لاپتہ افراد کا عالمی دن۔۔۔۔۔۔۔۔
(Hafeez Khattak, Karachi)
200سے زائد ممالک کی عالمی تنظیم اقوام
متحدہ کے زیر اہتمام لاپتہ افراد کا عالمی دن 30اگست کو منایا جاتا ہے۔ کسی
بھی یوم کو منانے کا مقصد بین الاقومی سطح پر یہی ہوتا ہے کہ اس دن کے
پیغام کو اہمیت دی جائے ، قومی ، بین الاقومی و عالمی سطح پر اس کو اہمیت
دی جائے اور اس ضمن میں عالمی قوتیں دیگر ممالک کے ساتھ مل کر ان مسائل کے
حل کیلئے ٹھوس منصوبہ بندی نہ صرف تحریری طور پر بلکہ اس پر عمل بھی کریں۔
لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے عالمی سطح پر ایک تنظیم 1981میں قائم ہوئی ۔
جبکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک اعلامیہ پر تحفظ گمشدگی تقریروں
سے او راس کے بعد پیش کی جاے والی قرارداد 47/133کو 18دسمبر 1992کو پیش
اورمنظور کیا گیا۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ لاپتہ افراد کا عالمی دن
30ممالک میں خصوصی طور پر منایا جاتا ہے یہ وہ ممالک ہیں کہ جن میں اس غرض
کیلئے وارداتیں بڑی مقدار ہوتی ہیں ۔ان 30ممالک سمیت بین الاقوامی سطح پراس
جرم کو ختم کرنے کیلئے ایسے قوانین بنائے گئے جن کا ادراک انسانی حقوق کی
تنظمیوں سمیت اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک بھی قبول کرچکے ہیں ۔ ہر رکن
ملک اس جرم کو اپنے ملک سے ختم کرنے کیلئے کوشاں ہیں تاہم یہ بھی ثابت ہوا
ہے کہ افراد کو لاپتہ کرنے کیلئے محدود پیمانوں سے لیکر بڑے انداز میں کئی
ممالک کے جرائم پیشہ افراد مل کر اپنے مقاصد کے حصول کیلئے اس طرح کے
اقدامات کرتے ہیں ۔ قیدیوں کی رہائی ، دولت کمائی سمیت اپنی نوعیت کے دیگر
مقاصد کے حصول کے بعد لاپتہ افراد کا پتہ کروادیا جاتا ہے ، انہیں مختلف
انداز میں عوام کے سامنے لایا جاتا ہے اور وہ افراد جن کا اپنے گھرانوں سے
اپنے خاندانوں سے کوئی رابطہ نہیں رہتا ہے اور اس کیفیت کے باعث وہ شدید
پریشانی کے عالم میں ہوتے ہیں ، اپنے پیاروں کی اس صورت میں سامنے آجانے پر
ان کی کیفیت ناقابل بیاں ہوتی ہے۔
پاکستان میں لاپتہ افراد کا ذکر جب اورجہاں ہوتا ہے وہ ذکر امنہ مسعود
جنجوعہ کے تذکرے کے بغیر ختم نہیں ہوپاتا۔ امنہ مسعود جنجوعہ جودس برسوں سے
زائد مدت سے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے تحریک برپاکئے ہوئی ہیں ۔ ا ن کی
کاوشوں کے باعث 800سے زائدلاپتہ افراد کا نہ صرف پتہ چلا بلکہ و ہاپنے
گھروں کو پہنچے ہیں اور ان دنوں وہ بخوشی اپنی زندگیوں کو اپنے خاندانوں کے
ہمراہ گذار رہے ہیں۔ امنہ مسعود جنجوعہ کی لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے
تحریک جاری ہے اور اس تحریک کو اس وقت تک جاری رکھی گیں جب تک ان کے شوہر
مسعود جنجوعہ سمیت ملک کے تمام لاپتہ افراد کا پتہ نہیں چل جاتا اور وہ سب
اپنے گھرو ں کو پہنچ جاتے۔
ڈیفنس ہیومن رائٹس آف پاکستان (DHRP)کے نام سے اپنی تحریک کے متعلق ان کا
کہنا ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف کے ابتدائی دور میں اک روز ان کے شوہر
مسعود جنجوعہ اپنے دفتر جانے کیلئے گھر سے نکلے ، تب سے آج تلک وہ واپس
نہیں لوٹے ۔ ان کا انتظار کیا ، وہ انتظار جب طویل ہوا تو پھر ان کی تلاش
کا آغاز ہوا ان کو تلاش کرنے کیلئے وہ اپنے گھر کی دہلیز سے باہرنکلیں ۔ دس
برس سے زائد وقت گذر گیا ہے لیکن ابھی تک انہیں اپنے لاپتہ شوہر کاعلم نہیں
ہوسکا ہے۔ اس تلاش کے سفر میں ان کا قافلہ بڑھتا گیا انہیں اس بات کا علم
ہوتارہا کہ لاپتہ فرد صرف ان کا ایک شوہر ہی نہیں بلکہ سینکڑوں دیگر افراد
بھی ہیں۔ جب انہوں نے اس ضمن میں قانون کا دروازہ کھٹکھٹایا تو ان کی اس
آواز میں سینکڑوں بلکہ ہزاروں دیگر مظلوموں کی آوازیں بھی شامل ہوئیں۔ ان
کا یہ بھی کہنا ہے کہ برسوں سے امریکہ کی جیل میں ناکردہ گناہوں کی سزا
پانی والی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کیلئے بھی سب سے پہلے انہوں نے ہی آواز اٹھائی
۔ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے اس سفر میں دشمنوں نے انہیں متعدد فون کالز
کیں اور انہیں اس سفر کو ختم کرنے کا حکم دیا تاہم انہوں نے بلا خوف و جھجک
اپنے سفر کوجاری رکھا اور ابھی تک جاری رکھا ہوا ہے ۔ لاپتہ افراد کی
بازیابی کیلئے بیسیوں مظاہرے کئے ، سیمینار کئے ، بھوک ہڑتال کیمپ منعقد
کئے جن میں بچے ، بوڑھے ، جوان ، مرد و خواتین سبھی شریک ہوا کرتے تھے ۔
ایسے ہی ایک کیمپ پر چند برس قبل پولیس نے زبردست تشدد کیا جس سے امنہ
مسعود جنجوعہ سیمیت سینکڑوں دیگر مظاہرین گرفتار ہوئے۔
ان کا اس حوالے سے یہ بھی کہنا ہے کہ تمام سیاسی ، غیر سیاسی ، سماجی،
مذہبی اور دیگر این جی اووز نے ان کی آواز میں اپنی آواز شامل کی ہے تاہم
یہ امر قابل افسوس ہے کہ وہی سیاستدان جب حکمران بن گئے تو انہوں نے ہمارے
مسائل کو حل کرنے کیلئے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ جس سے ہمیں سخت ذہنی کوفت و
تکلیف کا سامنا کرنا پڑا تاہم ہماری ہمت میں وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ
ہی ہوتا رہا ہے۔ 822سے زائد افراد جن کا پہلے کچھ پتہ نہ تھا ان کانہ صرف
پتہ چلا بلکہ وہ اپنے گھروں کو پہنچ گئے اور ان دنوں وہ اپنی زندگیاں آرام
و سکوں سے گذار رہے ہیں۔ امنہ مسعود جنجوعہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اپنے
مسائل کے حل کیلئے بین الاقوامی سطح پر ہونے والی سیمنار و کانفرنسوں میں
بھی شریک ہوتی رہیں ہیں۔ انہوں نے وہاں بھی اپنے مسائل کے حل کیلئے آواز
اٹھائی ۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم حکومت سے یہ بات کرتے ہیں یہ مطالبہ کرتے ہیں
کہ اگر ہمارے پیاروں نے کوئی غیر قانونی کام کئے ہیں تو انہیں پیش کرکے
قانون کے مطابق سز ادیں لیکن اگر ایسا کوئی معاملہ نہیں ہے تو انہیں باعزت
بری کردیں لیکن اب تک کسی حکومت نے ہمارے اس مطالبے کو پورا نہیں کیا۔ جس
کی وجہ سے لاپتہ افراد کے گھروالوں کو سخت تکالیف کا سامنا ہے۔
لاپتہ افراد کی بازیابی ازحد ضروری ہے ۔ اپنے عزائم کی تکمیل کیلئے افراد
کو اغوا کرکے لاپتہ کرنا اور انہیں طویل مدت تک پر تشدد کاروائیوں کے
گذارنا قابل مذمت ہے ، حکومت کو اس جرم کے خاتمے کیلئے اپنا کلیدی کردار
ادا کرنا چاہئے ۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا بیٹا جب طویل عرصہ اغوا
کے بعد لاپتہ رہتاہے ، سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کا بیٹا بھی اسی
صورتحال سے دوچاررہ کر بازیاب ہوجاتا ہے تو ایسی صورتحال میں مسعود جنجوعہ
کا اور اس جیسے دیگر سینکڑوں لاپتہ افراد کا کیونکر پتہ نہیں چل پاتا ۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا اغوا کے پانچ برسوں کے بعد پتہ چلتاہے کہ وہ
افغانستان کی جیل میں ہے اور وہاں سے انہیں امریکہ منتقل کر دیا جاتا ہے اس
کے بعد ان کے دونوں بچوں کوبھی پتہ چلا کر پاکستان مین ان کی نانی اماں کے
پاس بھیج دیا جاتا ہے جبکہ سب سے چھوٹے بچے کا ابھی تک کوئی پتہ نہیں چل
پاتاہے ۔ابھی تک وہ بچہ لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل ہے اور لاپتہ افراد
کی بازیابی کیلئے کوشاں مہم میں اس کی بھی تلاش جاری ہے۔
عالمی سطح پر لاپتہ افراد کا عالمی دن ان ممالک میں زیادہ اہمیت کا حامل ہے
جہاں یہ جرم عروج پر پہنچنے کیلئے آگے کی جانب بڑھ رہا ہے ۔ پاکستان جو کہ
ایک جانب دہشت گردی کی عالمی جنگ میں نمایاں کردار ادا کررہا ہے وہاں پر اس
جرم کو بھی قومی اور بین الاقوامی سطح پر آگے کی جانب بڑھایا جارہا ہے ۔
دشمنان ملک و ملت اپنے مذموم مقاصد کیلئے اس جرم کا سدباب کرتے ہیں اور
اپنے مقاصد کی تکمیل پر لاپتہ افراد کو رہا کردیتے ہیں اور اگر ایسا نہیں
ہوپاتا تو انہیں تشدد کے بعد ختم کر دیتے ہیں ۔ اس جرم کو ختم کرنے کیلئے
حکومت کو اپنا کردار مثبت انداز میں اٹھانا چاہئے ایسے اقدام میں امنہ
مسعود جنجوعہ سمیت سبھی لاپتہ افراد کے عزیز و اقارب ان کا ساتھ دیں
گی۔ایسے اقداما ت کے نتیجے میں لاپتہ افراد کی بازیابی کی تحریک بھی کسی
اور مثبت حکومتی اقدامات کا ساتھ دیتے ہوئے ملک و قوم کیلئے اپنا کردار ادا
کریگی ۔ |
|