ابررحمت اور شہباز زحمت

بارش رحمت بھی ہے اور زحمت بھی۔ گو زحمت وقتی ہوتی ہے اور رحمت لازوال۔ رحمت اﷲ کی طرف سے ہوتی ہے اور زحمت حکمرانوں کی نااہلی کی وجہ سے۔ اُس دن بھی رات بھر بارش ہوتی رہی۔ صبح مجھے پتہ تھا کہ بہت سی سڑکیں پانی سے بھری ہوں گی، مگر مجھے ایک ضروری کام سے جانا تھا، جس سے مفر ممکن نہیں تھا۔ اس لئے خراب موسم کے باوجود چل پڑا۔میں آبائی لاہور کا رہنے والا ہوں۔ میں ہی نہیں میرے آبا بھی یہیں کے رہنے والے ہیں۔ میری پیدائش، میرابچپن اور میری جوانی بھی اندرون شہر اور اس کے گرد و نواح ہی میں گزری ہے۔ میرا خیال تھا کہ مجھے لاہور کی سڑکوں کا اندازہ ہے کہ کہاں کتنا پانی کھڑا ہوگا؟ اس لئے بے فکر ہو کر چل پڑا لیکن کئی سالوں بعد اس علاقے میں بارش کے دوران جانے کا اتفاق ہوا تھا اس لئے کئی اندازے غلط ہو گئے۔ ماشاء اﷲ جناب شہباز شریف کے عہد میں چیزیں واقعی بہت تبدیل ہو گئی ہیں۔ پہلے پانی چند گنی چنی سڑکوں پر نظرآتا تھا، اب تو کوئی سڑک ایسی نظر نہیں آتی تھی کہ جونہر یا جوہڑ کی شکل اختیار نہ کر چکی ہو۔

شہباز شریف کے ابتدائی دور میں لاہور میں پانی چند مخصوص مقامات پر بہت زیادہ کھڑا ہوتا تھا۔ ان مقامات میں مزنگ چونگی اور لکشمی چوک بہت نمایاں جگہیں تھیں۔ ان دنوں شہباز شریف لمبے بوٹ پہن کر آجاتے، واسا کے دو تین افسر معطل کرتے، فوٹوسیشن ہوتا، خدمت گزار اور وفادار واہ واہ کرتے اور بارش کا موسم گزر جاتا۔اب وہ صورت حال نہیں، اب لمبے بوٹوں سے کام نہیں چل سکتا۔ اس لئے کہ اب شہر کا ہر گوشہ پانی کی زد میں ہے۔ شہر کی ہر گلی نہر اور ہر سڑک دریا کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اب لمبے بوٹ نہیں، موٹر بوٹ کی ضرورت ہے اور موٹر بوٹ مزید شرمندگی کا باعث ہوگی۔اسلئے میاں شہباز شریف بارش کے موسم میں شہر کا دورہ نہیں کرتے۔

ساٹھ کی دہائی تھی، میرے بچپن کا زمانہ تھا۔ میں مزنگ کے علاقے میں رہائش پذیر تھا۔ مزنگ میں واحد جگہ نور شاہ روڈ کا ایک چھوٹا سا حصہ ایسا تھا کہ جہاں پانی زیادہ کھڑا ہوتا تھا۔ بارش ہو رہی ہو، یا ہو چکی ہو، اگر پانی وہاں کھڑا ہے تو علاقے بھر کے بچے اُس بارش کے پانی میں نہا رہے ہوتے۔ اس چھوٹے سے حصے کے درمیان میں پانی دو فٹ سے بھی زیادہ ہو جاتا۔ اِکا دُکا گاڑیاں آتیں، مگر اس پانی میں سے گزر نہ سکتی تھیں کیونکہ پانی انجن میں چلا جاتا اور گاڑیاں بند ہو جاتیں تھیں۔ علاقے کے مکین اس بات سے واقف تھے اسلئے جب پانی کھڑا ہوتا تو گاڑی اس طرف لاتے ہی نہ تھے۔کسی وقت برستی بارش میں کوئی انجان اس طرف آجاتا توپانی میں نہاتے لڑکے بھاگتے ہوئے اس کے پاس پہنچ جاتے کہ گاڑی پانی میں سے گزار لیں، زیادہ گہرا نہیں ہے۔ ذرہ تیزی سے لے جائیں، نکل جائے گی، گاڑی والا بیچارہ ان کی باتوں میں آجاتا۔ گاڑی گہرے پانی سے کیسے نکلتی، پوری طرح پانی میں ڈوب جاتی۔ نوجوان اور چھوٹے لڑکے فوراً گاڑی کے پاس پہنچ جاتے۔ گاڑی والے کو حوصلہ دیتے کہ آپ نے ریس کم کر دی تھی، مگر فکر نہ کریں ہم کس لئے ہیں؟ پانی میں بیس پچیس لڑکے نعرے لگاتے اس گاڑی کو دھکیلتے، کبھی رک کر رقص کرنے لگتے، لیکن پانچ دس منٹ میں کسی طرح گاڑی کو پار پہنچا دیتے۔ پھر گاڑی سٹارٹ کرنے میں بھی گاڑی والے کی مدد کرتے، یہ ان کا مستقل شُغل تھا۔

