حکومت کے خلاف احتجاج

چکوال کی صحافت پر جب بھی تاریخ دان قلم اُٹھائے گا تو چکوال پریس کلب اور خواجہ بابر سلیم (تمغہ امتیاز) کی خدمات کو نظر انداز اور فراموش نہ کر سکے گا۔ میری انتہائی خوش بختی رہی کہ آج سے 16 سال قبل جب صحافت کا آغاز کیا تو میں نے خواجہ بابر سلیم کے گروپ ’’چکوال گروپ آف نیوز پیپرز‘‘ سے ہی آغاز کیا اور آج بھی وہیں کھڑا ہوں۔ ان 16 سالوں میں سینکڑوں کالم لکھے مگر آج تک ایسا کبھی نہیں ہوا کہ خواجہ بابر سلیم صاحب نے میرے کسی قلم کو نظر انداز کیا ہو یا پھر اس میں ترمیم کرنے کو کہا ہو یا کبھی یہ کہا ہو کہ یہ فلاں سیاسی جماعت کے خلاف ہے ہم نہیں چھاپ سکتے۔ میرے کالم کو وہ آنکھیں بند کر کے چھاپ دیتے ہیں۔ ان 16 سالوں میں خواجہ بابر سلیم کی شخصیت کو بغور دیکھنے اور جانچنے کا موقع ملا۔ اُن کی شخصیت انتہائی ٹھنڈے مزاج انسان کی ہے۔ اُن پر متعدد بار قاتلانہ حملے بھی ہوئے مگر اُنہوں نے اپنا سفر جاری رکھا۔ چکوال پریس کلب کی بنیاد رکھتے ہوئے بے شمار رُکاوٹوں اور پریشانیوں کا سامنا کیا اور پھر اس کی عمارت کو کھڑا کرنے میں مالی مشکلات بھی درپیش رہیں اور لوگوں کے اعتراضات بھی شامل رہے مگر چٹان کی طرح مضبوط ارادوں کے مالک نے ہر سازش کو ناکام بنا دیا۔ موجودہ وزیراعظم اور اُس وقت کے نگران وزیر اعلیٰ میاں محمد نواز شریف نے سب سے پہلے اس کے لئے فنڈز جاری کئے اس طرح مسلم لیگ (ن) کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ اُنہوں نے چکوال پریس کلب کی بنیاد رکھی۔ زرداری دور میں چکوال پریس کلب پر انتہائی مشکل دن بھی آئے، اُس وقت چکوال سے مسلم لیگ (ن) کے ایم این اے چوہدری ایاز امیر تھے۔ چکوال پریس کلب پر دھاوا بھی بولا گیا مگر اس کے باوجود خواجہ بابر سلیم اور اُن کے جانثار ساتھیوں نے اپنا کام جاری و ساری رکھا۔ میں خود اخبار نکالتا رہا ہوں مجھے اندازہ ہے کہ ہفتے کے بعد یہ اخبار نکالنا کتنا جان جوکھوں کا کام ہوتا ہے مگر کمال ہے خواجہ بابر سلیم پر جو یہ کام ہر روز کرتے ہیں۔ روزانہ ان کا ایک اخبار مسلسل مارکیٹ میں آرہا ہے اور چکوال پریس کلب کے پلیٹ فارم سے نجانے کتنے قومی اخبارات و جرائد اور الیکٹرانک میڈیا کو روزانہ خبروں کی ای میلز کی جاتی ہیں۔ ان کی یہ خدمات گذشتہ 32 سال سے جاری و ساری ہیں اور ان کے جذبہ ایمانی میں ذرا برابر بھی کمی واقع نہیں آئی۔ ہر وقت اپنے آپ کو متحرک رکھنا اور اپنے اردگرد کے حالات پر گہری نگاہ رکھنا انہی کا خاصہ ہے شاید یہی وجہ ہے کہ ان کو حکومت پاکستان کی جانب سے بڑا اعزاز تمغہ امتیاز دیا گیا جو کہ نہ صرف ان کے لئے، ان کے خاندان بلکہ اہلیان چکوال کے لئے کسی بھی اعزاز سے کم نہیں ہے۔ میں نے ان کو جو کام کرتے دیکھا تو بہت کم ایسا ہوا کہ یہ کچھ لکھ کر پاس رکھتے ہوں۔ روزانہ خبریں، مراسلات زبانی لکھاتے ہیں۔ چکوال کی تاریخ ان کے دلوں و دماغ میں نقش ہے۔ اگر ان کا سارا کام جمع کیا جائے تو یقینا کئی کتابیں درکار ہوں گی۔ اپنے کام کے ساتھ سو فیصد مخلص ہونا اور پھر اپنے کام کا پتہ ہونا کسی بھی کامیاب شخص کے لئے ضروری ہوتا ہے اور بلاشبہ یہ تمام صلاحیتیں خواجہ بابر سلیم میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ آج اگر صحافت کا نام آتا ہے تو لوگ چکوال کو خواجہ بابر سلیم کے نام سے جانتے ہیں تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اُنہوں نے اپنے کام سے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ چکوال کی صحافت میں حرفِ آخر ہیں۔ ان پر کئے جانے والے قاتلانہ حملے، چکوال پریس کلب پر دھاوا بولنا، ان کو ان کے مقاصد سے نہ ہٹا سکا اور حقیقت تو یہ ہے کہ خواجہ بابر سلیم آواز ہیں ایسی دُکھی اور بے بس انسانیت کی جن کی معاشرے میں کوئی نہیں سنتا اُن کو خواجہ بابر سلیم جیسے عظیم انسان الفاظ کی شکل دے کر امر کر دیتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ اﷲ ان کے کام میں برکت ڈالے اور ان کی عمر دراز کرے اور ان کا سایہ ہم پر قائم رکھے تاکہ یہ خدمت کا سفر جاری و ساری رکھ سکیں۔ حقیقت یہ ہے کہ خواجہ بابر سلیم اور چکوال پریس کلب صحافت کی یونیورسٹیاں ہیں۔ یہاں جو بھی آیا اُس نے کچھ نہ کچھ حاصل ہی کیا۔ آج اگر میرے قلم پاکستان کے قومی اخبارات اور عالمی اخبارات میں چھپ رہے ہیں تو اس کی بنیادی وجہ خواجہ بابر سلیم کا دست شفقت ہے جنہوں نے میری انگلی پکڑ کر مجھے اس راستے پر لگایا اور آج الحمد ﷲ قلم کی طاقت کا اندازہ ہو چکا۔ اﷲ تعالیٰ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔
Javed Iqbal Anjum
About the Author: Javed Iqbal Anjum Read More Articles by Javed Iqbal Anjum: 79 Articles with 63761 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.