’’مودی کا جو یار ہے‘‘ نعرے کے جواب میں دل
سے آواز آتی ہے،’’غدارہے، غدار ہے‘‘۔ بلوچوں نے مودی کی لال قلعہ تقریر کے
جواب میں یہ نعرے لگائے۔ مظاہرے کئے۔ بلوچ وزیراعلیٰ نواب ثناء اﷲ زہری
اعتراف کر رہے تھے کہ چند ٹکوں کے لئے بھارت کو سلام کرنے والے غدار موجود
ہیں۔ براہمداخ بگٹی نے بھی ایسا ثبوت دیا۔ بھارتی وزیراعظم نے کھل کر
بلوچستان کا نام لیا۔ بلوچستان کشمیر کی طرح متنازعہ علاقہ نہیں ہے۔ یہ
پاکستان کا حصہ ہے۔ جہاں بھارت سمیت دنیا کی لا تعداد خفیہ ایجنسیاں
پاکستان دشمنی میں مصروف ہیں۔ یہ اعتراف جنر ل (ر)پرویز مشرف اور دیگر
حکمرانوں کا ہے۔
18اگست کو بلوچستان میں بھارت کے خلاف مظاہرے ہوئے۔ صوبے بھر کے عوام بھارت
کے خلاف سڑکوں پر آ گئے۔ پاکستان کے پرچم لہرائے۔ پاکستان زندہ باد اور
بھارت مردہ بادکے نعرے لگائے۔ بھارت بلوچستان کے حالات شروع سے خراب کر رہا
ہے۔ مگر پہلی بار کسی بھارتی حکمران نے یہاں مداخلت کا کھل کر اعتراف کیا۔
جس کے خلاف بلوچوں نے بھارت کے پرچم اور مودی کے پتلے نذر آتش کئے۔
19اگست افغانستان کا یوم آزادی ہے۔ اس روز بھی بلوچ بھارت کے خلاف مظاہرے
کر رہے تھے۔ جب چمن سرحد پر ان پر افغانوں نے پتھراؤ شروع کر دیا۔ پاکستان
کی سرحد کے پی کے، قبائلی علاقوں اور بلوچستان سے افغانستان کے ساتھ ملتی
ہے۔ بلوچستان کی سرحد ایران اور افغانستان سے ملحقہ ہے۔ بھارت افغانستان کی
سر زمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ طالبان کے دور میں بھی
شمالی اتحاد نے دہلی کے ساتھ تعاون کیا۔ بھارت افغانوں کو ٹریننگ اور اسلحہ
دے رہا ہے۔ افغانوں کو پاکستان سے بعض شکایات ضرور ہوں گی۔ مگر پاکستان
دشمنی کی توقع نہ تھی۔ پاکستان نے لاکھوں کی تعداد میں افغانوں کو پناہ دی۔
انہیں اپنے گلے سے لگایا۔ ان کی سلامتی اور سہولت کے لئے اپنی سلامتی کو
خطرے میں ڈالا۔ انہیں اپنا ہی سمجھا بلکہ اپنایا۔ آج بھی دہائیاں گزرنے کے
بعد لاکھوں افغان پاکستان بھر میں موجود ہیں۔ آزاد کشمیر میں بھی یہ آزادی
سے رہتے ہیں۔ جگہ جگہ خان مارکیٹ قائم ہیں۔ افغان یہاں مالدار بن گئے ہیں۔
انھوں نے محنت و مشقت سے کام کیا۔ یہ درست ہے کہ پٹھان انتہائی دلیر، غیرت
مند،جفاکش، ہتک محسوس نہ کرنے والی، ہمدرد، ایک دوسر کے ساتھ تعاون کرنے
والی قوم ہیں۔ مگر پاکستان نے صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے انہیں اپنے بھائی
کی طرح یہاں رکھا۔
چمن میں چند افغانوں نے پاکستان کے خلاف نعرے لگائے ، پاکستانی پرچم اتار
کر اس کی بے حرمتی کی۔ اگر چہ افغانوں کو بھارت پاکستان کے خلاف مشتعل کر
رہا ہے، انہں اکسایا جا رہا ہے۔ لیکن افغان بھی تعلیم یافتہ ہیں۔ وہ کیوں
