وقت گزرتا رہا جگہیں اور مناظر بدلتے رہے
امن و امان قصہ ماضی ہوا تو دہشت اور خوف نے انسانی اخلاقی رویے، معاشرتی
اور معاشی اصول اور ریاستی قوانین ہی بدل دیے ۔ ہر انسان دوسرے انسان کو شک
کی نظر سے دیکھنے لگا تو طاقتور اقوام نے کمزور قوموں پر من مانے قوانین کا
نفاذ کیا اور اُن کی آزادی اور عزت چھین لی۔ چھوٹے اور معاشی لحاظ سے کمزور
ممالک کے حکمرانوں ، سیاستدانوں ، دانشوروں ، صحافیوں اور میڈیا ہاؤسز کے
مالکان نے ہی نہیں بلکہ مذہبی اور دینی سکالروں نے بھی ملک دشمنی ، قوم
فروشی اور دینی بیزاری کا کھل کر مظاہر کیا اور طاقتور اقوام اور حکمرانوں
کے سامنے سر تسلیم خم کیا ۔
اگر کسی کمزور اور ناتواں نے قومی وقار ، ملکی مفاد ، دین اسلام اور افواج
پاکستان کی بات کی تو نام نہاد دانشوروں اور صحافیوں کے مخصوص ٹولے نے
انہیں غیرت بریگیڈکا نام دیکر بے غیرتی کا عملی مظاہرہ کیا اور مال کمایا ۔
سیاست اور صحافت کے کاروبار نے دیگر صنعتوں پر غلبہ حاصل کر لیا چونکہ
عالمی منڈی میں سب سے زیادہ نفع بخش کاروبار یہی ہے۔ نظریہ پاکستان ، افواج
پاکستان ، اسلام اور آئی ایس آئی کے خلاف لکھنے اور بولنے والے صحافیوں ،
سیاستدانوں اوردانشوروں کی عالمی سطح پر پذیرائی ہوتی ہے اور دیکھتے ہی
دیکھتے ان کا طرز زندگی بدل جاتا ہے۔
سبط حسن اپنی تحریر ماضی کے مزار میں لکھتے ہیں کہ عراق کی ایک ریاست اریک
کے حکمران تو ھیگل نے 220قبل مسیح میں عراق کے گزرے ہوئے بادشاہوں کی ایک
فہرست تیار کی جنکا زمانہ حکومت ہزاروں سال پر محیط تھا۔ یہ حکمران سو میر
، عکا ذ اور اسورتہذیبوں کے دور میں ہوئے جن کے آثار آج بھی محفوظ ہیں۔ ان
بادشاہوں کے نام اور القاب ان کے اوصاف پرمبنی تھے ۔ ایک حکمران کا نام یا
لقب کلبد ن یعنی کتا تھا چونکہ یہ حکمران انسانوں کے بجائے کتوں سے زیادہ
محبت کرنا تھا۔ دوسرے بادشاہ کا نام قلومو یعنی بھیڑ تھا جس کی وجہ اُس کی
سستی، کاہلی اور مخلوق خدا سے بیزاری تھی۔ اسی دور میں زدقاقین یعنی
بچھونام کا ایک بادشاہ بھی ہو گزار ہے جو انتہائی ظالم اور سفاک تھا۔
میں سبط حسن کی تحقیق کا قائل نہیں ہوں اور نہ ہی مغربی محققین کی تحریروں
میں عمیق سچائی دیکھتا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان تحریروں میں کسی
پیغمبریا الہامی کتاب کا سرے سے ذکر ہی نہیں ۔ یہ لوگ عظیم سیلاب یعنی
طوفان نوح ؑ کا سرسری ذکر تو کرتے ہیں مگر تفصیل اور تشریح سے گریزاں ہیں۔
بابلی تہذیب کا قرآن کریم بھی ذکر ہے مگر مغربی محققین اسپر خاموش ہیں۔ اسی
طرح قدیم تحریروں کے تراجم بھی ان لوگوں نے اپنی ضرورت کو مد نظر رکھ کر
