آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے منگل کی شب
یوم دفاع کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کی خارجہ اورداخلہ پالیسوں کے
خد و خال کی موجودہ ملکی اور بین الاقوامی حالات کے تناظر میں وضاحت کی۔
انھوں دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ہمارے دوست کون
ہیں اور ہمارا دشمن کون ہے۔آرمی چیف نے کہا کہ دو سال قبل ملک میں روزانہ
کی بنیادوں پر دہشتگردی کے واقعات ہوتے تھے۔ بہت سے علاقے ایسے تھے جہاں
ریاست کی رٹ ختم ہو چکی تھی لیکن آج صورت حال بہت بہتر ہے۔ آج پاکستان میں
دہشتگردی کرنے والے چھپتے پھر رہے ہیں جبکہ آج پاکستان کا کوئی بھی علاقہ
ایسا نہیں کہ جہاں پاکستان کے پرچم کا سایہ نہ ہو۔انھوں آپریشن ضرب عضب کو
کامیاب قرار دیا۔ خارجہ پالیسی کے خد وخال واضح کرتے ہوئے انھوں نے
افغانستا ن اور پاکستان کے خلاف سازشیں کرنے والوں کو متنبہ کیا کہ دشمنوں
کی سازشیں کامیاب نہیں ہو سکتیں۔ بھارت کی سازشوں اور پاکستان کے خلاف کئے
جانے والے پروپگینڈہ کی انھوں نے شدید الفاظ میں مذمت کی۔آرمی چیف نے چین
کو پاکستان کا بہترین دوست قرار دیا تاہم انھوں نے امریکہ کے حوالے سے کوئی
بات نہیں کی۔آرمی چیف کا خطاب نہ صرف پاکستان میں موجود ملک دشمنوں کے لئے
سخت ترین پیغام تھا بلکہ خطے کے تمام دوست اور دشمن ممالک کو آرمی چیف نے
اپنے خطاب میں آگاہ کر دیا کہ پاکستان اپنے ہر بد خوا اور نیک خواہشات
رکھنے والے سے بہت اچھی طرح آگاہ ہیں۔ مجموعی طور پر آرمی چیف کا خطاب کسی
حد تک سیاسی بھی تھا کہ عام طور پر جو باتیں ملک کے صدر یا وزیراعظم کو
کرنی چاہیں وہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کیں۔سیاسی اور غیر سیاسی حلقوں
میں اگرچہ آرمی چیف کے خطاب کو سراہا جا رہا ہے لیکن بعض سیاستدان اس خطاب
کے مختلف پہلو بھی تلاش کر رہے ہیں۔ ایک ایسے موقع پر کہ جب ملک میں چیف آف
آرمی اسٹاف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے ایک بحث چھڑی ہوئی ہے ایسے
حالات میں آرمی چیف کا مذکورہ خطاب اپنے اندر بہت سے ان کہے پیغامات بھی
لئے ہوئے ہے تاہم اب تک یہ واضح نہیں کہ وہ اپنی مدت ملازمت میں توسیع کے
حوالے سے کیا چاہتے ہیں۔ اگرچہ چند روز قبل ایک وضاحت آئی ایس پی آر کی طر
ف سے آ چکی ہے کہ اپنی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے جنرل راحیل شریف
ایک واضح بیان دے چکے ہیں کہ وہ توسیع نہیں چاہتے تاہم ساتھ ساتھ اسی بیان
میں یہ بھی کہا گیا کہ اگر اس پلان میں کوئی تبدیلی ہوئی تو وقت آنے پر
واضح کر دیا جائے گا۔آئی ایس پی آر کی اس وضاحت کے بعد اس حوالے سے کی جانے
والی قیاس آرئیاں اور باتیں وہیں کی وہیں کھڑی ہے اور صورت حال اب بھی
وضاحت طلب ہے ۔
ایسے حالات میں آرمی چیف کے مذکورہ خطاب نے سیاسی حلقوں میں مزید بے چینی
پیدا کر دی ہے۔ظاہر ہے کہ اس میں وہ باتیں جو ایسے موقع پر صدر یا وزیراعظم
کے خطاب میں شامل ہونی چاہئیں وہ جنرل راحیل شریف کے خطاب کا حصہ تھیں ، اس
سے حکمراں مسلم لیگ سمیت دیگر سیاسی جماعتیں آرمی چیف کے مدت ملازمت میں
