گولیوں کی آوازوں نے ایک دم سےماحول کی
پرسکون فضا میں ارتعاش سا پیدا کرڈالا تھا ۔ فاطمہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی اور
ساتھ سوئے چار سالہ احمد کو اپنے سینے سے لگا لیا کہ بچہ کہیں ڈر نہ جائے ۔
سعید بھی ان آوازوں سے اٹھ کر بیٹھ گیا تھا ۔ یہ گولیوں کی آواز کوئی نئی
نہیں تھی فاطمہ اور سعید ان آوازوں کو اپنے بچپن سے سنتے چلے آرہے تھے
اور نہ جانے کتنی نسلوں نے ان آوازوں کو سننا تھا نہ جانے کتنے احمد کچی
نیند سے جاگنے تھے۔
فاطمہ اور سعید کا احمد بھی جاگ گیا تھا اور اپنی ماں کے سینے سے لگا اپنے
آپ کو محفوظ تصور کررہا تھا ۔ بچہ کی محفوظ پناہ گاہ اس کی ماں کی آغوش
ہی ہوتی ہے ۔ اس لیئے کشمیر کے نہ جانے کتنے سپوت محفوظ پناہ گاہ کی تلاش
میں دھرتی ماں کی آغوش میں جا سوئے تھے اب انہیں کوئی ڈر نہیں تھا لیکن
ابھی کچھ سر پھرے موجود تھے جو اس آغوش کو بچانے کے لیئے سر پہ کفن باندھے
گھروں سے نکلے ہوئے تھے ۔
گولیوں کی آوازیں اب آنا بند ہوگئیں تھیں لیکن اب بوٹوں کی دھمک سنائی دے
رہی تھی۔ جو آہستہ آہستہ معدوم ہوگئی ۔ لگتا ہے چلے گئے فاطمہ نے سرگوشی
کی ہاں سعید بولا کچھ ایسا ہی لگتا ہے چلو شکر ہے جلدی چلے گئے ورنہ سرچ
آپریشن کے بہانے معصوم لوگوں کو تنگ کرنے کا کوئی موقع یہ فوجی جانے نہیں
دیتے ۔ اب سوجاؤ
سعید نے لیٹتے ہوئے کہا اور فاطمہ نے بھی سکون سے احمد کو واپس بستر پر ڈال
دیا اور خود بھی لیٹ گئی ۔ ایک دفعہ آنکھ کھل جائے تو پھر مشکل سے ہی نیند
آتی ہے یہ مسلہ فاطمہ کے ساتھ بھی تھا سعید تو تھکا ہوا ہوتا تھا جلد
سوجاتا لیکن اب فاطمہ کا دوبارا سونا مشکل تھا وہ سوچ رہی تھی کہ آخر کب
تک ایسا ہوگا ہم نے اپنے بچپن کے دن بےفکری کے بجائے خوف کے سائے میں گذارے
تو کیا آج ہمارے بچے بھی اپنا بچپن اس خوف کی نظر کردیں گئے کیا وہ بچپن
کے مزوں کا لطف نہ لے سکیں گئے ۔ آنکھوں پہ ہاتھ رکھے سوچتے سوچتے نہ جانے
کب فاطمہ کی آنکھ لگ گئی مگر ایک دھب کی آواز سے اس کی آنکھ کھل بھی گئی
نہ جانے رات کا کون سا پہر تھا ۔ لیکن یہ آواز تو قریب سے آئی ہے ۔
ہمارےگھر کے صحن سے ۔اللہ خیر ۔ فاطمہ نے بستر سے اٹھتے ہوئے کہا اس کا
ارادہ اٹھ کر صحن میں جانے کا تھا کہ اچانک اس کو صحن میں رکھی چارپائی کی
آواز سنائی دی جیسے اس پر کوئی بیٹھا ہو
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |