پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے پر پوری
دنیا نے اپنی نظریں گاڑی ہوئی ہیں۔ خاص طور پر وہ ممالک جن کے مفاد کے تانے
بانے جنوبی ایشیا سے ملتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ اتنا مختصر منصوبہ تو ہے نہیں
کہ ہفتوں ، مہینوں میں ختم ہو جائے۔ کم از کم اس پر تین چار سال تو صرف ہوں
گے۔ یہ منصوبہ اگر مکمل ہو جاتا ہے تو ان شاء اﷲ پاکستان کی معاشی لحاظ سے
کافی ترقی کر سکتا ہے۔ اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے یہ ضروری
ہے کہ یہ بنا کسی تعطل کے جاری رہے۔ اور اس تسلسل کے لیے یہ بھی ضروری ہے
کہ جو مظبوط ہاتھ اس کی دیکھ بھال کر رہے ہیں وہ ہمیشہ ہی مظبوط ہوں اور
ڈٹے رہیں۔ آندھی آئے یا طوفان، سیلاب آئے یا سونامی، اندر باہر کی سازشوں
سے اس کو اﷲ کے بعد بچانے والی دنیاوی قوتیں متحد ہو کر طاقتور رہیں گی تو
یہ منصوبہ بخیر و عافیت سے اختتام کو پہنچے گا۔ اس کی حفاظت کے لیے مظبوطی
سے ڈٹے رہنا بھی کوئی خالہ جی کا گھر نہیں۔ کیونکہ پاکستان کے باطنی وظاہری
دشمن اندر باہر سے وار پہ وار کیے جارہے ہیں۔ کبھی پراکسی جنگ لڑی جارہی ہے
اور کبھی سازشوں کا جال بچھایا جا رہا ہے کہ پاکستان کسی بھی لحاظ سے کمزور
ہو اور ہوتا چلا جائے۔ لیکن وہ نہیں جانتے یا انجان بن جاتے ہیں کہ اس
پاکستان کی حفاظت اب تک اﷲ نے کی ہے اور ان شاء اﷲ آئندہ بھی وہی پاک ذات
اس کی حفاظت فرمائے گی۔
اس اقتصادی راہداری نے جاکر سیدھا گوادر کی بندرگاہ سے ملنا ہے اور یہ
گوادر بھی ہے جو دشمنوں کی آنکھ میں کھٹک رہا ہے۔ان کے گلے میں کانٹے دار
ہڈی کی مانند اٹک گیا ہے۔ ایران کی چاہ بہار کی بندرگاہ پر ان شاء اﷲ اس
گوادر کی بندرگاہ کے کامیاب افتتاح کے دن سے ہی الو بولنے لگیں گے۔ اسی وجہ
سے ایران پریشان ہے اور الوؤں سے کیسے بچا جائے۔ حالانکہ امریکہ کا چمچہ
ہونے کی وجہ سے ایران کو پریشانی تو ہر گز نہیں ہونی چاہیے کہ وہ سارے الو
خرید لے گا۔ اس کے بعد آتا ہے انڈیا۔ اس کے ہاتھوں کے طوطے ، معدودے چند کے،
اسی دن اڑ گئے تھے جس دن اس گوادر کو بندرگاہ کے طور پر چنا گیا تھا۔ اور
جو چند وفادار طوطے چمٹے رہ گئے تھے وہ بھی اقتصادی راہداری اور گوادر کے
آپس میں ملاپ کا سنتے ہی اڑن چھو ہو گئے تھے۔ اب دوطرفہ چوگان کھیلنی
ہے۔دشمنوں کے گول سے بھی خود کو بچانا ہے اور وقتی طور پر خالص دفاعی
پوزیشن سے ان کو پریشانی میں بھی مبتلا رکھنا ہے کہ وہ نہ کچھ سوچ سکیں نہ
کچھ سمجھ سکیں اور پھر صرف توجہ اپنے ملک کی طرف ہی دیں نہ کہ ہمارے پاک
وطن کے بارے میں برے خیالات برے ذہن میں لاتے رہیں۔
اب پاک فوج کے کمانڈر جناب جنرل راحیل شرف کے ریٹائرمنٹ کے دن قریب ہیں۔
غالباً نومبر میں انھوں نے چارج چھوڑنا ہے۔ انھوں نے پاک فوج کا معیار بلند
کیا۔ عوام میں جو پاک فوج کے خلاف نفرت پھیلی ہوئی تھی ، اپنی بہترین
صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اس نفرت کو ختم کیا۔عوام میں یہ شعور پیدا
ہوا کہ اﷲ کے بعد اگر کوئی پاکستان سے کی حفاظت کر سکتا ہے تو یہ پاک فوج
ہی ہے۔ عوام یہ بھی جانتی ہے کہ مشکل گھڑی میں ، مشکل حالات میں اﷲ نے اگر
پاکستانی قوم کی مدد کے لیے کسی کو بھیجا ہے تو یہ پاک فوج ہی ہے۔ اب اگر
جنرل صاحب چلے جاتے ہیں تو کیا معلوم ان کا جانشین کس ذہن کا مالک ہو۔ کس
کام کو ترجیح دے اور کس کو ملتوی کر دے یا دوسرے نمبر پر رکھے۔ میرا ذاتی
خیال تو یہ ہے کہ گوادر کی بندرگاہ اور اقتصادی راہداری کے منصوبے کو بخیرو
عافیت پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے جنرل راحیل شریف کی موجودگی بہت ضروری
ہے۔ ان کو ہر اونچ نیچ کا علم ہے۔ بے شک انکے ماتحت جرنیل بھی جانتے ہیں