توسیع کے حوالے سے کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پا رہیں۔ دوسری طرف ایسا محسوس
ہوتا ہے کہ آئی ایس پی آر اور خود آرمی چیف بھی صورت حال کو غیر واضح ہی
رکھنا چاہتے ہیں جس کی وجہ ان دہشتگردوں اور ملک دشمن عناصر کو کنفیوز
رکھنا ہے جو اس بات کے منتظر ہیں اورشاید پر امید بھی ہیں کہ جنرل راحیل
شریف کے جاتے ہی حالات پھر پہلے جیسے ہو جائیں گے اور ان کے خلاف میں
آپریشن ضرب عضب کی شدت میں بھی کمی آ جائے گی۔ آرمی چیف کے تقرری کے حوالے
سے ایک بہت بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ آئین میں اس تقرری کا اختیار وزیراعظم
کے پاس ہے لیکن اگر آئین میں تبدیلی کر کے یہ اختیار ختم کر دیا جائے اور
کسی بھی صورت میں کسی بھی چیف کو مدت ملازمت میں توسیع نہ دینے کا قانون
منظور کیا جائے تو یہ ابہام بڑی حد تک ختم ہو سکتا ہے اور ملک بہت سے مسائل
سے بچ سکتا ہے ۔ جس طرح سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی تقرری اب طے ہو چکی ہے
اور سیئر ترین جج کو سپریم کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کر دیا جاتا ہے ٹھیک اسی
طرح آرمی چیف کا تقرر بھی ہونا چاہیے جس کی وجہ سے نہ صرف بہت سے ابہام ختم
ہو سکتے ہیں بلکہ اس قانون کی وجہ سے کسی بھی حقدار اور سینئر جنرل کی حق
تلفی نہیں ہو گی۔ ابھی تک یہ ہوتا رہا ہے کہ سینئر موسٹ افسر بیٹھا رہ جاتا
ہے اور وزیراعظم اپنی مرضی کے کسی بھی جونئر جنرل کو آرمی چیف مقرر کر دیتا
ہے ۔ اس سے سنیئر کی حق تلفی ہوتی ہے اور وہ اپنے جونیئر کے ماتحت کام کرنے
سے انکار کر دیتا ہے اور ریٹائرمنٹ لینے میں ہی اپنی عافیت سمجھتا ہے۔ یہ
عدل و انصاف کے اصولوں کی سریحاً خلاف ورزی ہے لیکن چونکہ وزیراعظم کا آرمی
چیف کی تقرری کا اختیار آئین و قانون کے مطابق ہے لہذا مجموعی طور پر اس
عمل کو درست سمجھا جاتا ہے۔آئین میں وزیراعظم کو اپنی مرضی کا نیا آرمی چیف
مقرر کرنے کا اختیار اس لئے دیا گیا ہے کہ وہ کسی ایسے جنرل کا انتخاب کر
سکے کہ جو اس کی ( وزیراعظم کی) نہ صرف مرضی کا ہو بلکہ ہم خیال بھی ہو
لیکن عملاً یہی دیکھا گیا ہے وزیراعظم کی مرضی کے آرمی چیف نے ہی وزیراعظم
کو دھوکہ دیا ہے لہذا ملک کی سیاسی قیادت کو یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ آرمی
چیف کی تقرری سینیارٹی کی بنیاد پر ہو ۔ اس حوالے سے قانون سازی کی جانی
چاہیے تاکہ یہ معاملہ ہمیشہ کے لئے طے ہو سکے۔ جہاں تک کسی بھی اہل اور
کمپیٹنٹ افسر کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ ہے تو اس سلسلے میں یہ
قانون سازی ہونے چاہیے کہ کوئی بھی اہل اور مستعد جنرل کہ جسے حکومت سمجھتی
ہو کہ اس کی خدمات سے کی ابھی ملک کو ضرورت ہے تو اسے کسی بھی اہم ادارے
میں بھیج کر اس سے مزید خدمات لی جاسکتیں ہیں اور اہل اور مستعد جنرل کی
صلاحتیوں سے بحیثیت آرمی چیف اپنے عہدے سے فارغ ہونے کے بعد بھی فائدہ
اٹھایا جا سکتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس طرح ملک میں نئے آرمی چیف کے حوالے
سے عدل و انصاف پر مننی روایت پروان چڑھے گی جس میں سب کی بھلائی ہے۔
|