میرے جیسے بچے، جی ہاں ساٹھ کی دہائی میں، میں بچہ ہی تھا۔ جن کے گھر والوں کی طرف سے اس پانی میں اُترنے کی اجازت نہ تھی کیونکہ پانی گندہ ہوتا تھا۔ تھوڑا پرے بیٹھ کر کاغذ کی چھوٹی چھوٹی کشتیاں بناتے اور پانی میں پھینک دیتے۔ پانی میں نہانے والے بچوں کی اُچھل کود سے جو مدو جزر بنتے اور لہریں سی وجود میں آتیں، اس سے کشتی کبھی فوراً واپس آجاتی۔ کبھی دور تک تیرتی چلی جاتی۔ جس کی کشتی دور چلی جاتی وہ جیت کے نعرے لگاتا اور پانی میں اُچھل کود کرنے والے بچے کو کہہ کر اپنی کشتی واپس حاصل کر لیتا۔ میں اس علاقے سے گزرتے ہوئے چشم تصور میں اپنا بچپن دیکھ کر ایک انجانی مسرت محسوس کر رہا تھا۔ مگر اب عجیب تھااس سڑک کے ہر طرف ہر گلی اور ہر سڑک پانی سے بھری تھی۔ مزنگ چونگی کا چوک جہاں ہمیشہ بہت پانی کھڑا ہوتا تھا، آج بھی پوری طرح پانی میں نہایا ہوا تھا۔ مگر اب پانی چوک تک محدود نہیں تھا، چاروں طرف دو، دو فرلانگ بلکہ اس سے بھی زیادہ فاصلے تک پانی ہی پانی تھا۔ مزنگ چونگی سے اچھرہ کی طرف آئیں تو ٹریفک انتہائی سُست رفتار تھی۔ گاڑی چلتی اور تیرتی کوئی آدھ گھنٹے میں ایک فرلانگ آگے آئی تو سڑک کے بیچ میں کسی قالینوں کے دکاندار نے ایک قالین کا رول لوگوں کو خطرے سے خبردار کرنے کے لئے سڑک کے بیچ میں کھڑا کیا ہوا تھا۔ لوگ سمٹ کر صرف ایک قطار بنائے سڑک کے ایک طرف سے گزر رہے تھے، ٹریفک وارڈن بھی موجود تھے۔ وہ کام جو میں آسانی سے دو ڈھائی گھنٹے میں کر کے واپس آجاتا ہوں، آج اسی کام کے لئے میرے تقریباً ساڑھے سات گھنٹے خرچ ہوئے۔ ذہنی دباؤ اور پریشانی جو دن بھر برداشت کرناپڑی، اس کے علاوہ تھی۔

اس دن جو ہم پہ گزری، سو گزری، مگر خوشی اس بات کی ہے کہ لاہور واقعی پیرس بن گیا ہے۔ میں نے چند دن پہلے پیرس میں بارش کے بعد کا نظارہ ایک ویڈیو میں دیکھا تھا۔ دونوں شہروں میں پانی کے کھڑا ہونے اور لوگوں کے ٹریفک میں ذلیل ہونے میں بڑی مماثلت نظر آئی۔ لیکن لاہور اب پیرس تو بن گیا ہے یا شاید پیرس کے والی بھی میاں شہباز شریف ہو گئے ہیں اور پیرس لاہور ہو گیا ہے۔ خیر کچھ بھی ہو، لاہور کو پیرس بنانے پر میاں شہباز شریف یقینا مبارکباد کے مستحق ہیں۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 444477 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More