چین کے سب سے بڑے دریا پر ایک پل بنایا
گیا جو پہلے ہی سیلاب کو برداشت نہ کرسکا اور ٹوٹ کر بہہ گیا۔ بہت سے لوگ
مارے گئے، اربوں کی جائیداد، فصلیں، گھر، مویشی پانی کی نظر ہوگئے۔ ملکی
قیادت نے جائے وقوعہ کا دورہ کیا اور حکم دیا کہ اگلے اتوار والے دن پل کی
تعمیر میں حصہ لینے والے تمام انجنیئرز و دیگر اسٹاف اکھٹا ہوجائیں تاکہ اس
بات کا تعین کیاجاسکے کہ آخر یہ پل کیوں ٹوٹ گیا۔ چنانچہ متعلقہ سٹاف جن کی
تعداد100کے قریب تھی اکھٹا ہوگیا سب نے تقاریر کیں اور پل ٹوٹنے کی ذمہ
داری ایک دوسرے پر ڈالتے رہے۔ ملکی قیادت سب کی تقاریر سنتے رہے۔ اس اجلاس
میں متاثرین پل کے عزیز و اقارب ، لواحقین کو بھی مدعو کیا گیا تھا ۔
تقاریر کے بعد قیادت نے کہا کہ تمام ذمہ داران ایک لائن میں کھڑے ہوجائیں۔
قیادت نے سو بندوق بردار بلائے اور تمام کو شوٹ دیاکردیا گیا اس واقعہ کے
بعد چین میں کرپشن کی سطح بہت کم ہوگئی۔ چائنہ اور دیگر کئی یورپی ممالک
میں کرپشن جن میں مالی بدعنوانی کے علاوہ رشوت، ملاوٹ، دھوکہ دہی، غلط
بیانی، اقرباء پروری کی قطعا کوئی گنجائش نہیں ہے جبکہ ہمارے ملک پاکستان
میں اگر اسکے الٹ کہاجائے کہ یہاں پر ایمانداری کی بالکل گنجائش نہیں ہے تو
بے جا نہ ہوگا۔ ہمارے سسٹم میں کسی ایماندار آدمی کا چلنا اب تقریبا ناممکن
ہوگیاہے ۔ ایمانداری سے کام کرنے والے کو مختلف القابات اور طعنوں سے نوازا
جاتاہے۔ اسکے خلاف تمام سسٹم میں موجود کرپٹ عناصر اسطرح گھیرا تنگ کرتے
ہیں کہ اس کیلئے سانس لینا مشکل ہوجاتاہے۔ وہ یا تو پھر ان ہی کے رنگ میں
رنگ جاتاہے یا خاموشی سے کنارہ کش ہوجاتاہے۔ آئے روز کرپشن کا جادو یہاں سر
چڑھ کر بول رہاہے بلکہ سرپٹ دوڑ رہاہے۔ لیکن اسکی روک تھام کس نے کرنی ہے ،
کوئی بھی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہے۔ ہمارے سیاستدان اور ان کی جماعتیں
خودکیونکہ کرپشن میں ملوث ہیں اسلئے کسی بھی جانب سے کوئی موثر آواز سنائی
نہیں دے رہی۔ ہمارے سیاستدانوں کے بارے میں آغا شورش کاشمیری نے کیا خوب
بات کہی تھی کہ (ہمارے ہاں لیڈر بنتے ہیں دولت کی فراوانی سے ، سرکاری کی
خوشنودی سے، وزارت کے راستے سے، کرسی کے فضل سے، غنڈوں کی رفاقت سے،
اخباروں کی پبلسٹی سے، ورکنگ جرنلسٹس کے قلم سے، حاکم کی چاپلوسی سے، اکابر
کی زریت سے، بادہ خوانوں کی چوکھٹ سے ، اسلام کی مجاوری سے) جسکے اسکے
برعکس دیگر ممالک میں بقول آغاشورش لیڈر بنتے ہیں نفس کی قربانی سے، دولت
کی ایثار سے، جان کے زیاں سے، خدمت کی راہ سے، علم کے کمال سے، نگاہ کی