کیے ہیں جس میں کسی الہامی کتاب ، الہی قوانین اور انسانی روایات کا کوئی
ذکر نہیں ۔ سبط حسن کی ساری تحریر یں اسی انداز میں لکھی گئی ہیں جن میں
دلچسپی کا مواد بہر حال موجود ہے۔ سبط حسن کی مذکورہ تحریر کا خیال اپنے
حکمرانوں ، سیاستدانوں ، صحافیوں اور دانشوروں کے کردار ، خیالات اور اوصاف
کی وجہ سے آیا۔ تاریخ انہیں بھی تو غیر ملکی قوتوں کے آلہ کار ، چایئنہ
کٹنک ، دہشت گردوں کی معاونت ، مافیا کی سرپرستی ، کرپشن ، غیر ملکوں میں
اثاثوں کی منتقلی ، سوئس اکاؤنٹ ، پانامہ پیپر ، وکی لیکس ، عوام کش حکومتی
پالیسیوں ، این آراو ، میثاق جمہوریت ، قومی غیرت اور ملکی وقار پر سود ے
بازی ، ذاتی مفادات کی حفاظت اور اقربا پروری جیسے جرائم میں ملوث مجرموں
کے طور پر یاد کرے گی۔
زرداری اور نوازشریف کے گھرانوں کا تکبر ، عوام کش پالیسیوں ، عیش و عشرت
کی زندگی اُن کے حامیوں کے مظالم اور اُن کے وکیلوں ، ہمدرد افسروں ،
صحافیوں ، سیاستدانوں اور مفاد پرست منافقوں کی چالیں دیکھ سورۃ القصص میں
بیان کردہ قارون کا واقع یاد آجاتا ہے ۔ کچھ عرصہ پہلے کسی صحافی نے لکھا
تھا کہ اگر زرداری اور شریف خاندان ایک کروڑ ڈالر مہا نا خرچ کریں تو ان کی
دولت سو سال تک بھی خرچ نہ ہو پائے گی ۔ ساری دنیا اور سارا پاکستان جانتا
ہے کہ دونوں گھرانوں نے یہ دولت کسطرح کمائی اور کیسے بیرون ملک منتقل کی
مگر نہ دنیا کو اس پر شرمندگی ہے اورنہ پاکستانیوں میں اتنی جرات ہے کہ وہ
ان لیٹروں سے اس دولت کا حساب لیں۔
دنیا اس بات پر خوش ہے کہ واحد ایٹمی مسلمان ریاست معاشی تباہی کے دھانے پر
ہے اور اس ریاست کا ہر فرد غیر ملکی مالیاتی اداروں کا مقروض ہے ۔ ان
مالیاتی اداروں کی منصوبہ بندی میں پاکستان دشمن غیر ملکی اداروں اور
ایجنسیوں کے ذہن کار فرما ہیں جنہیں پاکستانی حکمران سیاسی جماعتوں ، بیورو
کریسی ، اشرافیہ ، انتظامیہ اور نشریاتی اداروں کے مالکان سمیت کچھ کاروبار
ی اداروں کی مکمل تائیدو حمائیت حاصل ہے۔
موجودہ معاشی ، معاشرتی اور سیاسی حالات اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ بہت
جلد ملکی اور غیر ملکی قوتوں کا شیطانی ملاپ کسی بڑے حادثے کا موجب بن سکتا
ہے اور ریاست ایک باجگزارانہ حیثیت میں تبدیل ہو کر آزادی اور عزت سے محروم
ہونے والی ہے۔
خدانہ کرے اگر ایسا ہوا تو اس حادثے کی تمامتر ذمہ داری پاکستانی مسلح
افواج ، عدلیہ اور بے حس عوام پر ہوگی ۔ جہاں تک سیاستدانوں کا تعلق ہے تو
جنرل پرویز مشرف کے بعد وہ میثاق جمہوریت کے لیبادے میں جی بھر کر ملک لوٹ
رہے ہیں ۔
سورۃ القصص میں بیان ہے کہ قارون کا طرز زندگی دیکھ کر عام لوگ حسرت سے
کہتے تھے کہ کاش ان کے پاس بھی ایسے ہی محلات ، باغات ، خزانے ، غلام ،
کنیزیں اور دیگر مال و دولت کے انبار ہوتے جیسے قارون کے پاس ہیں۔ تفسیروں
میں لکھا گیا ہے کہ قارون حضرت موسیٰؑ اور حضرت ہارون ؑ کا چچیرا بھائی اور
عام آدمی تھا۔ قارون نے کسی طرح فرعون کے دربار تک رسائی حاصل کرلی اور پھر
ہر جائز اور ناجائز طریقے سے دولت جمع کرنے لگا۔ اسکا تعلق تو بنی اسرائیل
سے تھا مگر فرعون سے تعلق کی بنا پرو ہ اپنی ہی قوم کا خون چوستا اور مظالم
ڈھاتا تھا۔ قرآن کی تاریخ کے مطابق چند سالوں میں قارون کے پاس اسقدر دولت
جمع ہو گئی کہ اُس کے خزانوں کی چابیاں اُٹھانے کے لیے ایک بڑی جماعت درکار
تھی۔ جب وہ شاہانہ لباس پہن کر نکلتا تو سبک رفتار گھوڑوں کی کئی قطاریں
اُس کی سواری کے ہمراہ چلتیں ۔ وہ بڑے تکبر سے چلتا اور کہتا کہ یہ سب اُس
کی ذہانت اور عقل کی وجہ سے ہے۔
حضرت موسیٰ ؑ نے جب صدقہ ، عشر اور زکوٰۃ کے احکامات کا اعلان کیا تو قارون
نے حکم ربیّ کی مخالفت کی اور عوام کو یہ کہہ کر ورغلانے لگا کہ موسیٰ ؑ
اور ہارون ؑ معمولی لوگ ہیں جنہوں نے پیغمبری کی آڑ میں تمہارا عقیدہ چھین
لیا اور اب صدقہ اور زکوٰۃ کا حکم دیکر تمہارا مال ہڑ پنا چاہتے ہیں۔ اسپر
بھی بات نہ بنی تو ایک عورت کو لالچ دیکر حضرت موسیٰ ؑ کی کردار کشی کا
سامان پیدا کیا۔ پیغمبر خدا نے عورت کو قوم کے سامنے پیش کیا اور آخرت کا
خوف دلایا تو اُس نے اقرار کیا کہ یہ سب قارون کی چال تھی اور وہ اس کے
بہکاوے میں آگئی تھی۔
یہاں قارون کا واقع اختتام پذیر ہوتا ہے اور عذاب الہٰی کی ابتداء ہوتی ہے۔
بیان ہے کہ جب قارون اپنی ریاست سمیت زمین میں دھنسنے لگا تو وہی لوگ جو
حسرت سے کہتے تھے کہ کاش ہم بھی قارون جیسے ہوتے کہنے لگے اﷲ کا شکر ہے کہ
ہم قارون جیسے نہ تھے ورنہ آج اُس کے ساتھ عذاب میں پکڑے جاتے ۔
ذرا غور کریں تو آج ہم ایک ایسے ہی دور سے گزر رہے ہیں ۔ عام لوگوں کی زبان
پر ارب اورکھرب پتی پاکستانیوں کے قصے ہیں۔ نواز شریف ، زرداری ، ملک ریاض
، پرویز مشرف ، جنرل کیانی ، مشتاق مہناس ، فریال تالپور ، چوہدری مجید ،
ٹن وزیر، مولانا فضل الرحمن ، اسفند یارولی ،شیر پاؤ ، مجیب الرحمن شامی ،
حسن نثار، نجم سیٹھی اور دیگر کی دولت کے انبار دیکھ کرلوگ حسرت سے کہتے
ہیں کہ کاش وہ بھی ایسے ہی ہوتے ۔ سب جانتے ہیں کہ زرداری اور شریف خاندان
ماضی قریب میں عام لوگ تھے اوراُن کے خاندانی وسائل بھی محدود تھے۔ محنت
اور ایمانداری سے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ دنیا کے امیر ترین لوگوں میں شمار
ہو تے۔ دونوں خاندانوں نے ٹیکس چوری ، سیاسی بلیک میلنگ ، کرپشن ، کک بیک
اور اقتدار میں آکر غیر قانونی ہتھکنڈوں اور کمیشن مافیا کی سرپرستی سے
ملکی خزانہ لوٹا اور جمہوریت کی آڑ میں پاکستانی عوام کے گلے میں عالمی
مالیاتی اداروں کی غلامی کا طوق ڈال دیا۔
ملک ریاض کا شمار ان دونوں گھرانوں کی صف میں آتا ہے اور ہر شخص جانتا ہے
کہ ایم ای ایس کامعمولی ا ہلکار چند سالوں میں کھرب پتی کیسے بن گیا۔ یہ سب
جنرل پرویز مشرف ، فوجی جرنیلوں ، آصف علی زرداری ، گجرات کے چوہدریوں اور
شریف خاندان کی مشترکہ کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ ملک ریاض نے ٹیلی ویژن
پروگراموں میں کہا کہ وہ اپنی فائل کے نیچیے ٹائیر لگا دیتا ہے اور رشوت کے
زور پرو ہ اپنا کام نکالتا ہے ۔ ملک ریاض نے تو اپنی کرپشن کا اعتراف کر
لیا مگر وہ لوگ جو ملک ریاض سے رشوت لیکر غیر قانونی کام کرتے ہیں ان پر
حکومت اور عدلیہ نے کوئی توجہ نہ دی ۔ اگر ملک میں عدل و انصاف نامی کوئی
چیز ہوتی تو اگلے ہی روز چیف جسٹس آف پاکستان ملک ریاض کو عدالت میں طلب کر
لیتے اور تب تک جیل میں رکھتے جب تک اُن رشوت خور افسروں ، سیاستدانوں اور
حکمرانوں کے چہرے بے نقاب نہ ہوتے اور انہیں سزائیں نہ ملتیں۔
ملک ریاض نے پاکستان کے اندر ایک ملک آباد کر رکھا ہے جہاں پاکستان کا آئین
، قانون اور عدالتیں بے بس ہیں۔ بحریہ ٹاؤن کی کسی بھی ہاؤسنگ سکیم میں
ہونے والے جرائم اور بحریہ ٹاؤن انتظامیہ کی طرف سے مکینوں پر زیادیتوں کو
کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا ۔ کسی بھی ہاؤسنگ سکیم میں پولیس
سٹیشن نہیں اورنہ ہی میڈیا کو ان ہاؤسنگ سکیموں میں رونما ہونے والے حادثات
، جرائم اور جبر کی رپورٹ کرنے کی اجازت ہے۔ بحریہ ٹاؤن کے اپنے قوانین ہیں
اور ان ہاؤسنگ سکیموں کے مکین ملک ریاض کی رعایا ہیں۔
رحمان ملک اور ملک ریاض کی کہانی ایک جیسی ہے۔ رحمان ملک کے سر پر جنرل
ضیاء الحق نے دست شفقت رکھا اور پھر پیپلز پارٹی نے اُسے اپنا لیا ۔ رحمان
ملک کی داستان عظمت ذوالفقار مرزا کھل کر بیان کر چکے ہیں اور جنا ب خورشید
شاہ پر مبشر لقمان نے ثبوتوں سمیت کئی ٹیلی ویژن پر وگرام پیش کیے جس پر
چیف الیکشن کمشنر، چیف جسٹس آف پاکستان ، چیئرمین نیب اور حکومت پاکستان نے
کوئی توجہ نہ دی ۔
ملک ریاض ، رحمن ملک ، خورشید شاہ ، کیانی برادران ، چیئرمین احتساب بیورو
چوہدری قمرالزمان اور محترم نواز شریف کے ذاتی عملے میں شامل اہلکاروں کی
معمولی حیثیت سے اعلیٰ ترین منازل پر ترقیاں نوجوان نسل کے شوق اور خواہشات
کو اُبھارتی ہیں کہ وہ بھی آئین اور قا نون کی بھاڑ کو پھلانگ کر دنوں ،
مہینوں اور چند سالوں میں نہ صرف کروڑ پتی او ر ارب پتی بن جائیں بلکہ سینٹ
، قومی یا پھر صوبائی ا سمبلی کی ایک عدد سیٹ خرید کر سیاسی میدان میں بھی
مقام بنا لیں۔
نوجوان صحافیوں اور قلمکاروں کے لیے جناب حسن نثار، مجیب الرحمن شامی ،
نذیر ناجی، نجم سیٹھی ، کامران خان ، جاوید چوہدری، حامد میر، سلیم صافی ،
انصار عباسی ،ابصارعالم ، مشتاق مہناس ، امیتاز عالم اور دیگرارب پتی صحافی
، دانشور ، کالم نگار اور اینکر پرسن جادوگرانہ خوشحالی کی مثال ہیں ۔ بہت
سے نوجوان صحافی ان صاحبان علم و قلم کی راہ پر چل نکلے ہیں اور مختلف
سیاسی جماعتوں اور غیر ملکی اداروں سے وفاداری کا حلف لیکر پاکستان، اسلام
، افواج پاکستان ، آئی ایس آئی ، شہدائے اسلام، بانیان پاکستان ، تحریک
پاکستان ، ملت اسلامیہ اور اُمت رسول ﷺ پر اپنے اپنے انداز اور مینڈیٹ کے
مطابق یلغار کرر ہے ہیں۔
مشتاق منہاس نوجوان صحافیوں کے لیے تازہ ترین اور تیز رفتار ترقی کی مثال
ہے۔ مشتاق منہاس نے جماعت اسلامی کے صدقہ وخیرات پر تعلیم حاصل کی اور پھر
جماعت اسلامی ہی کی سفارش پربحیثیت رپورٹر کام شروع کیا ۔ نصر ت جاوید
کیساتھ بحیثیت معاون اینکر کئی بار اپنی حیثیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ
میرے عزیز رشتہ دار مجھے بہت سے کاموں کے لیے سفارش کا کہتے ہیں مگر انہیں
پتہ نہیں کہ میری ایسی حیثیت نہیں کہ میں انہیں نوکریاں دلواسکوں یا اُن کے
بچوں کو کسی سکول میں داخلے کے لیے سفارش کا بندوبست کروں۔
آگے کیا ہوا اور حافظ افضل بٹ نے وادی نیلم سے اُتر کر اسلام آباد پریس کلب
کی مسجد میں بحیثیت موذن کس طرح نوکری حاصل کی اور پھر عظیم صحافی اور
دانشور بنکر ملک اور قوم کی کون کون سی خدمت سر انجام دی اسکا بہتر احوال
مشتا ق منہاس ہی جانتا ہے۔چونکہ بٹ صاحب کی صحافیانہ سیاست اور جرنلسٹ
ہاؤسنگ سوسائٹی کی طاقت نے دونوں کو پہلے چوہدری پرویز الہٰی کے پنجاب
دربار اور پھر آزادکشمیر کے ایک ٹن وزیر اور جناب رحمن ملک کی مہربانیوں نے
انہیں کشمیر ہاؤسنگ سکیم کا کرتا دھرتا بنا دیا۔ دو ہاؤسنگ سکیموں اور دو
سیاسی جماعتوں سے قربت نے مشتاق منہاس کو چانکیائی سیاست اور لینڈ مافیا کی
تربیت نے ایسے گر سکھائے کہ وہ میاں خاندان کی آنکھوں کا تارا بن گے۔ وہ
مشتاق منہاس جو اپنے کسی رشتہ دار کو اسلام آباد میں معمولی نوکری اور عام
سکول میں داخلے کی حسرت پر نادم تھا میاں خاندان کا خادم اور آزادکشمیر کا
حاکم بن گیا ۔ آج مشتاق منہاس آزادکشمیراسمبلی کا ممبر ، ارب پتی سیاستدان
، حکومت کا وزیر اور چند ماہ بعد وزیراعظم بننے والا ہے۔ شنید میں ہے کہ
رائے ونڈ کا شاہی خانوادہ کچھ عرصہ بعد آزادکشمیر کی باجگزار حکومت بدل دے
