گرایا جانا ایم کیوایم کے دفاتر کا!

کیا یہ خاموشی بھی کسی طوفان کا پیش خیمہ ہے، یا کسی گہری سازش کا حصہ، یا مصلحت کی انتہا؟ کہ سندھ بھر کے بڑے شہروں سے الطاف حسین کی تصاویر اتار پھینکی جائیں، اور کسی کونے کھدرے سے صدائے احتجاج بھی سامنے نہ آئے۔ بات بات پر شہر کو آگ لگا دینے والے کس طرح اس سانحہ عظیم پر خاموشی کی بُکل مارے باہمی سرگوشیوں میں گُم ہیں۔ ایسی انڈر سٹینڈنگ کبھی نہ دیکھی گئی تھی، ’’قائد‘‘ کے ایک اشارے پر مر مٹنے والے اسی سے لاتعلقی پر اترآئے ہیں، بھائی سے مرشد، مرشد سے قائد، قائد سے بانی اور بانی سے صاحب تک بات پہنچ چکی ہے۔ الطاف حسین تو اول روز سے ہی ایسا تھا، اب قوم کو احساس ہوگیا ہے تو اس پر دیر آید درست آید ہی کہا جاسکتا ہے۔ مگر کیا شہر سے بھتے خود الطاف وصول کرتا تھا، کیا ٹارگٹ کلنگ وہ اپنے ہاتھ سے کرتا تھا، کیا جلاؤ گھیراؤ فردِ واحد کا وطیرہ تھا، کیا کراچی کے امن کو تباہ کرنے کے لئے اس کی مضبوط ٹیم اس کے شانہ بشانہ نہ کھڑی تھی، کیا اس کی ملک دشمنی اور ’’را‘‘ سے تعلقات میں الطاف تنہا تھا؟ نہیں، ایم کیوایم کی قیادت کی اکثریت ان جرائم میں برابر کی شریک تھی، تو پھر ’’مائینس ون‘‘ پر کیسے کام چلایا جاسکتا ہے؟ پارٹی میں جو لوگ بھی جرائم کا ارتکاب کرتے رہے، ان کو ان کے کئے کی سزا ملنی چاہیے، ساری زندگی الطاف حسین کی پوجا کرنے والوں اور اس کے اشاروں پر ناچنے والوں کو کس طرح گنگا نہلایا جاسکتا ہے؟

یہی خاموشی ایم کیوایم کے متواتر دفاتر گرانے پر بھی کسی حد تک قائم تھی، اب ایم کیوایم کے نئے پاکستانی قائد فاروق ستار نے کچھ احتجاج کیا ہے۔ الطاف حسین کے حالیہ نعروں اور بیانات کے بعد تک الطاف کا دم بھرنے والے فاروق ستار نے نہایت احتیاط کے ساتھ اپنے آپ اور اپنی قیادت کو بچانے کا بندوبست کرلیا ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ ’اب بات برداشت سے باہر ہو چکی ہے‘۔ اسی رویے کو سفید جھوٹ کہتے ہیں، یہ لوگ آغاز سے ہی اسی قسم کی باتیں سنتے آئے ہیں، انہی کو برداشت کرتے آئے ہیں، اور اب بھی برداشت کر رہے تھے کہ اچانک تبدیلی آگئی۔ اب بھتہ خور قوم کے خدمتگار بن گئے، قاتل غمخوار قرار پا گئے۔ دوسری طرف رینجر ہے کہ چُن چُن کر ’’را‘‘ کے ایجنٹ تلاش کر رہی ہے، گلیوں محلوں سے نکال رہی ہے اور اسے حُسنِ اتفاق ہی قرار دیا جائے کہ ان ایجنٹوں کا تعلق انہی خادموں اور غمخواروں کی پارٹی سے ہی ثابت ہو رہا ہے۔ فلاں لنگڑے، فلاں کالے، فلاں موٹے کا تعلق کس پارٹی سے تھا، کون کراچی کے لئے دہشت کی علامت بنے ہوئے تھے؟ ایم کیوایم کے دفاتر گراتے ہوئے یہ قرار دیا جارہا ہے کہ وہ غیر قانونی تھے، نہ جانے وہ غیر قانونی جگہ پر تعمیر کئے گئے تھے، یا ان کی تعمیر غیر قانونی طریقے سے ہوئی تھی، یعنی منظوری وغیرہ نہیں لی گئی تھی، گزشتہ تین دہائیوں میں یہ دفاتر تعمیر کئے گئے، ان سالوں میں ہر لحاظ سے کراچی پر ایم کیوایم کا ہی راج تھا، سینٹ، قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلی اور مقامی حکومت، سب ہی ان کے قبضہ قدرت میں تھے، تب تو ہونے والا ہر کام ’قانونی‘ ہی تھا۔ یہ دفاتر کیسے غیر قانونی رہ گئے؟

ان دفاتر کا گرایا جانا ایک غیر ضروری عمل ہے، اس پر مختلف طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں نے حیرت کا اظہار کیا ہے، کہ اس کام کی ضرورت ہی کیا تھی؟ کیا دفاتر گرانے سے پارٹیاں بن یا بگڑ سکتی ہیں؟ اگر نہیں تو پھر ایم کیوایم کے دفاترکیوں گرائے جارہے ہیں۔ ویسے تو یہ عام خیال پایا جاتا ہے ، کہ ان دفاتر کو گرانے کی بجائے یہاں ہسپتال، لائبریریاں اور ڈسپنسریاں وغیرہ بنائی جاسکتی تھیں، مگر اس خیال کو تقویت خود ایم کیوایم کے فی الحال نئے قائد نے بہم پہنچائی، اور انہی چیزوں کے قیام کی بات کی جن کا اوپر ذکر آیا ہے۔ ممکن ہے اس طرف صوبائی حکومت یا رینجر کا دھیان نہ گیا ہو، یہ کام ابھی جاری ہے، جو بچ رہے ہیں ان کے بارے میں ہی سوچ لیا جائے، وہاں کوئی تعمیری کام ہو سکتا ہے۔ ویسے دفاتر گرائے جانے کے موقع پر چیزوں کی لوٹ مار کے وقت کچھ کارکن آپس میں لڑ بھی پڑے۔ تاہم اس منظر سے یہ بات ضرور سامنے آتی ہے کہ عوام کی ایم کیوایم سے حقیقی محبت کی سطح کیا تھی۔
 
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 428366 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.