میرا پاکستان کیسا ہو ....؟
(Imran Changezi, Karachi)
تین درجاتی ریاستی نظام یعنی قومی ‘ صوبائی اور مقامی حکومتوں کے قیام کے ذریعے انتظامی نظام کو بہتر بناکر عوام الناس کو نہ صرف بلدیاتی اور بنیادی سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جاسکتی ہے بلکہ توانائی بحران کے خاتمے کیلئے جغرافیائی ‘ موسمی اور قدرتی ماحول کے مطابق اقدامات کا حق مقامی حکومتوں کو دیکر اس بڑے مسئلے پربھی قابو پایا جاسکتا ہے اور عوام الناس کو اپنے ہی علاقوں میں روزگار کی فراہمی کے ذریعے بیروزگار ی کے مضمرات کا خاتمہ بھی کیا جاسکتا ہے جبکہ صنعت و ذراعت کے فروغ سے صنعتی و ذرعی پیداوارمیں اضافہ کرکے مہنگائی میں بھی کمی لائے جاسکتی ہے جس سے غربت کی شرح میں ازخود اضافہ ہوجائے گا اور لوگوں کا معیار زندگی بلند ہوگا ۔ یہی نہیں بلکہ مقامی حکومتوں کے قیام سے عوام الناس کو بنیادی و بلدیاتی سہولیات کی فراہمی اور ٹیکس اہداف کی س وفیصد وصولی بھی ممکن بنائی جاسکتی ہے اور پیش کردہ شرح کے مطابق 40فیصد ٹیکسوں کا مقامی طور پر استعمال نہ صرف ڈویژنوں کی تیز رفتار ترقی کا باعث ہوگا بلکہ ایک دوسرے کے وسائل پر قبضے و استعمال کے تحفظات کا بھی خاتمہ کرے گا! |
|
|
پاکستان ایسا ہو جس کا ہر شہری مطمئن ‘ آسودہ ‘ خوشحال اور جذبہ حب الوطنی ‘ فرض شناسی و ایثار سے سرشار ہو |
|
اللہ رب العزت نے ”شب قدر “ کہلائی جانے
والی رحمتوں و نعمتوں کے حصول اور گناہوں سے مغفرت کی شب یعنی رمضان
المبارک کی27ویں شب کو ہندو سامراج اور فرنگی لٹیروں کی غلامی سے نجات
دلاکر ایک آزاد مملکت بنام ”پاکستان “ اسلئے عطا کی تھی کہ اہل اسلام و
ایمان ‘اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنے ایمان کو مزید راسخ و پختہ کرکے مذہبی
اقدار کے مطابق آسانی و سہولت سے زندگی گزارتے ہوئے اپنے اعمال و کردار کے
ذریعے دنیا کو یہ پیغام دے سکیں کہ اسلام امن و آشتی کامذہب ہے اور اس کے
پیروکار محض نماز و زکوٰة کے ہی پابند نہیں بلکہ علم و حکمت اور قوت و
صلاحیت کے حامل ہونے کے باعث دنیاکے ہر علم کے عالم اور ہر ہنر کے عامل بھی
ہیں اورہر جہت میں ترقی کی منازل طے کرکے دنیا کیلئے ترقی و سہولت کے اسباب
بھی پیدا کررہے ہیںجبکہ ر یاستِ پاکستان اپنے عوام کو مکمل مذہبی آزادی
دینے کے ساتھ ان کے مذہبی ‘ اخلاقی ‘ قانونی اور ریاستی و آئینی حقوق کا ہر
طریقے سے تحفظ کرتے ہوئے انہیں نہ صرف تمام بنیادی حقوق و سہولیات کی
فراہمی یقینی بنائے گی بلکہ پاکستان میں نبی کریم کے خطبہ حجة الوداع کی
اسلامی تعلیمات کے مطابق مساوات کا وہ معاشرہ قائم ہوگا جس میں کسی کوکوئی
فوقیت نہ ہوگی اور عدل و انصاف کی فراہمی اس ملک کے عوام میں باہمی محبت و
یگانگت کاباعث اور فروغ حب الوطنی کا سبب بنے گی!
مگرافسوس کہ ایسا نہیں ہوسکااور اسلام کے نام پر قائم ہونے والی مملکت
خداداد آج بھی اسلامی نظام حکومت ‘ اسلامی قوانین اور اسلامی اقدار و
اسلامی معاشرے کی اولین واہم خصوصیات مساوات ‘ انصاف اور عدل سے محروم ہے
جس کی وجہ سے ہمہ اقسام مسائل ‘ مصائب اور خطرات نے ملک و قوم کو جکڑ لیا
ہے اور ہمارا مستقبل ہمہ اقسام خطرات سے دوچار ہوچکا ہے جن سے ملک و قوم کو
محفوظ رکھنے کیلئے پاکستان کے آئین ‘ نظام حکومت اور انتظامی نظام میں
تبدیلی و اصلاح کے ذریعے پاکستان کو حقیقی معنوں میں ”اسلامی جمہوریہ “اور
فلاحی ریاست بنانے کی ضرورت ہے!....جہاں
٭....انصاف ‘ عدل اور مساوات کا معاشرہ قائم ہو اور کسی کو امارت‘ طاقت ‘
مرتبہ اور عہدے کی بنیاد پر کسی قسم کا کوئی استثنیٰ حاصل نہ ہو
٭....صنفی تضاد سے پاک معاشرہ ہو جہاں مردو عورت کیساتھ امتیازی سلوک روا
رکھنے کی بجائے دونوں ہی کو یکساں مواقع و سہولیات کی فراہمی کے ذریعے
دونوں کی صلاحیتوں سے قومی ترقی کی رفتار تیز کرتے ہوئے دونوں کو معاشی
خوشحالی و خود مختاری کے حصول کا حق دیا جائے۔
٭....ہر شہری کو یکساں حقوق و اختیارات حاصل ہوں اور ہر ایک کو آئین و
قانون کے دائرے میں تحریرو تقریر اور اپنی مرضی سے اپنی زندگی گزارنے اور
ہر ناحق کیخلاف نعرہ حق بلند کرنے کی مکمل آزادی و اختیار حاصل ہو !
٭....مملکت ہر ایک کو تعلیم ‘ علاج ‘ روزگار کی سہولیات اور صلاحیتوں کے
اظہار کے مواقع کی فراہمی کی پابند ہو!
٭.... دہشتگردی ‘ جرائم اور کرپشن سے پاک معاشرہ میں ہر شہری کو جان و مال
کا مکمل تحفظ حاصل ہو !
٭....ٹیکس کی ادائیگی اور آئین وقوانین کی پاسداری کیساتھ ہر فرد کو
کاروبار و تجارت کی مکمل آزادی ہو اور کوئی سیاسی ‘ مذہبی ‘ لسانی جماعت یا
مقتدر شخصیت اس کے کاروبار و تجارت میں مداخلت یا اس سے بھتہ و چندہ وصولی
کی مجاز نہ ہو !
٭....ریاست ہر فرد کی ضروریات کی تکمیل کی پابند ہو اور ہر ایک کو اس کی
صلاحیتوں ‘ تعلیم ‘ ہنر ‘ جسمانی ساخت اور طاقت کے مطابق روزگار کی فراہمی
کی پابند ہو جبکہ معذوروں کو بھی ان کی اہلیت کے مطابق ملازمتوں کی فراہمی
یقینی ہو اور جو ملازمت کے اہل نہ ہو انہیں سرکاری سطح پر معذور الاؤنس
فراہم کیا جائے جبکہ بے سہاروں ‘ یتیموں ‘ بیواؤں اور لاوارثوں کی کفالت کی
ذمہ داری بھی ریاست احسن طریقے سے نبھائے ۔
٭....انصاف کا بول بالا ہو اور عدالتیں بروقت ‘سستا اور سہل انصاف اس طرح
کریں کہ انصاف حقیقی معنوں میں ہوتا دکھائی دے !
