کورم اور ذمہ داری!
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
پنجاب کے منتخب عوامی نمائندوں کا
اجلاس جاری ہے، ان معزز نمائندوں میں سے اکثر لاہور میں جمع ہیں، ممکن ہے
کچھ ضروری کاموں کی وجہ سے اسمبلی کے اجلاس میں آنے سے معذور ہوں، مگر حالت
یہ ہے کہ صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں کورم ٹوٹنے کی ہیٹرک ہو چکی ہے، گزشتہ
روز جب سپیکر ہال میں داخل ہوئے تو صرف سات ارکان موجود تھے، جن میں دو
خواتین اور ایک اپوزیشن رکن شامل تھا، تاہم اس وقت کوئی وزیر نہیں آیا تھا۔
آہستہ آہستہ رونق بڑھی تو کارروائی شروع ہوئی، تاہم ق لیگ کے ایک رکن نے
کورم کی نشاندہی کردی، جوکہ ٹوٹ پھوٹ چکا تھا، چنانچہ سپیکر نے اجلاس اگلے
روز تک ملتوی کردیا۔ مسلسل تین روز تک کورم ٹوٹنے سے اسمبلی کے چیف وہپ نے
بھی انگڑائی لی اور مسلم لیگ ن کے تینوں روز تک غیر حاضر رہنے والے ارکارن
کے خلاف کارروائی کا عندیہ دیا، کہا گیا کہ ان کی تنخواہوں اور مراعات سے
بھی تین دن کی کٹوتی کی جائے گی۔ یہ اپنے معزز منتخب نمائندوں کی سنجیدگی
کی مختصر سی جھلک ہے، یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا، یہ روایت ہے، جو اکثر دہرائی
جاتی ہے۔ صرف یہی نہیں، یہاں تودنگل بھی ہوتے ہیں، یہاں گالی گلوچ ہوتی ہے،
یہاں طعنے دیئے جاتے ہیں، یہاں جھوٹ بولے جاتے ہیں، یہاں ایسے وعدے بھی کئے
جاتے ہیں جو کبھی پورے کرنے کا ارادہ بھی نہیں ہوتا۔ سب کچھ کے ساتھ یہاں
جو کچھ بھی کیا جائے اس کی تنخواہ بھی ملتی ہے، اس کے عوض مراعات بھی ملتی
ہیں، اور استحقاق الگ حاصل ہوتا ہے ۔
اسمبلی کے کورم ٹوٹنے کے واقعات تو ریکارڈ پر ہونگے، مگر ایسی باتیں بہت ہی
کم ریکارڈ پر آتی ہیں، یا سال دو سال بعد بتائی جاتی ہیں کہ اتنے ممبران نے
ایک یا دو سال میں اسمبلی کے فورم پر ایک لفظ بھی اپنی زبان سے ادا نہیں
کیا، یہ بھی کہ بے شمار ارکان ایسے ہیں، جو اجلاس میں نہیں آتے مگر ان کی
تنخواہ اور مراعات میں سے کوئی کٹوتی وغیرہ نہیں ہوتی۔ اور یہ بھی کہ اپنے
بہت سے وزیر بھی اسمبلی کا رخ نہیں کرتے۔ کونسے سوال اور کونسے جواب؟ سوال
کرنے والے جواب کا انتظار کرتے ہیں اور جواب دینے والے یا تو تشریف ہی نہیں
لاتے اگر آتے ہیں تو جواب دینے کی بجائے کوئی بہانہ سازی کردیتے ہیں، اگلی
پیشی پڑ جاتی ہے۔ پنجاب اسمبلی میں تو اس کے قائد بھی کبھی کبھار ہی آتے
ہیں، سال بھر میں دو چار مرتبہ۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ فارغ ہی نہیں بیٹھے
ہوتے، انہیں اور بھی بہت سے کام کرنے ہوتے ہیں۔ اگر فارمولا یہی ہے کہ اس
سے اہم کام اور بھی ہوتے ہیں، تو وزیراور دیگر ارکان بھی اسی فارمولے پر
عمل کرتے ہیں، جب وزراء کو معلوم ہے کہ ان کے لیڈر نے نہیں آنا تو وہ بھی
نہیں آتے، اور جب ان کے ارکان کو علم ہے کہ ان کے وزراء نے نہیں آنا تو
ارکان بھی نہیں آتے۔
اسمبلی کے اجلاس میں لوگ کیوں نہیں آتے؟ یہ قابلِ غور مسئلہ ہے، اس پر بحث
ومباحثہ ہونا چاہیے، اگر اسمبلی کے سال بھر میں اجلاسوں (یا دنوں) کی تعداد
مقرر کر دی گئی ہے تو یہ کام کیا سوچ کر کیا گیا، جتنے روز کام کرنا طے ہے
یا اتنے دنوں کا کام نہیں ہوتا؟ کیا یہ اجلاس یا یہ دن صرف دیہاڑی لگانے کے
لئے مقرر کئے گئے ہیں، کہ کام تو دس روز کا ہے، اجلاس تیس روز ہوگا، گویا
بیس روز کے لئے اضافی مال بنایا جائے گا۔ ایسا بھی نہیں ہوتا کہ جو رُکن
جتنے دن غیر حاضر رہے گا، اس کی تنخواہ اور مراعات میں سے کٹوتی ہوگی، مگر
ایسے نہیں ہوتا۔ ستم یہ ہے کہ یہ لوگ کرتے کراتے کچھ نہیں، قومی خزانے پر
بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ یہ الگ بحث ہے کہ اسمبلیوں (خاص طور پر پنجاب اسمبلی)
میں کتنے ایسے لوگ ہیں جو ’’عام آدمی‘‘ کے زمرے میں آتے ہیں؟ یقینا ایسے
افراد کی تعداد ہاتھ کی انگلیوں تک ہی محدود ہوگی۔ جو لوگ اپنے الیکشن پر
کروڑوں روپے لٹادیتے ہیں، اسمبلی سے چند سو روپے روزانہ کے لئے بھی
بدعنوانی کے مرتکب ہوتے ہیں، جو ممبران غیر حاضر رہتے ہوئے بھی ٹی اے ڈی اے
وصول کرتے ہیں ، کیا وہ کرپشن کا ارتکاب نہیں کرتے؟ جیسے عوام ہیں ، ان کے
نمائندے بھی فطری طور پر انہی جیسے ہوتے ہیں، اس لئے عوام سے یہ توقع بھی
نہیں کی جاسکتی کہ وہ اپنے نمائندوں سے معلوم کریں کہ جناب ہم لوگوں نے آپ
کو اپنی نمائندگی کے لئے منتخب کیا تھا، نہ کہ عیاشیوں کے لئے۔مگر بات تو
وہی ہے، جیسے منتخب کرنے والے، ویسے منتخب ہونے والے اور ویسے ہی حکمران۔
|
|