بھارت کے ہاتھوں میں کھلونا بن رہے ہیں۔ چمن سرحد کا واقعہ افسوسناک ہے۔
پاکستانی فورسز نے انتہائی برداشت اور تحمل کا مظاہرہ کیا۔ اشتعال کے
باوجود افغانوں پر فائرنگ یا تشدد سے گریز کیا۔ کیوں کہ دوسری طرف بھی اپنے
مسلمان بھائی تھے۔ لیکن انہیں بھی احساس ہونا چاہیئے۔ گزشتہ ایک ہفتہ سے
چمن سرحد بند ہے۔ تمام ٹریفک بند ہے۔ مال بردار ٹرک اور ٹرالر رکے ہوئے ہیں۔
جب تک افگان حکومت مستقبل میں پاکستان دشمنی سے باز رہنے کی یقین دہانی
نہیں کراتی اور چمن واقعہ میں ملوث شر پسندوں کے خلاف کارروائی نہیں کی
جاتی ، تب تک چمن سرحد بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ درست ہے۔
اس سے پہلے طور خم سرحد پر بھی پاک افغان کشیدگی کئی ہفتے تک موجود رہی۔
افغانوں نے جارحیت کا مظاہرہ کیا۔ بلا اشتعال فائرنگ کی۔ جس میں میجر علی
جواد چنگیزی شہید ہو گئے۔ اس کے باوجود پاکستان نے تحمل کا ثبوت دیا۔
چمن میں دوستی گیٹ پر حملے کے کیا مقاصد ہیں۔ یہاں سے افغانستان کو ہی نہیں
بلکہ نیٹو فورسز کو بھی سپلائی ہو رہی ہے۔ افغان اپنا 97واں یوم آزادی منا
رہے تھے۔ پاکستان نے بھی چند دن قبل اپنا 70واں یوم آزادی منایا تھا۔ چمن
کے پار سپین بولدک کا علاقہ ہے۔ افغان شر پسند اس علاقہ میں لوگوں کو
پاکستان کے خلاف مشتعل کر رہے تھے۔ انھوں نے پاکستان کے خلاف کتبے اور
بینرز اٹھا رکھے تھے۔ یہ سب کیوں ہوا۔ ایک ہی وجہ تھی۔ بھارت کی سازش۔
افغانوں کی یوم آزاد ی ہو یا کوئی بھی یوم، پاکستان ہر وقت افغانستان کی
خوشحالی اور ترقی چاہتا ہے۔ کیوں کہ افغانستان کی ترقی اور امن سے پاکستان
بھی فائدہ مند ہو گا۔ اپنے یوم آزادی پر پاکستان کے خلاف غم و غصہ بے جا
تھا۔ پاکستانیوں کو اس موقع پر مٹھائیاں اور تحائف پیش کرنے کے بجائے
پتھراؤ کیا گیا، قومی پرچم کی بے حرمتی کی گئی۔ باب دوستی کے شیشے توڑ دئیے
گئے۔ بلوچ اس موقع پر افغانستان نہیں بلکہ بھارت کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے۔
وہ مظاہرے کے بعد منتشر ہو رہے تھے۔ جب افغانوں نے افسوسناک کارروائی کی۔
ایک بلوچ سے پاکستان کا قومی پرچم چھین کر اسے نذر آتش کرنا کسی پاکستان
اور اسلام دشمن افغان کی ہی حرکت ہو سکتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کی
سرحد پر بھارت نے مورچہ بند ی کر لی ہے۔ چمن سرحد کو روزانہ تقریباً15ہزار
افغان اور پاکستانی تاجر عبور کرتے ہیں۔ ایک ہفتہ سے ان کا کاروبار رکا ہوا
ہے۔ اگرچہ سرحد زیادہ عرصہ بند کرنے سے دونوں طرف نقصان ہو گا۔ افٖغانستان
کا نقصان پاکستان کا نقصان ہے۔ مگر اس بار یقین دہانی ضروری ہے کہ
افغانستان کی سرزمین کو بھارت کی سرگرمیوں کے لئے استعمال نہ ہونے دیا جائے۔
جاری۔ |