٭....ہر شہری اردگرد کے ماحول اور اپنے حقوق و فرائض میں تناسب سے مکمل
مطمئن اور حب الوطنی ‘ فرض شناسی و جذبہ ایثار سے سرشار ہو !
پاکستان ایسا ہو جہاں ذمہ داری ہو ‘ فرض شناسی ہو ‘حب الوطنی ہو ‘ جذبہ
ایثار ہو ‘ ترقی ہو ‘ خوشحالی ہو ‘ شادمانی ہو اور مسکراہٹیں ہوں اور احساس
تحفظ کے ساتھ انصاف ‘ عدل اور مساوات ہو جہاں امیر اور غریب میں تفریق نہ
کی جائے اور امیر کا پیسہ اور غریب کی محنت یکجا ہوکرملک و قوم کی ترقی میں
یکساں کردار ادا کریں اور یکساں ثمرات و فیض کی حقدار پائیں!
پاکستانی آئین ‘ طرز حکمرانی ‘ سیاست ‘ انتظامی امور اور سماجی و معاشی
نظام کے عمیق مطالعہ کے مطابق پاکستان کے تقریباً ہر طبقے اور دانشور نے یہ
بات محسوس کی ہے کہ ریاستی دستور عصری تقاضوں سے ہم آہنگ اورنہ قومی و
عوامی ضروریات پوری کرتے ہوئے ملکی و عوامی مفادات کے تحفظ میں مکمل طور پر
کامیاب دکھائی دے رہا ہے جبکہ نظریہ ضرورت اور سیاسی قوت کی بنیاد پر وقتاً
فوقتاً کی جانے والی مفاداتی ترامیم نے ریاستی دستور کو اس کی روح سے محروم
کرکے استحصالی طبقات اور عوام دشمنوں کیلئے ایک ایسا ہتھیار بنادیا ہے جو
طاقتور اقلیت کیلئے اکثریت کے استحصال و جبر میں معاون ثابت ہورہا ہے اسلئے
اولاً آئین پاکستان کو قومی و عوامی مفاد کا ضامن بنانا ضروری ہے اور دوئم
جمہوریت کے نام پر مطلق العنان شہنشاہیت سے ملک و قوم کو نجات دلانے اور
جمہوریت کے حقیقی ثمرات عوام تک پہنچانے کیلئے اختیارات کی مرکزیت کا خاتمہ
کرکے اختیارات کی نچلی سے نچلی سطح تک منتقلی کے ذریعے عوام کو با اختیار
بنانا اور منتخب نمائندوں کا حق احتساب دینا ناگزیر ہے ۔
بلدیاتی حلقے جمہوریت کی نرسری کہلاتے ہیں اسلئے با اختیار بلدیاتی نظام سے
محروم کوئی بھی حکومت جمہوریت نہیں کہلاسکتی ہے اور نہ ہی ایسی لولی لنگڑی
جمہوریت عوامی مسائل کے حل اور عوامی خدمت میں کامیاب ہوسکتی ہے اسلئے
جمہوریت کی پائیداری کیلئے ضروری ہے کہ آئینی میں ترامیم کے ذریعے تمام تر
آئینی اختیارات کیساتھ یکساں اختیارات کی حامل خود مختار ڈویژنل کونسلوں کے
ذریعے ملک میں مقامی خود مختاری نافذ کی جائے۔پرویز مشرف نے اپنے دور
اقتدار میں اس سمت توجہ دیتے ہوئے مقامی حکومتوں کا نظام قائم کیا تھا گوکہ
مشرف کی قائم کردہ مقامی حکومتیں مکمل اختیارات سے محروم تھیں مگر اس کے
باجود ان حکومتوں نے عوامی مسائل کے حل کیلئے جو سنجیدہ اقدامات کئے اور
عوام کی جو خدمت کی وہ پاکستان کی تاریخ میں لازوال حیثیت رکھتی ہیں مگر
افسوس کہ مشرف نے نہ تو ان مقامی حکومتوں کو مکمل اختیارات کے ساتھ خود
مختار بنانے کی کوشش کی اور نہ ہی ان کے مستقبل کو محفوظ بنانے کیلئے انہیں
آئینی تحفظ دیا اسلئے مشرف کے رخصت ہوتے ہی مفاد پرست سیاستدانوں نے ان
