے لکھتے
حکومت کو اس مد میں خلوص دل سے اقدامات کرنے چاہئیں ۔ اورسب کا بلا امتیاز
احتساب ہونا چاہئے۔
اسلام کا نفاذ۔ پاکستان حاصل کرنے کی سب سے بڑی وجہ دو قومی نظریہ تھا۔ مگر
پاکستان برائے نام ہی اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ مگر اب وقت کی اہم ترین
ضروریت صحیح معنوں میں اسلام کا نفاذ ۔ اور اسلامی اصولوں کی پاسداری ہے ۔
کیونکہ لاقانونیت کی ایک بڑی وجہ اسلام سے دوری بھی ہے۔
بنیادی سہولیات زندگی۔ جیسے کی پینے کا صاف پانی ، بجلی، اسپتال، اسکول،
سڑکیں وغیرہ ہر پاکستانی کا حق ہیں اور ان تک عام آدمی کی رسائی ممکن
بنانا گورنمنٹ کہ اولیں ذمہ داری ہے۔
بے روزگاری کا خاتمہ۔ ملک سے بے روزگاری کا خاتمہ بھی پاکستان کی ترقی اور
استحکام کے لئے انتہائی ضروری ہےکیونکہ اگر صحیح معنوں نیں دیکھا جائے ملک
میں پھیلی ہوئی دہشت گردی ، بد امنی، قتل وغارت گری اور انارکی کی جو صورت
حال ہے وہ بے روزگاری کی ہی مرہون منت ہے ۔ بھوک اور افلاس سے مجبور لوگ
مجبوراغلط ہاتھوں کا آلہ کار بنتے ہیں ۔ اور اپنے ضمیر کا سودا کرتے ہیں۔
اگر حکومت ہر علاقے میں وسائل اور ضروریات کو مد نظر رکھ کر مختلف قسم کی
فیکٹریوں کا قیام عمل میں لائے تو ایک طرف مقامی لوگوں کو روزگار ملے گااور
وہ غلط کاروائیوں سے بچ جائیں گے۔ تو دوسری جانب پاکستان کی معشیت پر بھی
اس کا مثبت اثر ہو گا ۔
حقیقی جمہوریت کا نفاذ۔۔ جی ہاں جمہوریت تو پاکستان میں اب بھی ہے مگر لولی
لنگڑی ہے اس لئے جمہوریت کو اس کی اصل روح کے ساتھ نافذالعمل کرنا چاہئے۔
تاکہ ملک کی ترقی کی راہ میں حائل مشکلات کا آسانی سے مقابلہ کیا جا سکے
اور ملک کی ترقی کے لئے صحیح ترمیمات لائی جاسکیں ۔اس مد میں یہ بھی ضروری
ہے کہ صوبوں کو اپنے وسائل پر مکمل اختیار ملے ۔
اور سب سے اہم بات جو ایک ملک کی ترقی کے لئے وقت کی اہم ترین ضرورت ہے وہ
ہے انفرادی کاوشیں ۔
جہاں میں قوم کا کردار دیکھا جاتا ہے
وطن کی آبرو ہوتی ہے اس کے لوگوں سے
ہم ہر چیز کے ذمہ دار حکومت کو ٹہرا کر خود کوبری الذ مہ قرار نہیں دے سکتے
ہر فرد اگر اپنے اندر قومی جذ بہ خلوص اور احساس ذمداری پیدا کرے تو کوئی
وجہ نہیں کہ ہم وہ پاکستان حاصل کر سکیں جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا
اور سینہ تان کر کہ سکیں کہ ایسا ہے میرا پاکستان- |