پاکستان میں ہمیشہ سے حکمرانوں کا سب سے
بڑا مسئلہ یہ رہا ہے کہ انھوں نے اپنے آپ کو عام عوام سے بالکل مختلف منفرد
اور بالا تر سمجھا ہے ۔ اس مقصد کے لئے وہ عوام سے فاصلہ رکھنے کی پالیسی
پر کار بند رہتے ہیں۔وہ لوگ جو ان حکمرانوں کو ووٹ دیتے ہیں ان ووٹرز کی
حیثیت ان حاکموں کی نظر میں کیڑے مکوڑوں سے زیادہ نہیں ہوتی ۔عوام سے فاصلہ
رکھنے اور وی وی آئی پی پروٹول کول کے ساتھ ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف
جانے کی فکر نے ہی وی آئی پی اور وی وی آئی پی کلچر کو جنم دیا ہے۔ اپنے آپ
کو بالائی دنیا کی مخلوق سمجھنے والے اس کلچر میں وی آئی پی اور وی وی آئی
پی کے نام سے دو طبقات موجود ہیں۔ بد قسمتی سے ہمارے ملک میں جو سوچنے کا
مزاج اور انداز ہے اس کے مطابق اگر کوئی عام آدمی ہے اور اسے کسی بھی طریقے
اسے کوئی ایسا اعلی عہدہ یا مقام مل جاتا ہے کہ جس کی وجہ سے اس کی حیثیت
نمایاں ہو جاتی ہے تو اس کی اولین کوشش یہی ہوتی ہے کہ اسے اب ایک عام آدمی
کی طرح ٹریٹ نہ کیا جائے بلکہ اسے ہر جگہ وی آئی پی کے طور پر اہمیت دی
جائے۔ گویا عام آدمی جو عام حالات میں وی آئی پی کلچر کے خلاف نعرے لگا رہا
ہوتا ہے ، موقع ملتے ہی وہ وی آئی پی کلچر کی مراعات کا خواہشمند ہو جاتا
ہے اور کوشش کرتا ہے کہ اسے بھی اب ایک عام شہری کی طرح ٹریٹ نہ کیا جائے
بلکہ ہر جگہ اسے خصوصی پوٹوکول کے ساتھ اہمیت دی جائے۔دوسری طرف جو لوگ
پہلے ہی سے وی آئی پی کے طور پر ٹریٹ کئے جاتے ہیں وہ یہ کوشش کرتے نظر آتے
ہیں کہ کسی بھی طرح ان کا شمار وی وی آئی پیز میں ہونے لگے اور انھیں بھی
وہی مراعات ، پروٹوکول اور طمطراق حاصل ہو جائے کہ جو ہمارے ملک میں وی وی
آئی کو حاصل ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر انسان میں دوسرے لوگوں کے
مقابلے میں اپنے آپ کو نمایاں کرنے اور خصوصی اہمیت حاصل کرنے کی خواہش کسی
نہ کسی شکل میں موجود ہوتی ہے لیکن اگر اس کی اس خواہش کی تکمیل میں کسی کا
استحصال ہو رہا ہو، کسی کو اذیت اور تکلیف پہنچ رہی ہو یا کسی کی جائز
اہمیت کم ہو رہی ہو یا اس کی وجہ سے کسی دوسرے کی جیب پر مالی بوجھ پڑ رہا
ہو تو پھر یہاں سے معاشرتی برائیوں کاآغاز ہوتا ہے۔ ہمارا حکمران طبقہ
ہمیشہ سے وی وی آئی پیز میں شمار کیا جاتا ہے۔ اور اس وجہ سے روزانہ ہزاروں
اور بعض اوقات لاکھوں افراد کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ملک اور
تمام صوبوں کی سڑکوں پر یہ ایک معمول کی بات ہے کہ وی وی آئی پیز کی نقل
حرکت کی وجہ سے عام لوگوں کو بعض اوقات آدھے آدھے گھنٹے، بعض اوقات ایک ایک
گھنٹے سگنل کھلنے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ بسا اوقات اس رش میں کچھ مریض
بھی ہوتے ہیں کہ جو وقت پر ہسپتال نہ پہنچنے کی وجہ سے جان سے چلے جاتے ہیں،
یہ تو آئے روز کی بات ہے کہ وی وی آئی پیز موومنٹ کی وجہ سے عوام اپنے
دفاتر ، طالب علم اپنی اسکول ، کالج یا یونیورسٹی وقت پر نہیں پہنچ پاتے،