مقامی حکومتوں پر الزامات کے ذریعے انہیں بدنام کرکے مقامی حکومتوں کے نظام
کا خاتمہ کردیا جس کے بعد ملک کا کوئی کونہ ‘ قریہ ‘ گوشہ ‘ گاؤں یا شہر
ایسا نہیں ہے جو مسائل اور بحرانوں سے دوچار نہ ہواسلئے ضروری ہے کہ صرف
مقامی حکومتیں ہی قائم نہیں کی جائیں بلکہ ڈویژن کی سطح پر قائم ان مقامی
حکومتوں کو مکمل اختیارات کی فراہمی کے ذریعے مقامی خود مختاری کی آئینی
فراہمی بھی یقینی بنائی جائے !
قومی پالیسی کے تحت با اختیار و خود مختار ڈویژنل کونسلوں پر مشتمل مقامی
حکومتوں کے ذریعے مقامی خود مختاری رائج کرکے عوامی سہولت کیلئے انتظام اور
حکومتی اختیارات و فرائض کو تین درجات میں بانٹا جائے!
٭.... قومی حکومت کے پاس دفاع ‘ خارجہ ‘ کرنسی اور کمیونیکیشن کی ذمہ
داریاں ہوں تاکہ وہ زیادہ یکسوئی و انہماک سے بیرونی دنیا کے ساتھ تعلقات
کی بہتری اور قومی مفادات کے حصول کےساتھ محفوظ مستقبل کی ضمانت خارجہ
پالیسی کی تشکیل اور اس پر عملدرآمد بناکر پاکستان کے عالمی وقار و اعتماد
کو مستحکم و مضبوط بنانے میں کامیاب ہوسکے اور بہترین دفاعی پالیسی و
پلاننگ کے ذریعے پاکستان کو ناقابل تسخیراسلامی ریاست بنانے کا خواب بھی
شرمندہ تعبیر ہو جبکہ قومی حکومت صوبوں کے مابین شاہراہوں کی تعمیر ‘
مواصلاتی نظام کی بہتری اور کرنسی کے معاملات کی دیکھ بھال کے ساتھ صوبوں
کے درمیان تعلقات کی بہتری کا فریضہ بھی انجام دیتے ہوئے لسانیت و تعصبات
کے خاتمہ میں اپنا کردار ادا کرے اور تمام صوبوں کی عوام کے درمیان ہمہ
اقسام اختلافات وتحفظات کا خاتمہ کرتے ہوئے پاکستانیت اور حب الوطنی کوفروغ
دینے کا کارنامہ انجام دینے میں بھی کامیاب ہوسکے ۔
٭.... صوبائی حکومت کا کام صوبائی محکموں کی نگرانی اور انہیں یکساں طور پر
تمام ڈویژنوں کے مفادات کا نگہبان بنانے کے ساتھ تمام ڈویژنوں کے درمیان
ذرائع نقل و حمل کو یقینی بنانا ‘ رابطوں کو موثر کرنا ‘ تعلقات کو فروغ
دینا اور پسماندہ ڈویژنوں کی ترقی و خوشحالی کےلئے ان کی مدد و معاونت کرنا
ہو تاکہ پسماندہ ڈویژنوں میں بھی ترقی کی رفتار ضرورت وقت کے مطابق ہوسکے ۔
٭....مقامی حکومتیں یا ڈویژنل کونسلیں قومی پالیسی کے تحت روزگار کی فراہمی
‘ صنعتی و ذرعی پیداوار میں اضافے ‘ توانائی بحران کے خاتمے کیلئے اقدامات
‘ تعلیم و صحت کی مفت سہولیات کی فراہمی ‘ گراں فروشی و مہنگائی کے خاتمے ‘
امن و امان کے قیام ‘ جرائم کے خاتمے ‘ قانون کی پاسداری یقینی بنانے ‘
تعلیم یافتہ و تربیت یافتہ افرادی قوت پیدا کرنے کیلئے تعلیمی‘ تربیتی اور
تحقیقاتی ادارے قائم کرنے ‘ عوام الناس کو صحتمند رہائشی ماحول اور بنیادی
و بلدیاتی سہولیات کی فراہمی کیلئے ذمہ دار اور پالیسی سازی کیلئے خود
مختار ہوں !
