خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیالکھیے!

کشمیرایک بار پھرتاریخ کے بدترین اور سیاہ دورسے گزررہاہے،گزشتہ پچاس سے زائد دنوں میں کم و بیش ستر لوگوں کی ہلاکت ، ہزاروں کے زخمی ہونے اورریاست کوسات ہزارکروڑروپے کازبردست نقصان ہونے کے باوجودحالات اب تک غیریقینیت کے شکارہیں۔اس سلسلے میں گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں کا موقف نہایت ہی گنجلک،پیچیدہ؛بلکہ قابلِ گرفت رہاہے۔دونوں ممالک کی حکومتیں اپنے یہاں کے حقیقی مسائل اور مشکلات سے آنکھیں میچ کراپنے اپنے عوام کوبے وقوف بناتی رہی ہیں۔ہندوستان کوکشمیر کی حقیقی اور زمینی صورتِ حال کا ادراک کرتے ہوئے وہاں امن و امان کے قیام کی فوری کوششیں کرنی چاہئیں؛لیکن ہمارے وزیراعظم یومِ آزادی کے موقع پرلال قلعے کی فصیل سے گلگت اور بلوچستان کے تئیں ہمدردی جتاتے نظرآتے ہیں،دوسری طرف پاکستان ہے،جو اپنے وجودکوسنبھال نہیں پارہاہے اورخودگزشتہ ماہ کی ابتدامیں ہی کوئٹہ میں ایک بدترین دہشت گردانہ حملے میں پچاس سے زائد وکلاکی ہلاکت ہوئی ،جس کے بعدسارے ملک میں دہشت و خوف کی نئی لہردوڑی ہوئی تھی اور نوازحکومت کے خلاف ایک احتجاجی ریلا آنے والاتھاکہ فوراً حکومت نے سیاسی چال چلی،کشمیر کا راگ الاپا،کشمیرمیں زخمی و ہلاک ہونے والے لوگوں کے تئیں اظہارِ یکجہتی کاناٹک کیا،حتی کہ 14اگست کوباقاعدہ کشمیرکی آزادی سے منسوب ایک خصوصی ٹرین چلائی گئی،وہاں کے عوام اسی سے خوش ہوگئے،انھوں نے اپنے مسائل کوبھول کر کشمیراور کشمیریوں کی حمایت میں نعرے لگائے،ٹی وی چینلوں پرزخمی بچوں اور بوڑھوں کی تصویریں دکھادکھاکرعوامی جذبات کوبرانگیختہ کیاگیا اور سوشل میڈیا پر ’انڈیا کی ایسی تیسی ‘کردینے کی قسمیں کھائی گئیں۔اب خبرآرہی ہے کہ پاکستان نے کشمیر کے مسئلے کو عالمی سطح پر اٹھانے کے لیے 22 ممبرانِ اسمبلی کاایک وفد بنایا ہے،جو مختلف ملکوں میں جاکرکشمیرکے مسئلے کاحل تلاش کریں گے۔

اسی طرح ہمارے وزیر اعظم نے بھی بعض وزراکے خرافاتی سیاسی آئیڈیاپرعمل پیراہوتے ہوئے یومِ آزادی کے موقع پر کی جانے والی تقریرمیں بجاے اس کے کشمیر یوں کے تئیں اظہارِ ہمدردی کرتے،وہاں کی صورتِ حال پر افسوس ظاہرکرتے،فوجی اہلکاروں کے ہاتھوں شہید ہونے والے معصوم شہریوں کے اہلِ خانہ سے ہمدردی جتاتے اور وہاں کے حالات کوقابومیں کرنے کا وعدہ کرتے،انھوں نے گلگت اور بلوچستان کی خود مختاری کا ذکر چھیڑدیا،مودی نے بھی ٹھیک وہی پالیسی اپنائی،جواُدھرنوازشریف نے اپنائی تھی،اُنھوں نے ہندوستان کو کشمیر پرگھیرنے کی کوشش کی،تواِدھراِنھوں نے بلوچستان پرپاکستان کو گھیرنے کاحربہ اختیارکیا،افسوس ہے کہ اس حوالے سے دونوں ملکوں کے میڈیاکا رول بھی نہایت ہی مذموم اور شرم ناک رہا،ہندوستانی چینلوں نے پاکستان کے تئیں مودی کے مبینہ ’جارحانہ‘رویے کوگلاپھاڑپھاڑکرسراہا،گلگت اور بلوچستان میں ڈھونڈ ڈھونڈکرایسے خودساختہ سیاسی لیڈرنکالے گئے جومودی کی شان میں قصیدہ خوانی کرتے نظرآئیں،ایسے مناظرتلاش کیے گئے،جہاں پاکستانی جھنڈے کی بے حرمتی کی جارہی تھی اور’پاکستان مردہ باد‘کے نعرے لگائے جارہے تھے،جبکہ دوسری طرف پاکستانی نیوزچینلوں نے بھی ٹھیک یہی رویہ اپناتے ہوئے کشمیر میں اُن نوجوانوں کی نشان دہی کی،جوپاکستانی جھنڈے لہرا رہے اور ہندوستان کے خلاف نعرے ماررہے تھے۔