اس کے علاوہ وی وی آئی پیز کی موومنٹ کی وجہ سے لوگوں کو مقررہ وقت پر
مقررہ مقام پر نہ پہنچنے کی وجہ سے مالی طور پر نقصان ہوتا ہے لیکن جو وی
وی آئی پیز ان سڑکوں سے گز ر رہے ہوتے ہیں انھیں عوام کی اس دشواری و اذیت
کا ذرا احسا س نہیں ہوتا۔ ان ظالموں کو یہ تک احساس نہیں ہوتا ہے کہ وی وی
آئی پی پروٹوکول کی وجہ سے کسی کی جان چلی گئی ہے۔ انھیں عوام کی مالی
نقصان کا بھی احساس نہ تو ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی ان میں یہ احساس کو جگانے
کی کوشش کرتا ہے۔ ایسی صورت میں اس حکمران طبقے سے کون سی بہتری کی امید کی
جاسکتی ہے؟ اب ذرا یہ بھی ملاحظہ فرمائیے کہ سندھ کے سابق وزیر اعلی اتوار
کو کراچی سے خیر پور کے لئے روانہ ہوئے تو ان کے پروٹوکول میں 40سے زائد
گاڑیاں تھیں جس میں سے 22کے قریب پولیس موبائیلیں تھیں۔ 40سے زائد گاڑیوں
کا یہ قافلہ ایک سابق وزیراعلی کو کراچی سے خیر پور تک لے جا رہا تھا ۔
فافلے میں زیادہ تر لینڈ کروزرز اور پولیس موبائلیں تھیں۔ کراچی سے خیر پور
تک ہر سگنل اور ہر چوراہے پر عوام کو انتظار کی اسی اذیت کا سامنا کرنا پڑا
کہ جو عام طور پر وی وی آئی پی موومنٹ کے دوران لوگوں کو کرنا پڑتا ہے۔
صوبے کے عوام نے ہر چوک، موڑ اور سگنل پر عوام نے کم از کم دس سے پندرہ منٹ
انتظار کیا اور پہلے سابق وزیراعلی سید قائم علی شاہ کے چالیس گاڑیوں کے
قافلے کوگزر نے کا موقع دیا گیا۔ دوسری طرف یہ بات بھی اہم ہے کہ کراچی سے
خیر پور تک کا فاصلہ 550کلومیٹر سے زائد ہے۔ ایک لینڈ کروزر میں کراچی سے
خیرپور جانے میں کم از کم 5 سے 6ہزار روپے کا پیٹرول یا ڈیزل خرچ ہوتا ہے ۔
لہذ ا وی وی آئی پی کلچر کی وجہ سے سابق وزیراعلی سندھ قائم علی شاہ کے
چایس گاڑیوں کے قافلے کو خیر پور تک پہنچنے میں تقریباً دولاکھ چالیس ہزار
روپے خرچ ہوئے جبکہ جو گاڑی گئی وہ واپس بھی آئے گی تو مجموعی طور پر ایک
شخص کے جانے آنے یا اسے صرف چھوڑ کے آنے پر تقریباً 4لاکھ 80ہزار روپے خرچ
ہوئے۔ کیا صوبہ سندھ کی مالی حالت اور ملک کی معیشت کسی ایک آدمی کے سفر پر
ایک دن میں تقریباً پانچ لاکھ کا خرچ برداشت کر سکتی ہے؟ دکھ کی بات یہ ہے
کہ یہ کسی ایک دن کی داستان نہیں اور یہ معاملہ کسی ایک شخص تک بھی محدود
نہیں ۔ جو بھی حکومت میں ہے ، چاہے وہ وزیر ہو، مشیر ہو یا معاون خصوصی یا
ان سب کے رشتہ دار،سب اس وی وی آئی پی کلچر کے پورے مزے لیتے ہیں۔ سندھ
سمیت پورے پاکستا ن میں وی وی آئی پیز کے ساتھ اتنے بڑے بڑے گاڑیوں کے
قافلے کی نقل حرکت معمول کی بات ہے کہ جہاں قافلے میں شامل تمام گاڑیوں کے
پیٹرول، سی این جی اور ڈیزل کا خرچہ سرکاری سطح پر اٹھایا جارہا ہوتا ہے۔
کیا یہ ایک غریب صوبے یا ملک کے حکمرونوں کو زیب دیتا ہے ؟ سندھ حکومت کا
تو دعوی بھی یہ ہے کہ ان کی پارٹی کی حکومت عوام کی حکومت ہے؟ قائم علی شاہ
صاحب اب تو آپ کی رسی بھی جل چکی ہے بلکہ جلا دی گئی ہے لیکن اب تک رسی کے
بل کیوں نہیں گئے اور اس رسی کے پیچ خم کیوں ختم نہیں ہو پا رہے ، یہ سوچنے
کی بات ہے؟ |