معروف رومانی شاعر احمد فراز 12
جنوری 1931ء کوہاٹ میں پیدا ہوئے ۔ احمد فراز کا اصل نام سید احمد شاہ علی
تھا ۔انہوں نے اردو اور فارسی میں ایم اے کیا ۔ ایڈورڈ کالج ( پشاور ) میں
تعلیم کے دوران (جب ایف اے میں تھے تو) ریڈیو پاکستان کے لیے فیچر لکھنے
شروع کیے ۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد ریڈیو سے علیحدہ ہو گئے اور یونیورسٹی
میں لیکچر شپ اختیار کر لی ۔ جب ان کا پہلا شعری مجموعہ " تنہا تنہا "شائع
ہوا تو وہ بی اے میں تھے ۔ جب وہ نہم کلاس میں تھے تو انہوں نے اپنا پہلا
شعر لکھا تھا ۔احمد فراز پاکستان نیشنل سینٹر (پشاور) کے ڈائریکٹر بھی رہے
اور جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں جلا وطن بھی ۔احمد فراز 2006 ء تک "
نیشنل بک فاؤنڈیشن "کے سربراہ رہے ۔ ان کا کلام علی گڑھ یونیورسٹی اور
پشاور یونیورسٹی کے نصاب میں شامل ہے ۔احمد فراز کہتے ہیں کہ
ہم نہ ہوتے تو کسی اور کے چرچے ہوتے
خلقتِ شہر تو کہنے کو فسانے مانگے
انہوں نے متعدد ممالک کے دورے کیے ۔ ان کی شاعری کے انگریزی ،فرانسیسی
،ہندی، یوگوسلاویہ، روسی، جرمن اور پنجابی میں تراجم ہو چکے ہیں ۔جو
اعزازات ان کو ملے ان میں آدم جی ا دبی ایوارڈ ،اباسین ایوارڈ ،بھارت میں
فراق گورکھ پوری ایوارڈ ،ٹاٹا ایوارڈ سے نوازا گیا ،اس کے علاوہ ہلال
امتیازستارہ اورامتیازنگار ایوارڈ بھی ان کو ملا ۔ایک انٹرویو میں وہ اپنے
لکھنے کے بارے میں بتاتے ہیں زیادہ تو میں کبھی بھی نہیں لکھتا ۔ کبھی
لکھنے پہ آتا تو دو چار چیزیں اکٹھی ہو جاتی ہیں،کبھی چھ چھ مہینے کچھ نہیں
لکھا جاتا، زبردستی نہیں کرتا ، طبیعت کے ساتھ اور شعر کے ساتھ۔ تو یہی
میرے لکھنے کی رفتار ہے۔ ان کا ایک شعر سنیں یہ شعر آپ نے پہلے بھی کئی بار
سنا ہوگا ۔
اب کے ہم بچھڑے تو شائد کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
ان کی کتابوں کے نام ۔تنہا تنہا (1958)،درد آشوب (1966)،میرے خواب ریزہ
ریزہ (1972)،جاناں جاناں (1976)،بے آواز گلی کوچوں میں (1982)،نابینا شہر
میں آئینہ (1984)،سب آوازیں میری ہیں (1985)،پس انداز موسم (1989)،بودلک
(1994)۔ان کے تما م شعری مجموعے کلیات کی صورت میں شائع ہو چکے ہیں ۔ان کی
ایک نظم سنیں۔
یہ میری غزلیں یہ میری نظمیں
تمام تیری حکایتیں ہیں
یہ تذکرے تیرے لطف کے ہیں
یہ شعر تیری شکایتیں ہیں
میں سب تری نذر کر رہا ہوں
یہ ان زمانوں کی ساعتیں ہیں
انہیں رومان کا شاعر کہا جاتا ہے لیکن انہوں نے صرف رومان پر ہی نہیں لکھا
یہ ہی وجہ ہے کہ ان کو جنرل ضیاء الحق کے دور میں جلا وطنی اختیار کرنی پڑی
۔احمد فراز فوجی مارشل لاء مخالف تھے ۔ 2004 ء میں انہیں ’ہلالِ امتیاز‘دیا
گیا جو انہوں نے دو برس بعد 2006 ء میں سابق صدر مشرف کی پالیسوں کے خلاف
احتجاج کرتے ہوئے یہ اعزاز واپس کردیا۔ان کی متنازعہ نظم " پیشہ ور قاتلو"
مارشل لا ء کے خلاف لکھی گئی تھی اب نایاب ہے ۔میں اسے اس لیے تحریر کا حصہ
نہیں بنا رہا کہ فوج کے خلاف لکھی گئی ہے اسی نظم کی وجہ سے وہ جلا وطن
ہوئے تھے اور یہ جلاوطنی خود ساختہ تھی ۔ان کو زیادہ شہرت ان کی رومانی
شاعری سے ملی، اس شاعری میں وہ سب کچھ ہے جو محبت کرنے والوں کے ساتھ پیش
آتا ہے ۔جیسے محبت ،عشق، انتظار ،ہجر ،بے وفائی ،وفا ،حسن ،وغیرہ مثلاََ
اب تو ہمیں بھی ترکِ مراسم کا دکھ نہیں
پر دل یہ چاہتا ہے کہ تو آغاز کرے
قربتوں میں بھی جدائی کے زمانے مانگے
دل وہ بے مہر کہ رونے کے بہانے مانگے
انہوں نے انسانی بے حسی ،جبر اور انسانی حقوق کے حوالے سے بھی بھرپور شاعری
کی ان کا ایک شعر مجھے کیا سب شاعری کا ذوق رکھنے والوں کو پسند ہے ۔
شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
پاکستان اور انڈیا کے بہت سارے نامور گلوکاروں نے ان کی شاعری گائی جن میں
لتامنگیشکر ، جگجیت ، ملکہ ترنم میڈم نورجہاں،وغیرہ شامل ہیں۔ان کو رومانی
شاعری کہا جاتا ہے تو ٹھیک ہی کہا جاتا ہے وہ خود کہتے ہیں میں مانتا ہوں
رومانس میری شخصیت کا ایک حصہ ہے اور میری شاعری میں اس کا غلبہ ہے لیکن
زیادہ موضوعات ہیں کہاں ۔ کیا آپ مجھے محبت کے علاوہ کوئی موضوع بتا سکتے
ہیں ۔
ان کی وفات 25اگست 2008 ء کو 77سال کی عمر میں ہوئی. اسلام آباد کے قبرستان
میں مدفن ہیں۔احمد فراز کوزندگی میں ہی بے پناہ شہرت مل گئی تھی لیکن مرنے
کے بعد تو ان کی شہرت میں اور بھی اضافہ ہوگیا۔25 اگست 2016ء کو ان کی
آٹھویں برسی ہے ۔انہوں نے اپنی زندگی میں ہی کہ دیا تھا کہ
میں خوش ہو ں راندہ افلاک ہو کر
مرا قد بڑھ گیا ہے خاک ہو کر
بچپن کا واقعہ ہے کہ ایک بار ان کے والد صاحب سب کے لیے کچھ کپڑے لائے تھے
او ر فراز کے لیے کشمیرے کا پیس ،کوٹ کے لیے لائے تو وہ انہیں بالکل کمبل
سا لگا،جس بارے انہیں گلہ تھا کہ اچھے کپڑے نہیں لائے ۔وہ کہتے ہیں۔
سب کے واسطے لائے ہیں کپڑے سیل سے
لائے ہیں میرے لیے قیدی کا کمبل جیل سے |