لیکن دماغی جنگ اگر ایک دماغ باقیوں کی مشاورت سے لڑے اور وہ لڑے جس پر گزر
چکی ہو تو وہ زیادہ تجربہ دکھائے گا۔
چین کو بھی پاکستان کے حالات کا علم ہے۔وہ جانتا ہے کہ پاکستان میں بہت سے
امریکہ پٹھو بستے ہیں۔ ان کے شدید دباؤ میں آکر کوئی بھی حکومت کسی بھی وقت
اپنا فیصلہ واپس لے سکتی ہے۔ کروڑوں اربوں روپے کا نقصان سہہ لے گی لیکن
امریکہ بہادر کو ناراض نہیں کرے گی، جو ہزاروں کلومیٹر دور سے آنکھیں
دکھاتا ہے اور ہم آنکھیں نیچی کر لیتے ہیں اور پھر ہپ ہپ ہرے کے نعرے لگاتے
ہیں کہ سرکار بہادر نے ہم سے ٹیلیفون پر بات کرکے ہمیں عزت بخشی ہے۔ خیر
چین کے کہنے پر ہی ایک پورا بریگیڈ تیار کیا گیا جو اس وقت پاک چین سُت
سرحدسے لے کر گواردر کے گہرے نیلے پانیوں تک اقتصادی راہداری کی حفاظت کا
فریضہ اﷲ کے فضل و کرم سے انجام دے رہا ہے۔لیکن کیا یہ ممکن نہیں کہ نئے
کمانڈر کے آنے کے بعد حکومت وقت کے دباؤ میں آکر اس بریگیڈ کے فرائض میں
تبدیلی کر دی جائے۔ ظاہر ہے اس تبدیلی کی وجہ سے پاکستان کی ترقی کرتی ہوئی
معیشت کا سارا منصوبہ ناکام ہو سکتا ہے جو کہ دشمنانِ پاکستان چاہیے ہی یہی
ہیں۔اس لیے چین نے موجودہ حکومت کو مشورہ دیا (اخباری ذرائع) کہ اس منصوبے
کی تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کی
جائے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ گذشتہ سال ستمبر میں جو بل قومی اسمبلی میں پیش
ہوا تھا جس میں آرمی چیف کے عہدے کی مدت تین سال کی بجائے پانچ سال کرنے کا
کہا گیا تھا، وہ بھی چین ہی کے مرہون منت تھا۔
موجودہ حکومت نے اچھے دوست کے بہترین مشورے کو مانتے ہوئے اپنے وزراء اور
مشیروں سے مشاورت شروع کر دی۔ بے شک کچھ خلاف بھی ہوں گے لیکن کرنل ٹھاکر
صاحب اگر قوم کے جذبات کے قاتل فاروق ستار کو گرفتار کرکے لے جاسکتے ہیں تو
کچھ بھی ممکن ہے۔ جنرل صاحب ویسے توفرما چکے تھے کہ انھوں نے اپنے عہدے کی
مدت توسیع نہیں کروانی، نہ انہیں پسند ہے۔لیکن جذبۂ الوطنی تو ان کے خاندان
میں بدرجۂ اتم موجود ہے ۔ اوپر سے عوام کے دل کی آواز بھی تھی کہ نہ صرف
اقتصادی راہداری اور گواردر کی حفاظت کے لیے ان کی موجودگی ضروری ہے بلکہ
عوام کو گِدھوں سے، دہشت گردوں سے اور دہشت گردی سے نجات دلانے کے لیے بھی
نیشنل ایکشن پلان پر عمل کروانا بھی ضروری ہے ۔ اور اس کے لیے بھی جنرل
صاحب کی موجودگی ضروری ہے۔ لہٰذا جنرل صاحب کی طرف سے ہلکا سا ہامی بھرنے
کا اشارہ ملا۔ اب باوثوق ذرائع کے مطابق جی ایچ کیو میں جنرل راحیل شریف کے
عہدے کی مدت ملازمت میں توسیع پر کام شروع ہو چکا ہے۔مجھے یقین ہے کہ یہ
فیصلہ ان شاء اﷲ وطن عزیز کے لیے بہت بہتر ثابت ہو گا۔ بہت سے گِدھوں سے ،
آستین کے سانپوں سے ملکِ پاک کو نجات ملے گی۔یہ تو نہیں کہتا کہ بوٹوں کی
چاپ سنائی دے رہی ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ جنرل صاحب کے اس فیصلے سے ملک کی
بہتری کے لیے جاری بہت سے منصوبوں کو استحکام و دوام ملے گا۔ چونکہ ان کا
تسلسل برقرار رہے گا۔ موجودہ حکومت ایک اچھا کام ضرور کر رہی ہے کہ خارجہ
پالیسی میں آرمڈ فورسز کی مشاور بھی شامل ہوتی ہے۔ چونکہ وطنِ عزیز کو ہر
وقت بیرونی و اندرونی دشمنوں کا سامنا ہے ۔ کچھ اپنے زخم دیتے ہیں اور کچھ
بھوشن یادیو جیسے دشمن ملک کے جاسوس جو آستین کے سانپ جیسے دوست ملک کی
سرحد عبور کرکے ان ہی کے پاسپورٹ پر آتے ہیں۔ ان حرام خوروں سے پیارے
پاکستان اور اسکی قوم کو محفوظ رکھنے کے لیے بہت ضروری ہے کہ پاکستانی
افواج مضبوط ہوں۔پاکستان کے مستقبل کے لیے یہ بہت ضروری ہے۔ ویسے بھی نون
لیگ کی حکومت کے دوران ستمبر، اکتوبر اور نومبر کے مہینے ہمیشہ ہی بہت اہم
ثابت ہوئے ہیں۔دیکھیں کیا ہوتا ہے؟ |