انسان یا تو اپنے ذاتی تجربات سے سیکھتا ہے
یا دوسروں کے لیکن عمران خان کے حوالے سے یہ بات مسلسل غلط ثابت ہو رہی ہے۔
وہ نہ تو اپنے ذاتی تجربات سے سبق حاصل کر تے نظر ٓاتے ہیں اور نہ دوسروں
کے ۔ یوں لگتا ہے جیسے انہوں نے احتجاج ، احتجاج اور بس احتجاج کو ہی اپنا
منشور بنا لیا ہے ۔ یہ درست ہے کہ اپوزیشن کا کام حکومت وقت کو tough
timeدینا ہوتا ہے لیکن حکومت کو tough timeدینے کا proper forum پارلیمنٹ
ہوتا ہے نہ کہ سڑکیں ۔ اگر خان صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ وہ سڑکوں پر نکل کر
حکومت کو tough timeدے رہے ہیں تو یہ انکی غلط فہمی ہے ۔ سڑکوں پر tough
timeعوام کو faceکرنا پڑتا ہے حکومت کو نہیں کیونکہ سڑکیں تو بیچارے عوام
استعمال کرتے ہیں حکومت یا وزیر اعظم نہیں ۔ انہوں نے کہیں جانا ہو تو وہ
ہوائی راستے سے جاسکتے ہیں لیکن عام ٓادمی کے پاس تو سڑک یا پھر پیدل راستے
کے علاوہ کوئی optionنہیں ہوتااور جب سڑک بند ہوجاتی ہے تو پھر اسے tough
timeدیکھنا پڑتا ہے ۔ خان صاحب نے شاہراہ دستور پرجو دھرنا دیا تھا اس سے
نواز شریف کو تو کوئی خاص tough timeنہیں دیکھنا پڑا تھا البتہ عوام کو
خاصی مشکلات ہوئیں تھیں اور اسلام ٓاباد کے شہریوں نے اسے زیادہ پسند نہیں
کیا تھا۔
احتجاجی سیاست کی عمر:
پاکستان کی تاریخ احتجاجی سیاست سے بھری پڑی ہے ۔ ایوب خان کے خلاف احتجاج
سے لیکر بھٹوکے خلاف احتجاج تک ، نوے کی دہائی میں بینظیر مرحومہ اور نواز
شریف کے درمیان چپقلش سے ظالموں قاضی ٓارہا ہے کے نعروں تک اور گو مشرف گو
سے لیکر گو نواز گو تک ، تاریخ کے اوراق میں بہت کچھ درج ہو چکا ہے ۔ اس
تاریخ سے ایک ہی سبق حاصل ہوتا ہے کہ احتجاجی سیاست کی عمر بہت تھوڑی ہوتی
ہے ۔ نہ تو اس سے کوئی دیرپا تبدیلی ٓاتی ہے اور نہ ہی وہ مخصوص مقاصد حاصل
ہوتے ہیں جنکے لئے احتجاج کیا جاتا ہے ۔ عمران خان کی سونامی اوراحتجاجی
دھرنے کی عمر کتنی تھی صرف 120دن اور کیا اس سے وہ تبدیلی ٓائی جس کا خواب
عمران خان نے عوام کو دکھایا تھا؟ کیا وہ اس دھرنے کے مخصوص مقاصد جن میں
نواز شریف کا استعفیٰ سرفہرست تھا حاصل کر سکے اور کیا اب جو احتجاج وہ
کرنے جا رہے ہیں اسکے مقاصد حاصل کر سکیں گے ؟
صادق اور امین :
عمران خان کے بعقول نواز شریف صادق اور امین نہیں رہے کیونکہ انہوں نے عوام
سے جھوٹ بولا، چلئیے خان صاحب کی بات مان لیتے ہیں لیکن پھر خان صاحب کو اس
بات کا بھی جواب دینا ہوگا کہ وہ کئی مہینوں تک ہر جگہ عوام سے یہ کہتے رہے
کہ نجم سیٹھی نے الیکشن میں پینتیس پنچر لگائے اور اس ایک جملے پر انہوں نے
پورے پاکستان کو سر پر اٹھائے رکھا اور پھر حامد میر کے پروگرام میں خود
اعتراف کیا کہ یہ ایک سیاسی بات تھی، تو کیا عمران خان صادق اور امین رہے؟
پاکستان کی کوئی سیاسی پارٹی یا سیاستدان ایسا نہیں جس پر عمران خان نے
الزام تراشی نہ کی ہو ۔ مگر ٓاج تک وہ کوئی ایک الزام بھی ثابت نہ کر سکے
۔اور جب کوئی الزام ثابت نہیں ہوسکا تو اسکا مطلب یہ ہوا کہ عمران خان نے
جھوٹ بولا ، تو کیا وہ صادق اور امین رہے ؟
امانت و دیانت:
قائد اعظم سے کسی نے کہا کہ جناب گاندھی کانگرس کا لیڈر ہے وہ فرسٹ کلاس
میں سفر کرتا ہے ٓاپ بھی مسلم لیگ کے لیڈر ہیں ٓاپ اکانومی کلاس میں کیوں
سفر کرتے ہیں ؟ قائد اعظم نے جواب دیا گاندھی فرسٹ کلاس میں کانگرس کے خرچے
پر سفر کرتا ہے میں اکانومی کلاس میں اپنے خرچے پر سفر کرتا ہوں کیونکہ
پارٹی کا پیسہ امانت ہوتا ہے جسے ذاتی استعمال میں نہیں لایا جا سکتا۔
عمران خان ہیلی کاپٹر میں سفر کرتے ہیں جس کے اخراجات پارٹی فنڈ سے ادا
کیئے جاتے ہونگے،تو کیا یہ پارٹی فنڈ میں خیانت نہیں؟ وہ کے پی کے جاتے ہیں
تو سرکاری گاڑیا ں اور پروٹو کول استعمال کرتے ہیں جن پر ٹیکس پئیر کا پیسہ
خرچ ہوتا ہے ، تو کیا وہ عوام کے پیسے میں خیانت کے مرتکب نہیں ہوتے ؟
کرپشن (بدعنوانی):
کرپشن کی اصطلاح صرف مالی بدعنوانی تک محدود نہیں ہے ۔ یہ ایک بڑی وسیع اور
جامع اصطلاح ہے ۔ایک غیر ملکی سکول ٹیچر سے گفتگو کا اتفاق ہوا تو باتوں
باتوں میں اس نے کہا کہ ٓاج میں نے سکول میں کرپشن کی ۔ میں نے پوچھا کہ
کیا کرپشن کی ، اس نے کہا ٓاج میں نے سکول ٹائم میں اپنی دوست سے skypeپہ
گپ شب لگائی ، تو میں نے کہا کہ اس میں کرپشن کیا ہے ۔جواب ملا میرا سکول
ٹائم بچوں کوپڑھانے کیلئے ہے دوستوں سے گپ شب لگانے کیلئے نہیں ۔ اگر میں
سکول ٹائم کو ذاتی استعمال میں لاتی ہوں تو میری نظر میں یہ کرپشن ہے ۔
عمران خان اور انکے 33پارٹی ممبران کو عوام نے پانچ سال کیلئے قومی اسمبلی
کا رکن منتخب کیا ۔ یہ پانچ سال کا وقت ان سب کے پاس عوام کی امانت تھا اور
ہے ۔ عمران خان اور انکے ساتھیوں کو یہ پانچ سال پارلیمنٹ کے اندر عوام کی
نمائندگی کرتے ہوئے ان کے حقوق کا تحفظ کرنا تھا لیکن عمران خان توپارلیمنٹ
میں جاتے ہی نہیں توکیا وہ بدعنوانی کے مرتکب نہیں ہو رہے ؟ بطور رکن قومی
اسمبلی یہ بات ان کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ اسمبلی کی کاروائی میں حصہ
لیں اور قانون سازی کے عمل کو ٓاگے بڑھائیں ، کیا وہ اپنے فرائض منصبی ادا
نہ کرکے بدعنوانی کے مرتکب نہیں ہو رہے ؟کیا وہ عوام کو بتانا پسند کریں گے
کہ انہوں نے یا انکی پارٹی نے اسمبلی میں کتنے بل پیش کیئے ؟کتنی قانون
سازی کروائی یا کرانے کیلئے حکومت پر زور ڈالا؟کیا انہوں نے الیکٹورل
ریفارمز کرائیں ؟کیا بے نامی ، دوہری شہریت ، ٹیکس چوری ، سیاست اور
کاروبار کو الگ کرنے کیلئے کوئی ٹھوس قانون بنوانے میں کامیاب ہوئے ؟ اور
وہ جس شیڈو کیبنٹ یا منسٹرزکا اعلان عمران خان نے کیا تھا ، وہ قدھر گئے ؟
پاناما لیکس:
پاناما لیکس پر دائرپیٹیشن اگلے ہی دن رجسٹرار سپریم کورٹ نے یہ اعتراض لگا
کرخارج کردی کہ یہ پیٹیشن عدالت عظمیٰ سے مذاق کے مترادف ہے ۔ گو کہ پی ٹی
ٓائی اسکے خلاف اپیل دائر کر سکتی ہے لیکن کیا اس سے یہ بات واضح نہیں ہوتی
کہ عمران خان کے سیاسی اور قانونی مشیر خوامخواہ میں عمران خان کی جگ
ہنسائی پر تلے ہوئے ہیں اور کیا خود عمران خان کو یہ بات سمجھ میں نہیں
ٓارہی کہ اگر عدالت اس معاملے کو take upکر بھی لے تو اس کا انجام الیکشن
دھاندلی کیس سے زیادہ مختلف نہیں ہوگاتو ایک ایسی futile exerciseکرنے کی
کیا ضرورت ہے جس میں ناکامی نوشہ دیوار ہو ؟
کیا حکومت گرانے میں عوام کا کوئی فائدہ ہے ؟
موجودہ حکومت کو تین سال سے زائدکا عرصہ ہوچکا ہے اور ڈیڑھ پونے دو سال اور
باقی ہیں ، کیا اس وقت حکومت کو گرانے سے عوام کو کوئی فائدہ ہوگایا خود
عمران خان اور اسکی پارٹی کو کو ئی فائدہ ہوگا؟کیا نئے الیکشن پر جو
اخراجات ٓائیں گے انکا بوجھ عوام پر نہیں پڑے گا ؟دوسراکیا عمران خان یہ
سمجھ رہے ہیں کہ ادھر یہ حکومت گری ، اودھر نئے الیکشن ہوئے اور پی ٹی ٓائی
جیت کر حکومت میں ٓاجائے گی ؟اگر وہ ایسا سمجھ رہے ہیں تو پھر معذرت کے
ساتھ یہ کہونگا کہ انہیں اپنی سوچ پر نظر ثانی کر نی چاہیے ۔اس وقت موجودہ
حکومت کو گرانے میں نواز شریف کا فائدہ ہے عمران خان کا نہیں کیونکہ نواز
شریف کی حکومت نے عوام سے بہت سارے وعدے کیئے ہیں خاص طور پر 2018تک لوڈ
شیڈنگ کے خاتمے کا وعدہ اگر انہیں قبل از وقت گھر بھیج دیا گیا تو وہ سیاسی
شہید کہلائیں گے اور اگلے الیکشن میں پھر یہ دہائی دیتے پھریں گے کہ ہمیں
تو وقت سے پہلے نکال دیا گیا ورنہ ہم ملک کو بجلی کی قلت سے پاک کر دیتے ۔
خان صاحب کو 2018تک صبر کر لینا چاہیے تاکہ اس حکومت کے دعووں کے پول کھل
کر عوام کے سامنے ٓاسکیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ خان صاحب نواز شریف کو safe
exitدینا چاہتے ہیں ۔
باتیں ارسطو جیسی اور عمل میکیاولی جیسا:
ارسطو کے فلسفے میں بنیادی بات یہ ہے کہ ایک مثالی ریاست میں کیا ـ''ہونا
چاہیے'' جبکہ میکیاولی کافلسفہ ریاست میں کیا ''ہو رہا ہے'' کے گرد گھومتا
ہے ۔ وہ ارسطو کی طرح ریاست کو اپنے تصور کی ٓانکھ سے نہیں دیکھتا بلکہ
حقیقت میں ریاست جیسی ہے اور اس میں جو کچھ عملی طور پر ہو رہا ہے اسی کو
اہمیت دیتا ہے ۔ وہ یہ کہتا ہے کہ انسان کو ویسا ہی کرنا چاہیے جیسا سب
کرتے ہیں۔عمران خان کی باتیں سنیں تو وہ ارسطو کی طرح ایک مثالی ریاست کا
خاکہ پیش کرتے ہیں جبکہ انکے عمل کو دیکھیں تو اس میں میکیاولی کے نظریات
کی جھلک نظر ٓاتی ہے ۔ عمران خان ایک تبدیلی ، ایک مختلف ideologyاور سیاست
کا نعرہ لگاتے ہیں لیکن انکی عملی سیاست کو دیکھیں تو یوں لگتا ہے کہ وہ
بھی پاکستان کی روائتی سیاست سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے ۔ پاکستان کی
روائتی سیاست جلاؤ گھراؤ اور احتجاج پر مبنی ہے اور اب خان صاحب بھی اسی کی
تصویر نظر ٓاتے ہیں ۔ سوال پیدا ہوتا ہے جب عمران خان بھی دوسرے روائتی
سیاستدانوں کی طرح عمل کریں گے تو پھر ان میں اور دوسروں میں کیا فرق رہ
جائے گا اور جب کوئی فرق نہیں رہ جائے گا تو پھر عوام عمران خان کو کیوں
منتخب کریں گے؟ محسن نقوی نے کیا خوب کہا تھا ؛ چل پڑا ہو ں میں زمانے کے
اصولوں پہ محسن ؛ میں اب اپنی ہی باتوں سے مکر جاتا ہوں ۔ |