٭ٹیکس نظام اور ٹیکسوں کی وصولی کی ذمہ داری ........ ملکی نظام کو چلانے
کیلئے سرمایہ بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے جس کیلئے حکومت ٹیکس لگاتی ہے
اور ان کی ٹیکسوں کی وصولی سے حاصل ہونے والے سرمائے سے عنان مملکت چلانے
کیساتھ عوامی ترقی و خوشحالی کے اقدامات کئے جاتے ہیں اسلئے پاکستان کے
ٹیکس نظام کو سہل بناتے ہوئے صنعت ‘ تجارت ‘ ذراعت ‘ سروسز اور خدمات سمیت
ہر ایک شعبہ پر ون ونڈو ٹیکس نافذ کرتے ہوئے خالص منافع پر 20%فیصد ٹیکس
عائد کیا جائے باقی دیگر تمام اقسام کے ٹیکسز کا خاتمہ کردیا جائے جبکہ
جبکہ محصولات کی وصولی کی ذمہ داری ڈویژنل کونسلوں یا مقامی حکومتوں کے
سپرد کی جائے تاکہ وہ قومی پالیسی کے تحت ٹیکس کی سو فیصد وصولی یقینی
بنائیںاور وصول شدہ ٹیکسوں کا چالیس فیصد (40%) ڈویژن اپنے پاس رکھ کر ‘
بیس فیصد (20%) صوبے کو دے ‘بیس فیصد(20%) مرکز کو دیا جائے ‘ دس فیصد(10%)
دفاعی بجٹ کے طور پر افواج پاکستان کے سپرد کیا جائے جبکہ باقیماندہ دس
فیصد(10%) وسائل سے محروم ڈویژنوں کی ترقی و خوشحالی کیلئے مختص کیا جائے۔
٭.... مقامی حکومتیں اپنے40% فیصد حصے کو اپنے ذمہ داریوں کی ادائیگی کیلئے
استعمال کرتے ہوئے عوام کی زندگی کو خوشحال بنائیں کیونکہ جب عوام کی جانب
سے ادا کئے جانے والے ٹیکسوں کا 40 فیصد حصہ مقامی طور پر ان کی فلاح و
ترقی کےلئے خرچ ہوگا تو عوام میں ٹیکس کی ادائیگی کا جذبہ بھی پیدا ہوگا جس
سے خوشحالی کے ایک نئے باب کا آغاز ہوگا ۔
اس کے علاوہ ڈویژن کی حدود میں موجود تمام معدنی پیداوارسے حاصل ہونے والی
آمدنی بھی ڈویژن ‘ صوبے اور مرکز کے درمیان مذکورہ بالا فارمولے کے تحت
تقسیم ہوگی ۔اس طرح سے کونسل جو کہ اپنے معاملات میں خود ذمہ دار ہے وہ
صوبائی یا مرکزی مداخلت کے بغیر اپنی ذمہ داریاںاحسن طریقے سے پوری کرتے
ہوئے اپنی ڈویژن کے عوام کی ترقی و خوشحالی میں کلیدی و مثبت کردارا کریں
گے جس سے مایوسیاں کا خاتمہ اور حب الوطنی کو فروغ حاصل ہوگا جو دہشتگردی
کی بنیادی وجوہات و اسباب کا خاتمہ کرےگا ۔
٭امن و امان کے قیام ‘ جرائم کے خاتمے اور قانون کی پاسداری یقینی بنانے
کیلئے مقامی پولیس کا محکمہ قائم کیا جائے جس کی تربیت فوج کی نگرانی میں
ہو اور مقامی پولیس میں صرف مقامی افراد کو ہی بھرتی کیا جائے تاکہ ان کا
عوام سے رابطہ موثر سے موثر ترین ہو اور انہیں جرائم پر قابو پانے میں
آسانی ہوجبکہ عوام الناس کو کسی بھی قسم کی شکایت کی صورت میں آسانی سے اس
کا تدارک ممکن ہوسکے جبکہ علاقہ ایس ایچ اویونین کونسل اور مقامی پولیس کا
چیف ڈویژنل کونسل کو جوابدہ ہو۔
٭....مقامی شہریوں کو مکمل تحفظ کی فراہمی ‘ امن و امان کے قیام ‘ تعلےم کے
فروغ اور پیداوار میں اضافے کےلئے تمام انتظامی شعبوں میں مقامی افراد کو
روزگار فراہم کےا جائے تاکہ انتظامی امور میں جوابدہی کو آسان اور یقینی
بنایا جاسکے ۔انتظامی شعبوں میں پولیس ‘ تعلیمی ادارے ‘چھوٹی بڑی صنعتیں
ڈویژنل کونسل کے ماتحت ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اپنے علاقائی کونسلرز کو
جوابدہ ہوں اور ان اداروں میں مقامی افراد کو ہی روزگار فراہم کےا جائے گا
تاکہ مقامی ماحول کے تحت جوابدہی کے عمل کو موثر ترین بنانے کے ساتھ ساتھ
عوام کو روزگار کے سلسلے میں ٹرانسپورٹ و دیگراضافی اخراجات سے بچایا جاسکے
۔
٭....مقامی حکومتوں ‘ صوبائی حکومتوں اور قومی حکومت کے تحت ہونے والے
ترقیاتی کاموں کے معیار کو بین الاقوامی معیار کے مطابق بنانے اور تمام
منصوبوں ‘ معاملات اور اخراجات کو کرپشن و خرد برد سے بچانے کیلئے تینوں
سطح پر ماہرین پر مشتمل ”کوالٹی کنٹرول کمیٹی “ اور ”اینٹی کرپشن کمیٹی “
بنائی جائے جبکہ قومی حکومتوں کی نگراں کوالٹی کنٹرول کمیٹی اور اینٹی
کرپشن کمیٹی صوبائی حکومت کو صوبائی حکومت پر نگراں قومی حکومت کو اور قومی
حکومت پر نگراں کوالٹی کنٹرول کمیٹی و اینٹی کرپشن کمیٹیاںقومی سلامتی
کونسل کو جوابدہ ہوں تاکہ وطن عزیز سے کرپشن کا بھی خاتمہ ہواور غیر معیاری
کاموں کے مضمرات سے بھی محفوظ رہا جاسکے ۔
٭قومی سلامتی کونسل ....وطن عزیز کو اندرونی و بیرونی خطرات سے محفوظ بنانے
اور ہمہ اقسام شورشوں و تحفظات کے خاتمے کیساتھ قومی یکجہتی و یگانگت کے
تحفظ و آمریت کے خطرات و خدشات کے خاتمے کیلئے صدر ‘ وزیراعظم ‘ تینوں مسلح
افواج کے سربراہان ‘ قومی احتساب بیوروکے سربراہ ‘ تمام صوبائی وزرائے
اعلیٰ‘قومی وصوبائی حکومتوں کے اپوزیشن لیڈر اور تمام مقامی حکومتوں کی
یکساں نمائندگی پر مشتمل قومی سلامتی کونسل قائم کی جائے جو قومی حکومت کی
رہنمائی و نگرانی کا فریضہ انجام دینے کیساتھ تمام معاملات کو قومی مفادات
کے تابع بنانے اور وطن عزیز کو ہرقسم کے انتشار و خطرات سے محفوظ بنانے کی
