حسان الہند علامہ غلام علی آزاد بلگرامی: ایک تعارف
(Ghulam Mustafa Rizvi, India)
ھندوستان کی تاریخ میں اپنے تحقیقی،
فکری،روحانی، تاریخی، ادبی کارہائے علمیہ کے اعتبار سے حسان الھند علامہ
سید غلام علی آزاد بلگرامی کا اسم ممتاز حیثیت کا حامل ھے-
(1) حسان الہند علامہ میر سید غلام علی آزاد بلگرامی چشتی علیہ الرحمہ
بارہویں صدی ہجری کے عظیم مؤرخ ہیں
(2) بچپن ہی میں آپ کو خواب میں جلوۂ حبیبِ اعظم صلی اللہ تعالیٰ علیہ
وسلم کی زیارت کا شرف حاصل ہوا اور پھر تسکینِ قلب کے لیے زیارتِ حرمیَن
طیبیَن کی جانب تنِ تنہا پروانہ وار نکل پڑے۔
(3) شہرِ محبت مدینہ مقدسہ میں حضرت شیخ محمد حیات سندھی مدنی سے علمِ حدیث
کادرس لیا۔
(4) فریضۂ حج ادا کیا اور کئی ماہ مکۂ مکرمہ میں قیام کیا،مقاماتِ مقدسہ
اور اسلامی آثار کی زیارت سے شرف یاب ہوئے۔
(5) علامہ آزادؔ بلگرامی ایک عظیم شاعر بھی تھے۔آپ کی شاعری کو ہندوستانی
عربی ادب کا شاہکار کہا گیا ہے۔
(6) آپ کے عربی اشعار کی تعداد محققین نے سترہ ہزار (17000)کے قریب شمار
کی ہے جو عربی ادب کی فنی لطافتوں اور صوفیانہ نغمگی سے پُرہے۔
(7) علامہ آزادؔ بلگرامی کی شاعری کا موضوع مدحتِ آقا صلی اللہ علیہ وسلم
ہے،اسی لیے انہیں’’حسان الہند‘‘جیسے باوقاراور عظیم لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔
(8) علامہ آزادؔ بلگرامی نے اپنی شاعری میں جابجا حب الوطنی کااظہار کیا
ہے۔
(9) آپ نے سب سے پہلے اپنی نظم و نثر میں عظمتِ ہند کے نغمے گنگنائے ہیں۔
(10) آپ کی تصانیف کے نام اس طرح ہیں:
1- سبحۃالمرجان فی آثارِ ہندوستان
2- مآثرالکرام
3- شمامۃالعنبرماورد فی الہند من سیدالبشرصلی اللہ علیہ وسلم
(شمامۃالعنبر کی اشاعت ڈاکٹر سید علیم اشرف جائسی نے دارالعلوم جائس سے کی۔)
4- بریلی شریف سے مآثرالکرام کی اشاعت عمل میں آئی ۔
5- مالیگاؤں سے روضۃالالیاء کی اشاعت آل انڈیا سُنّی جمعیۃالعلماء کے زیر
اہتمام ہوئی۔
(11) آپ کے عربی شعری دیوان سے متعلق ڈاکٹر سید علیم اشرف جائسی(پروفیسر
مولاناآزاد نیشنل اردو یونی ور سٹی حیدرآباد) نے نشان دہی کی ہے کہ آپ
کے صرف چار دیوان مطبوعہ ہیں۔
(12) علامہ ارشدالقادری کے فرزند مولانا ڈاکٹرغلام زرقانی(مقیم امریکہ)نے
آپ کی عربی نگارشات پر مقالۂ تحقیق قلم بند کرکے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔
(13) علامہ آزادؔ بلگرامی نے بحیثیت شاعر و ادیب اور سیاح و مؤرخ اپنی
علمی یادگاریں چھوڑی ہیں-
(14) بحیثیت محدث آپ نے بخاری شریف کی کتاب الزکاة تک کی شرح تحریر کی
(15) آپ نے عربی و فارسی میں سیرت اورہندوستان کی اسلامی تاریخ سے متعلق
متعدد کتابیں تحریر فرمائیں جن سے آپ کی مؤرخانہ و محققانہ شان و عظمت
اجاگر ہوتی ہے۔
(16) آج بھی علمی و ادبی تحریروں میں آپ کی تحقیق کوقولِ فیصل ماناجاتا
ہے۔ بڑے بڑے مؤرخین آپ کی کتابوں کے حوالے نقل کرتے ہیں۔
(17) علامہ آزادؔ بلگرامی ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے مگر بنیادی طور
پر وہ ایک صوفیِ باصفا تھے۔
(18) علامہ آزادؔ بلگرامی! زندگی کے آخری ایام گوشہ نشینی میں گزارے۔
مدینۃالاولیاء خلدآباد میں خلیفۂ محبوب الہی نظام الدین اولیا حضرت امیر
علاء سنجری رحمۃاللہ علیہ کے مزار مبارک کے پہلو میں ایک قطعہ اراضی خریدا،
اس کا نام ’’عاقبت خانہ‘‘ رکھا۔ وصال سے کچھ دنوں قبل دکن کے صوفیا اور
فقرا کی دعوت کی اور ذکر الٰہی میں مشغول ہوگئے۔
(19) 23 ذی القعده 1200ھ میں علم و فن کا یہ ماہ تاب اپنے کمالات کی تمام
تر رعنائیاں بکھیر کروصال کی لذت سے سرشار ہوگیا۔ آپ کا عرس ھر سال سنی
جمعیة العلماء مالیگاؤں کے زیر اہتمام خلدآباد میں منایا جاتا ھے، امسال 27
اگست کو عرس مبارک ھوگا-
آسماں عینک لگا کر مھر و ماە کی دیکھ لے
جلوە انوار حق ھے صبح و شام بلگرام
(اعلٰی حضرت محدث بریلوی) |
|