انسان فطری طورپر جذبات کے تلاطم میں بہہ جاتاہے؛چنانچہ جب یہ چینلز اور سسپنس پھیلانے والے ذرائعِ ابلاغ نہایت ہی ’دھماکہ خیز‘اندازمیں اس قسم کی خبریں بیان کرتے ،پھراُنھیں پھیلاتے اورزبردستی لوگوں کوبارباردکھاتے ہیں،توپھردونوں ملکوں کے عوام کی ایک بڑی تعدادکے جذبات میں اُبال پیداہوتاہے،ان کی حب الوطنی اچانک جوش زن ہوجاتی ہے؛لیکن وہ چوں کہ زمینی سطح پر کچھ کرتوسکتے نہیں،توموجودہ اتصالاتی انقلاب کے دورمیں انٹرنیٹ پرہی انڈیاپاکستان کی جنگ چھیڑدیتے ہیں اور سوشل میڈیاسے ہی دونوں ملکوں کے سورمااپنے اپنے ملک کی سرحدوں کاتحفظ کرتے نظرآتے ہیں۔ گویا سیاست داں ایک ماحول بناتے ہیں،میڈیاوالے اس کوزہرناکی ’بخشتے‘ ہیں اورعوام مختلف ذرائع سے ان سے متاثرہوجاتے ہیں،پھربات میں سے بات نکلتی ہے،بحث و تکرارکے نئے چشمے پھوٹتے ہیں،اربابِ سیاست اپنی زبان درازی کے جوہرآزماتے ہیں،اربابِ صحافت اپنی صحافیانہ مہارت کوبڑی عیاری سے کیش کرانے کی مہم میں لگ جاتے ہیں اورعوام کابدستورکچومرنکلتارہتاہے۔

فی زمانناکسی بھی قومی یابین الاقوامی مسئلے پررائے عامہ ہموارکرنے کا یہی طریقہ رائج ہے،البتہ کشمیر کے مسئلے پر ایسا کرنے سے سب سے زیادہ کشمیریوں کونقصان پہنچ رہاہے،پاکستان کے اظہارِ دوستی سے توکچھ حاصل ہوتانہیں،البتہ اس کے برخلاف ہندوستانی میڈیاوہاں کے نوجوانوں،بچوں اور ان لوگوں کوبھی جواپنے دفاع کے لیے پتھر اٹھاتے ہیں، آتنک وادیوں کی لسٹ میں ڈال دیتاہے اور جب وہاں کی پولیس اور فوجی اہل کارکسی حقیقی انتہاپسندیادہشت گردکومارتے ہیں،تب توپورے ملک میں ان کی بہادری کی جے جے کار ہوتی ہی ہے؛لیکن اس کے ساتھ ساتھ معصوم شہریوں کوقتل کرنے پربھی ان کی پیٹھ تھپتھپائی جاتی ہے۔قومی میڈیانے کشمیر کے تعلق سے ایک ایساماحول بنایاہواہے کہ ملک کے دوسرے خطوں کے ہندووں ہی نہیں،بہت سے مسلمانوں کوبھی یہ لگتاہے کہ سارے کشمیری ’دہشت گرد‘ہیں اور ہمارے ملک کی فوج ان کوبڑی جدوجہدکے بعدپکڑتی اورپھر مارتی ہے،اب ایک سوپچیس کروڑکی آبادی والے ملک میں ہر شخص انٹرنیٹ اور سوشل میڈیاپرسرگرم تورہتانہیں کہ وہ دیکھ سکے کہ کس طرح ایک فوجی کسی کشمیری کے گھرمیں گھستاہے اوردنادن گولی چلا دیتا ہے ،کس طرح ایک چودہ سالہ معصوم بچی کی آنکھ پیلیٹ گن سے ضائع کردی جاتی ہے اورکس طرح ایک لیکچررکومارمارکرہلاک کردیاجاتاہے ۔

اب جبکہ معاملہ حد سے آگے بڑھ چکاہے اور ہندوستان جوں جوں کشمیریوں کوقابوکرنے کے لیے فوجی طاقت کاسہارالے رہاہے،اُسی قدرحالات اندوہ ناک ہوتے جارہے ہیں،توصوبائی حکومت کے ساتھ ساتھ مرکزنے بھی کچھ نئے اقدامات کا اشارہ دیاہے۔ہفتہ کے دن جموں وکشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے وزیر اعظم سے مل کر اس مسئلے کے حل کے تعلق سے گفت و شنید کی اوراس کے بعدانھوں نے اپنے اخباری بیان میں کہاکہ کشمیرمیں امن و امان کی بحالی کے لیے ان کی حکومت کشمیر کی تمام جماعتوں سے بات کرنے کے لیے تیارہے،ساتھ ہی انھوں نے اُن علیحدگی پسندلیڈروں پرنشانہ بھی سادھا، جو نوجوانوں کو فوجی کیمپوں پرسنگ باری کے لیے برانگیختہ کرتے ہیں۔اسی طرح اتوارکے دن مسٹرپی ایم نے بھی اپنے ’من کی بات‘میں کشمیرپربات کی،اس سلسلے کی گزشتہ گفتگومیں چوں کہ ان کی باتوں میں کشمیر کاذکرنہ آنے سے سابق وزیر اعلیٰ جموں وکشمیرعمرعبداﷲ نے مایوسی اور افسوس کا اظہار کیاتھا،اس کے علاوہ حالیہ دنوں میں کشمیری اپوزیشن جماعتوں کے وفدکے علاوہ خود وہاں کی سی ایم نے بھی ان سے ملاقات کرکے مسئلے کی سنگینی پر توجہ دلائی تھی،شاید اسی وجہ سے اب کی بار پی ایم نے کشمیرکے مسئلے پربھی بات کی ہے،انھوں نے جہاں یہ کہاکہ کشمیر میں چاہے کسی فوجی اہلکارکی ہلاکت ہویاعام شہری کی،بہردوصورت نقصان ہندوستان کا ہوتاہے اورہندوستانی ہی مرتاہے،وہیں پی ایم نے بھی کشمیرکی بدامنی وانارکی کاجواب دہ اُن عناصرکوٹھہرایا،جومبینہ طورپرکشمیری نوجوانوں کو پتھر اٹھانے پراکساتے ہیں۔اس کے علاوہ وزیر خزانہ ارون جیٹلی،وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ،بی جے پی صدرامت شاہ وغیرہ کی کشمیر کے مسئلے پر ایک میٹنگ بھی ہوئی ہے،جس کے بعدیہ فیصلہ کیاگیاہے کہ آنے والے ماہ میں کشمیرکے مسئلے پرکشمیریوں سے بات چیت کے لیے ایک کل جماعتی وفدکشمیرکا دورہ کرے گااوروہاں متعلقہ فریقوں سے مذاکرات کرکے صورتِ حالات کوکنٹرول کرنے اور وادی میں امن بحالی کی سمت میں پیش رفت کی جائے گی۔

حالاں کہ زبانی طورپرساری سیاسی پارٹیاں،حتی کہ کشمیر کی علیحدگی پسند جماعتیں اور پاکستان بھی یہی مانتے رہے ہیں کہ مسئلۂ کشمیر کادائمی اور درست حل بات چیت اور مذاکرات سے ہی ممکن ہے،مگر افسوس ہے کہ گزشتہ ستر سالوں میں اس ذیل میں کوئی سنجیدہ کوشش دیکھنے میں نہیں آئی۔اس حوالے سے اٹل بہاری واجپئی کوامتیازحاصل ہے کہ انھوں نے بی جے پی کی سابقہ حکومت کے دوران کشمیریت اورانسانیت کی بنیادپراس مسئلے کے حل کے لیے سنجیدہ اقدامات کی شروعات کی تھی اور خود کشمیری بھی ان کی پیش رفت سے خوش تھے،مگرپھراس کے بعدنیشنل کانفرنس-کانگریس کی حکومتوں میں ان کے شروع کیے گئے عمل کوپسِ پشت ڈال دیاگیاتھا،اب گزشتہ دوسال قبل جب دوبارہ بی جے پی مرکزمیں برسرِ اقتدارآئی تھی،توکشمیریوں میں پھرسے امید کی کرن جگی تھی ، انھیں لگتا تھاکہ شاید بی جے پی اٹل بہاری واجپئی کے نقطۂ نظرپرعمل پیراہوتے ہوئے مسئلۂ کشمیر کے حل کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے گی،وادی میں بی جے پی کی قابلِ ذکر انتخابی کامیابی اور پھرپی ڈی پی کے ساتھ مل کرحکومت کی تشکیل میں وہاں کے عوام کا تعاون بھی یقینی طورپرشامل تھا؛لیکن افسوس کہ حکومت نے اس حوالے سے کوئی قدم نہیں بڑھایا۔جولائی میں فوج کے ہاتھوں مبینہ حزب المجاہدین کمانڈربرہان وانی کی موت کے بعدجوشدت کا احتجاج بھڑکاہے اورجس پردوسرامہینہ مکمل ہونے جارہاہے،اس کے پسِ پردہ صوبائی ومرکزی حکومت کے تئیں کشمیری عوام اورنوجوانوں کاغم و غصہ بھی کام کررہاہے۔حکومتِ ہندکوچاہیے کہ اس مسئلے کوترجیحی بنیادپراورمکمل سنجیدگی سے حل کرنے کی سمت میں پیش قدمی کرے،اس تعلق سے ان تمام فریقوں سے بات چیت کی جائے،جویہ چاہتے ہیں کہ مسئلۂ کشمیرکاپرامن حل تلاش کیاجائے۔
Nayab Hasan
About the Author: Nayab Hasan Read More Articles by Nayab Hasan: 28 Articles with 25070 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.