پالیسی سازی کی ذمہ دار جبکہ قومی سلامتی کونسل کے سربراہی بنچ میں آرمی
چیف ‘ وزیراعظم اور لیڈر آف اپوزیشن کو یکساں حیثیت حاصل ہو ۔
٭قومی اور صوبائی سیٹوں کے حصول کے مطابق سینیٹ کی سیٹوں کی بندربانٹ سیاسی
جماعتوں کی جانب سے عوام پر سب سے بڑا ظلم ہے اسلئے قومی اسمبلی کی وضع
کردہ پالیسیوں کا جائزہ لےکر اس میں مشاورت کی فراہمی کےلئے تمام شعبہ ہائے
زندگی کے ماہرین پر مشتمل سینیٹ تشکےل دیا جائے اور سینیٹ میں بھی ہر شعبہ
زندگی میں ہرڈویژنل کونسل کی مساوی نمائندگی کو یقینی بنایا جائے جبکہ
سینیٹ کے ممبران کا انتخاب اپنے اپنے شعبے میں تمام متعلقہ شعبوں سے تعلق
رکھنے والے افراد خودکریں جس کےلئے ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد
کی پروفیشنل رجسٹریشن کو یقینی بنایا جائے جبکہ اس بات کو بھی آئینی طور پر
یقینی بنایا جائے کہ ملکی سلامتی ‘ تعمیرو ترقی ‘ قومی پالیسیوں سے متعلق
فیصلوں پر عملدرآمد سے قبل قومی اسمبلی سینیٹ کی ماہرانہ رائے کے حصول
کےلئے سینیٹ سے رجوع کرے اور سینیٹ کی جانب سے موصول ہونے والی رائے اور
تجاویز کو قومی اسمبلی میں زیر بحث لاکر نقائص اورخامیوں کو دور کرنے کی
کوشش کی جائے لےکن قومی اسمبلی سینیٹ کے فیصلوں کی پابندنہ ہو اور نہ ہی
سینیٹ کو کسی بھی فیصلے کا اختیارحاصل ہو‘اس کا کام صرف قومی اسمبلی کو
اپنی ماہرانہ رائے فراہم کرنا ہو جبکہ سینیٹ میں شامل مذہبی اسکالرز اور
علمائے دین کا کام اس بات کی نگرانی کرنا ہوکہ وطن عزیز میں اللہ کے قانون
کی نفی کرنے والا کوئی قانون تشکےل نہ دیا جا سکے جبکہ سینیٹ مذہبی ونگ کی
جانب سے کسی بھی قانون سازی کی مخالفت کی صورت میں قومی اسمبلی کےلئے یہ
ضروری ہو کہ وہ ہر قسم کی قانون سازی کرنے سے قبل اسے یقینی طور پر سینیٹ
کی مذہبی کمیٹی کےلئے قابل قبول بنائے ۔
عوام الناس کو انصاف کی فراہمی اور عدالتوں میں چلنے والے کیسز کا بوجھ کم
کرنے کیلئے ضروری ہے کہ عدالتوں کی ٹائمنگ صبح9تا شام 5کی جائے اور عدالتوں
کو 90روز میں ہر کیس کا فیصلہ کرنے کا پابند کیا جائے جبکہ سیشن کورٹ سے
کیس ہارنے والے کو 90روز میں ہائی کورٹ میں اپیل کا حق ہو اور ہائی کورٹ
دائر کیس کا فیصلہ 90روز میں کرنے کا پابند ہو جبکہ ہائی کورٹ کے فیصلے پرت
عدم اطمینان کی صورت 90روز میں سپریم کورٹ سے رجوع کا حق اور سپریم کورٹ
بھی90روز میں کیس کا فیصلہ کردے تاکہ عوام کو بر وقت انصاف کی فراہمی ممکن
ہو اور عدلیہ پر سے بھی کیسز کا بوجھ کم ہوسکے جبکہ کیسوں کی زیادتی کو
مدنظر رکھتے ہوئے ہر یونین کونسل کی حد میں عدالت قائم کی جائے تاکہ عوام
کیلئے انصاف کا حصول سستا اور سہل ثابت ہوسکے ۔
ہمیں توقع ہے کہ تین درجاتی ریاستی نظام یعنی قومی ‘ صوبائی اور مقامی
حکومتوں کے قیام کے ذریعے انتظامی نظام کو بہتر بناکر عوام الناس کو نہ صرف
بلدیاتی اور بنیادی سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جاسکتی ہے بلکہ توانائی
بحران کے خاتمے کیلئے جغرافیائی ‘ موسمی اور قدرتی ماحول کے مطابق اقدامات
کا حق مقامی حکومتوں کو دیکر اس بڑے مسئلے پربھی قابو پایا جاسکتا ہے اور
عوام الناس کو اپنے ہی علاقوں میں روزگار کی فراہمی کے ذریعے بیروزگار ی کے
مضمرات کا خاتمہ بھی کیا جاسکتا ہے جبکہ صنعت و ذراعت کے فروغ سے صنعتی و
ذرعی پیداوارمیں اضافہ کرکے مہنگائی میں بھی کمی لائے جاسکتی ہے جس سے غربت
کی شرح میں ازخود اضافہ ہوجائے گا اور لوگوں کا معیار زندگی بلند ہوگا ۔
یہی نہیں بلکہ مقامی حکومتوں کے قیام سے عوام الناس کو بنیادی و بلدیاتی
سہولیات کی فراہمی اور ٹیکس اہداف کی س وفیصد وصولی بھی ممکن بنائی جاسکتی
ہے اور پیش کردہ شرح کے مطابق 40فیصد ٹیکسوں کا مقامی طور پر استعمال نہ
صرف ڈویژنوں کی تیز رفتار ترقی کا باعث ہوگا بلکہ ایک دوسرے کے وسائل پر
قبضے و استعمال کے تحفظات کا بھی خاتمہ کرے گا اور ہر ڈویژن کونسل سے صوبے
کو ملنے والا 20فیصد اور مرکز کو ملنے والا 20فیصد صوبائی و مرکزی حکومتوں
کیلئے بڑے سرمائے کی فراہمی کا باعث بنے گا جبکہ ہر ڈویژن سے دفاع کیلئے
ملنے والا 10فیصد شیئر دفاع کو مضبوط اور فوج کو جدید جنگی و حربی وسائل کی
فراہمی کو یقینی بنانے میں معاون ثابت ہوگا جبکہ خوشحال ڈویژنوں کی کمائی
سے حاصل ہونے والا 10فیصد شیئر پسماندہ ڈویژنوں کی ترقی میں اہم کردار ادا
کرتے ہوئے پاکستان کے ہر ڈویژن کو بتدریج دوسرے ڈویژن کے نزدیک لانے اور
عوامی سہولیات کی فراہمی میں مساویت و یکسانیت کا باعث بنے گا !اسطرح
نفرتوں اور تعصبات کا خاتمہ بھی ہوگا اور دہشتگردی و بد امنی کے اسباب سے
نجات بھی ملے گی جبکہ اینٹی کرپشن کمیٹی ‘ کوالٹی کنٹرول کمیٹی ‘ قومی
سلامتی کونسل اور ٹیکنو کریٹ سینیٹ ایسے بہت سے عوامل کا خاتمہ ہوجائے گا
جو ملک و قوم کیلئے مسائل ‘ مصائب اور مستقبل کیلئے خطرات و خدشات پیدا
کررہے ہیں ! |
|