گا اور مشتاق منہاس کو تخت کشمیر پر بٹھا کر مودی سرکار سے نیا سیاسی
کاروبار شروع کریگا ۔
مشتاق منہاس نوجوان صحافیوں کے لیے برق رفتار ترقی کی بہترین مثال ہے۔
بشرطیکہ وہ حافظ افضل بٹ کی شادگری کا اعزاز حاصل کر سکیں ۔ لینڈ مافیا اور
صحافی مافیا کا چولی دامن کاساتھ ہے۔ اگر کسی صحافی کولکھنا پڑھنا اور
بولنا نہ بھی آئے تووہ مشتاق منہاس اور حافظ افضل بٹ کے سو فیصد آز مودہ
نسخوں پر طبع آزمائی کرے تو کامیابی یقینی ہے۔
صحافیوں ، دانشوروں اور لکھاڑیوں کی ترقی غیر ملکی ایجنسیوں اور پاکستان
مخالف اقوام کی ہمنوائی اور مافیا کی خدمت سے وابستہ ہے۔ لینڈ مافیا سے
لیکر واٹر مافیا، مرغی او ر انڈہ مافیا تک سینکڑوں مافیا گروپوں نے ملک کی
معیشت ، صنعت اور سیاست پر کنٹرول حاصل کر رکھا ہے۔ عدلیہ ان مافیاگروپوں
پرکوئی قدغن لگانے سے قاصر ہے۔ انتظامیہ اور سیاسی اشرافیہ ان کی شراکت دار
اور وظیفہ خوار ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت ہارون ؑ کو صرف ایک قارون کا
سامنا تھا جبکہ پاکستان اور پاکستانی عوام کے سامنے مافیاجات کی صورت میں
وقت کے قارونوں کی ایک فوج کھڑی ہے جسے ملکی اور غیر ملکی دہشت گردوں اور
ملک دشمن حکومتوں اور ریاستوں کی مکمل حمائیت حاصل ہے۔
فرمان الہٰی ہے کہ جب ظلم و جبر ایک حد سے تجاوز کر جائے تو الہٰی قوتیں
خود بخود حرکت میں آجاتی ہیں۔ آج پاکستان مافیا کی جنت اور عام آدمی کے لیے
جہنم ہے۔ عام آدمی کے لیے زندگی عذاب اور مافیا سے منسلک قانون شکنوں کے
لیے عشرت گاہ ہے۔ میاں ، زرداری اور چوہدری خاندانوں نے جو کچھ پچاس سالوں
میں جمع کیا مافیا جات نے بیس سالوں میں ان سے سو گنا زیادہ کما کر انہیں
نہ صرف اپنے ساتھ ملا لیا بلکہ اپنی مرضی و منشا کے تابع بھی کرلیا ۔
آج عام لوگ جس حسرت سے پاکستان کی گلیوں او رمحلوں کی خاک سے اُٹھنے والے
نو دولیتوں کے تاج محل اور شاہانہ طمطراق دیکھتے ہیں وہ جلد ہی ان کا عبرت
ناک انجام بھی ضرور دیکھیں گے۔ قدرت کا اپنا آئین، قانون اور طریقہ نفاد
ہے۔ جسطرح ان لوگوں نے صدیوں کاسفردنوں میں طے کیا ہے اسی طرح ان کا انجام
بھی چند منٹوں میں ہوگا ۔ صحافی مافیا کے سرغنہ اگر یہ تحریر پڑھیں تو وہ
اسکا مذاق ضرور اُڑائیں گے اور اُسے کسی غریب پاکستانی کی خواہش سے تعبیر
کرینگے چونکہ تکبر اورر عونت سے بھرے دماغوں میں قدرت کے کاموں کو سمجھنے
کی گنجائش باقی نہیں رہتی ۔ سکندر مراز،ایوب ، بھٹو ، یحیٰحی ،مجیب، ضیاء
الحق، رضا شاہ پہلوی ، حافظ الاسد ، قذافی اور صدام حسین کے دلوں اور
دماغوں میں بھی قدرت کے اشاروں کو سمجھنے کی گنجائش باقی نہ تھی۔ شائد یہی
وجہ تھی کہ وہ بھی باقی نہ رہے۔ |