مائینس ون؟

 ’’مائینس ون‘‘بہت سے لوگوں کی خواہش تھی، بہت سے لوگوں کا فارمولا تھا،بہت سے لوگوں کی طرف سے اسے ناقابلِ عمل قرار دیا جاتا تھا۔ یہ فارمولا ’قائد تحریک‘ الطاف حسین کو اپنی ہی بنائی ہوئی پارٹی سے نفی کرنے کا تھا۔ بات تو غیر فطری محسوس ہوتی ہے، مگر بسا اوقات حالات ایسے بن جاتے ہیں کہ بیمار جسم سے کسی اہم عضو کو بھی کاٹنا پڑ جاتا ہے۔ ایم کیوایم پر بارہا ایسے وقت آئے جب پارٹی کو ملک دشمن قرار دیا گیا، اس کے خلاف آپریشن ہوئے ، عقوبت خانے پکڑے گئے، اسلحے کے انبار دریافت ہوئے، قاتلوں کی نشاندہی ہوئی، دشمن ملک کی مدد کا سراغ ملا، مگر چند ہی روز بعد سب کچھ معمول پر آجاتا، جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ اب بھی کراچی میں کافی عرصہ سے بدامنی کے ڈیرے تھے، ٹارگٹ کلنگ کا راج تھا ، اب بھی ہے مگر بہت کم ہو چکا ہے، بھتہ بھی جاری ہے۔ اس صورت حال میں حکومت نے کراچی میں آپریشن کا فیصلہ کیا۔ قائد تحریک کچھ عرصہ قبل تک ٹی وی چینلز پر خطاب کا شوق پورا کیا کرتے تھے، صورت حال یہ تھی کہ ہر چینل ان کی تقریر کو ’’لائیو‘‘ چلانے پر مجبور تھا۔ اس براہِ راست پروگرام میں قائد کے دل میں جو آئے وہ کہتے تھے، اور جب بات پاکستان کی سلامتی تک پہنچنے لگی، مسلح افواج کو مجموعی طور پر گالی دینے کا رواج زور پکڑنے لگا تو حکومت بھی مجبور ہوگئی کہ بھائی کی براہِ راست تقریر پر پابندی لگا دے۔ اس فیصلے سے جہاں ٹی وی چینلز نے سکون کا سانس لیا وہاں عوام کو بھی اس کشیدگی سے فرصت نصیب ہوئی۔

پابندی براہِ راست خطاب پر لگائی گئی تھی، مگر ایم کیوایم کی تقریبات میں اس قسم کی پابندی نہیں تھی۔ کراچی پریس کلب کے باہر ایم کیوایم کی بھوک ہڑتال جاری تھی تو قائد کے خطاب نے کایا پلٹ دی۔ انہوں نے پاکستان کے خلاف باتیں کیں۔ بات آگے بڑھی، قائد کے جانثار باہر نکلے تو انہوں نے نہ صرف میڈیا ہاؤسز پر حملے کئے، بلکہ توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ بھی کیا، ایک شخص کی جان بھی گئی۔ چونکہ کراچی میں رینجرز کا آپریشن بھی ہو رہا ہے، لہٰذا قانون کی حرکت مزید تیز ہوئی، پاکستان میں ایم کیوایم کے فاروق ستار سمیت بعض اہم رہنماؤں کو گرفتار کرلیا گیا ، کچھ دیر بعد رہا کردیا گیا۔ اگلے روز فاروق ستار نے اپنی پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ اب فیصلے پاکستان میں ہونگے، الطاف حسین کا کردار بحیثیت بانی کا رہے گا۔ اس بیان کو اگرچہ لوگوں نے سنجیدگی سے نہیں لیا، مگر جب کراچی اور حیدرآباد سے ’قائد تحریک‘ کی قدِآدم تصاویر اترنا شروع ہوئیں تو جانا گیا کہ اب کسی حد تک ایم کیوایم نے اپنے قائد کے بغیر ہی جینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ایم کیوایم کے مرکز نائن زیرو اور کراچی کے دیگر مقامات سے بھی یہ بورڈ اور تصاویر اتار دی گئیں۔ حیدرآباد میں ’مُکّا چوک سے نہ صرف تصاویر ہٹائی گئیں، بلکہ چوک کا نام بھی تبدیل کر کے لیاقت علی خان چوک رکھ دیا گیا۔ ایک نسل جوان ہو چکی تھی، جو اپنی پیدائش سے اب تک الطاف حسین کی تصویروں کے بڑے بڑے بورڈ دیکھتی آئی تھی، ان کے لئے یہ ایک تاریخی واقعہ ہے۔

ایم کیوایم کے قائد کا ایک عرصہ سے یہ طریقہ چلا آرہا تھاکہ وہ اپنی تقریر کے دوران اچانک پارٹی سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیتے، اس دوران وہ اپنے ہنر کی بنا پر کبھی رو دیتے، کبھی جذباتی ہو جاتے اور کبھی مظلوم بن جاتے۔ اعلان کے بعد وہ خاموش ہو جاتے تاکہ وہ اپنے جانثاروں کے ردّ عمل سے لطف اندوز ہو سکیں، جانثار اُن کی توقع کے عین مطابق گڑ گڑا کر اُن سے التجائیں کرتے، درخواستیں کرتے، ہاتھ جوڑتے، پاؤں پڑتے کہ مرشد ایسا مت کیجئے، ہم آپ کے بغیر جی نہیں سکیں گے، ہمارے سب کچھ آپ ہی ہیں، آپ ہیں تو تحریک ہے، آپ ہیں تو ہم ہیں، وغیرہ وغیرہ، اور آخر میں قائد ازراہِ کرم چند منٹ پہلے دیا ہوا استعفیٰ واپس لے کر اپنے جانثاروں کو خوش کردیتے۔ یہ واردات ایک مرتبہ نہیں ہوئی۔ اب جبکہ استعفیٰ بھی نہیں ہوا، اور قائد کا پارٹی سے عمل دخل ختم کردیا گیا ہے۔ عملی طور پر یہ سب کچھ ہو چکا ہے، مگر اب بھی یہ ایک کہانی ہی لگتی ہے، جان چھڑکنے والے لوگ کس طرح اپنے قائد کی تصاویر اتروانے پر رضا مند ہوگئے، کیا محض ایک تقریر نے بیسیوں سالوں کی محبت کا خاتمہ کردیا؟ ایسی تو بہت سی تقریریں بھائیوں نے سن رکھی تھیں۔ دوسرا یہ کہ آیا ایک فرد میں ہی ساری برائیاں پائی جاتی تھیں، باقی پارٹی اور رہنما دودھ میں دُھلے ہیں؟
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472237 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.