بصیرت سے۔ جب ہمارے سیاستدانوں کی پرورش اور نشوونما ہی غلط بنیادوں پر
ہوتی ہے تو پھر ہم ان سے یہ امید رکھیں کہ وہ ملک سے کرپشن کے خاتمے کیلئے
اقدامات کریں گے دیوانے کا خواب لگتاہے۔ موجودہ دور میں عمران خان کرپشن کے
خلاف گذشتہ 3سالوں سے رونا رورہے ہیں لیکن انکا نشانہ صرف شریف برادران ہی
ہیں۔ انہیں زرداری دور کے علاوہ دیگر صوبوں کی کرپشن خاص کر KPKمیں ہونے
والی کرپشن نظر نہیں آتی ۔ جب اس حمام میں سب ننگے ہیں تو ہم اجتماعی طورپر
کرپشن کے خاتمے کی بات کریں کسی ایک فردیا جماعت کو ٹارگٹ کرنے کے مثبت
اثرات کی بجائے منفی اثرات پڑتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کی
ذات پہ کرپشن کا الزام کوئی نہیں لگا سکتاوہ خلوص کے ساتھ اسکا خاتمہ بھی
چاہتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا کرپشن صرف پنجاب میں ہی ہورہی
ہے۔ دیگر صوبے اور لیڈران اس سے مبرا ہیں۔ ان کے ارد گرد جو جماعتیں آج
ریلیوں میں شریک ہیں یا پانامہ لیکس کے بارے میں اتحادی ہیں جن میں طاہر
القادری، خورشید شاہ آج ارب پتی کیسے بن گئے۔ ان کے کیا ذرائع آمدن ہیں۔
عام لوگ جب ایسے لوگوں کو کرپشن کے خلاف جدوجہد میں شریک دیکھتے ہیں تو وہ
اسکا کوئی خاص اثر نہیں لیتے۔ عمران خان نے گذشتہ ہفتہ کو لاہور میں ریلی
کے دوران تقریر میں کہا کہ کرپٹ لیڈر اداروں کو تباہ کردیتاہے ۔ ادارے کرپٹ
ہوں تو ملک تباہ ہوجاتاہے۔ وزیراعظم خود کو بچانے کیلئے ملک کو تباہ کررہے
ہیں خود کو احتساب سے بچانے کیلئے دوسروں کو چور کہہ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا
کہ چئیرمین نیب نے کچھ نہیں کیا۔ ایف بی آرکے چیئرمین ہر ماہ کروڑوں روپے
دوبئی بھیج رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ان کے الزامات کی تفصیل بہت لمبی ہے۔ لیکن
دوغلی پالیسی دیکھیں کہ جب ان کی اپنی جماعت کے ایم این ایز اور ایم پی ایز
صوبہ KPKمیں کی جانے والی وزیراعلی اور وزراء کی کرپشن کی نشاندہی کرتے ہیں
تو انکے خلاف کارروائی تو کجا الٹا انہیں انتقامی کارروائی کا نشانہ
بنایاجاتاہے۔ ہماری اسی غیر مخلصانہ کوششوں اور تحریکوں، ریلیوں کے باعث
کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا۔ کرپشن میں آئے روز اضافہ ہورہاہے ہم سب کو
اخلاص کے ساتھ اسکے خاتمہ کیلئے سوچنا ہوگا۔ اخلاص کہاں سے لائیں اور ایسی
جماعت اور لیڈر کہاں سے لایاجائے جو عوام کی اس سلسلے میں قیادت کرے۔ دور
دور تک ہمیں ایسا بندہ اور جماعت نظر نہیں آئی اسکا مطلب یہ ہے کہ کرپشن کا
سیلاب یونہی ہمارے اداروں کو بہا کر لے جاتا رہیگا ۔ ہمارے حکمران اشرافیہ
امیر سے امیر اور غریب سے غریب ہوتا رہیگا۔ لیکن آخر ظلم و ناانصافی، کرپشن
پر مبنی یہ نظام کب تک چلے گا؟ یہ تو اﷲ کی ذات ہی جانتی ہے۔ ہمارا معاشرہ
سر سے پاؤں تک کرپشن کے ناسور میں ڈوبا ہوا ہے۔ چپڑاسی، ریڑھی والے، مزدور،
اساتذہ، تاجر، سماجی، فلاحی ادارے، ڈاکٹر، وکیل، جج، پولیس ، زکوۃ، بیت
المال کے ادارے ، این جی اوز ، کھیل کی تنظیمیں سب اسکا شکار ہیں۔ ہم حج و
عمرے، زکوۃ، تعلیم، صحت، پل، خوراک، ادوایت جیسے نازک معاملات میں بھی
کرپشن سے باز نہیں آتے۔ کرپشن کی روک تھام کے ادارے نیب، ایف آئی اے، انٹی
کرپشن، عدالتیں سب کرپشن کا شکار ہیں۔ لیکن ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہئے ۔
مایوسی کفر ہے اﷲ کی ذات نے ہر ظلم کے ادوار میں کلمہ حق بلند کرنے والا
کوئی نہ کوئی پیدا کیاہے۔ یہاں بھی پیدا ہوگا جب تک چائنہ اور دیگر مغربی
ممالک کی طرز پر یہاں ہر کرپٹ انسان ادارے کا احتساب نہیں ہوتا کرپشن کا
جادو سر چڑھ کر بولتا رہیگا۔ چند لاکھ نہیں تو چند ہزار لوگوں کو نشان عبرت
بناکر ان سے لوٹی ہوئی کھروں روپوں کی رقم، جائیداد برآمد کرنا پڑے گی۔
ہمارے مذہب میں رائج اسلامی سزائیں اگر یہاں نافذ ہوجائیں تو کرپشن کی سطح
کافی حد تک کم ہوسکتی ہے۔ لیکن یہ نظام نافذ کون کریگا؟ یہاں تو یہو د و
نصاری کی ہاں میں ہاں ملانے والے غلام ہم پر مسلط ہیں۔ ہماری عوام بھی انہی
کے طرز زندگی کو کامیابی سمجھ کر اندھے ہوکر ان کے پیچھے دوڑ رہی ہے۔ ہماری
انہی کوتاہیوں اور بداعمالیوں کے باعث ہمیں حکمران بھی ایسے ملے ہیں۔ ہم
تمام کو کرپشن، ناانصافی کے بڑھتے ہوئے رحجان کے سدباب کیلئے اﷲ تعالی کے
آگے اجتماعی استغفار کیساتھ ساتھ اپنی عملی زندگی میں اسوۃ حسنہ کو لانا
ہوگا تب جاکر ہمیں حکمران، افسران، ادارے ایسے میسر ہونگے جو متقی او
رپرہیزگار ہوں گے۔گذشتہ دنوں عمران خان کی ریلی کے درمیان ٹریفک جام اور
حکومت کی جانب سے کنٹینر کھڑے کرنے کے باعث ایک اور بچہ ہلاک ہوگیا۔ بچے کا
والد پولیس والوں کو دہائی دیتا رہا ، درخواست کرتا رہا لیکن کوئی شنوائی
نہ ہوئی۔ بچے کی ہلاکت کا حکومت اور ریلی میں شریک قائدین دونوں ذمہ دار
ہیں۔ دنوں کے خلاف ہماری عدلیہ ایکشن لیکر مقدمات درج کرے۔ یہ تماشہ یہاں
عرصہ دراز سے جاری ہے۔ ریلیوں، جلوسوں، جلسوں، احتجاج کیلئے عوام کی سڑکوں
کو بند کرکے لوگوں کو ناجائز تکلیف دینے کی اجازت اب بند ہونی چاہئے۔ یورپ
کی طرز پر مخصوص مقامات پر ایسے پروگرامز منعقد کئے جائیں لیکن یہ کرے گا
کون یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ |