یاد قائد زندہ ر ہے گی

گیارہ ستمبر قائد اعظم محمد علی جناح کے اڑسٹھ ویں یوم وفات پر خصوصی تحریر
یوم وصال کو اڑسٹھ سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح عوام کے دلوں میں بسے نظر آتے ہیں،ان کی یاد کی خوشبو ہر پاکستانی کے دل میں زندہ ہے اور ہمیشہ رہے گی کہ قائد اعظم محمد علی جناح کا اہل پاکستان پر یہ احسان ہے کہ انہوں برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک آزاد ، خودمختار ریاست کے قیام کے لئے بھر پور جدوجہد کی ، اور اپنی ساری زندگی اسی جدوجہد میں وقف کردی ۔قائد اعظم محمد علی جناح ایک عہد آفرین شخصیت، عظیم قانون دان، بااصول سیاستدان اور بلند پایہ مدبر تھے۔ ان میں غیر معمولی قوت عمل اور غیر متزلزل غرم، ارادے کی پختگی کے علاوہ بے پناہ صبر و تحمل اور استقامت و استقلال تھا۔ انہوں نے اپنی اٹل قوت ارادی، دانشورانہ صلاحیتوں، گہرے مدبرانہ فہم و ادراک اور انتہائی مضبوط فولادی اعصاب کی مسلسل اور انتھک محنت سے مسلمانان پاک و ہند کے گلے سے صدیوں کی غلاموں کا طوق ہمیشہ کے لئے اتارا اور مسلمانوں کو حصول پاکستان کے مقاصد سے آگاہ کر کے انہیں آزادی کی جدوجہد میں کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرنے کی راہ پر راغب کیا۔اس کے نتیجے میں برصغیر کے مسلمان مسلم لیگ کے جھنڈے تلے یکجا ہوئے۔ جدوجہد آزادی رنگ لائی اور انگریزوں کو ہندو مسلم علیحدہ قومیت یعنی دو قومی نظریہ تسلیم کرنا پڑا اور 3 جون 1947ء کو ہندوستان کے آخری وائسرائے اور گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے آل انڈیا ریڈیو سے تقسیم ہند کے منصوبے کا اعلان کیا۔یہ امر ایک حقیقت ثابتہ کی حیثیت رکھتا ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں کی طرف سے شروع کی جانے والی جدوجہد آزادی کے مختلف مراحل پر کسی بھی مسلمان رہنما کو اپنی قوم کی طرف سے اطاعت شعاری کا وہ جذبہ اور مظاہرہ نصیب نہیں ہوا جو بابائے قوم کو حصول پاکستان کے لیے کی جانے والی بے لوث اور شبانہ روز جدوجہد کے دوران میسر آیا۔ پر عزم جدوجہد آزادی کے ساتھ ساتھ بانی پاکستان کی صحت گرتی رہی ، قائد اعظم محمد علی جناح1930 ء سے تپ دق کے مرض کا شکار چلے آرہے تھے اور اس بیماری سے متعلق صرف ان کی بہن اور چند قریبی ساتھی جانتے تھے مگر بانی پاکستان نے بیماری کی حالت میں بھی جدوجہد آزادی کا کوئی جلسہ ترک نہیں کیا ۔

قیام پاکستان کے بعد جب ان کی طبیعت مسلسل ناساز رہنے لگی تو جون 1948ء میں اپنی بہن فاطمہ جناح کے ہمراہ کوئٹہ روانہ ہوگئے جہاں کی ہوا کراچی کے مقابل سرد تھی۔ وہاں بھی انہوں نے مکمل آرام نہ کیا بلکہ انہوں نے کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کے آفسروں کو خطاب کرتے ہوئے کہا ’’آپ دیگر افواج کے ساتھ پاکستان کے لوگوں کی جانوں، املاک اور عزت کے محافظ ہیں‘‘۔ 6 جولائی 1948ء کو ڈاکٹروں کے مشورے پر آپ مزید اونچے مقام زیارت منتقل ہوئے۔اس دوران میں بانی پاکستان کا مسلسل طبعی معائنہ کیا گیا اور انکی طبعی نزاکت دیکھتے ہوئے حکومت پاکستان نے بہترین ڈاکٹروں کو انکے علاج کے لئے روانہ کیا۔مختلف ٹیسٹ ہوئے ان کی رپورٹ میں ٹی بی کی موجودگی اور پھیپھڑوں کے سرطان کا بتایا گیا۔علاج کے باوجود انکی صحت روزبروز گرتی رہی، انکا وزن گر کر محض 36 کلو رہ گیا تھا ڈاکٹروں کو یقین تھا کہ اگر اس حالت میں انہیں پر فضاء مقام سے کراچی زندہ حالت میں لے جایا گیا تو تب بھی وہ کم عرصہ ہی زندہ رہ پائیں گے۔لیکن جناح کراچی جانے پر تذبذب کا شکار تھے ،وہ نہیں چاہتے تھے کہ انکے معالج انہیں بے کار سٹریچر پر بیٹھا معزور خیال کریں۔ 9 ستمبر کو جناح کو نمونیا نے آگھیرا۔ اب ڈاکٹروں نے انہیں کراچی کا مشورہ دیاجہاں وہ بہتر علاج کر سکتے تھے اور انکی رضامندی پر وہ 11 ستمبر کے دن بزریعہ طیارہ کراچی آئے، ایمبولینس میں ہی ان کی طبیعت مذید خراب ہوگئی ، جس پر بانی پاکستان کو سرکاری گھر میں منتقل کیا گیا، جہاں 11 ستمبر 1948ء کی صبح کے 10بجکر 25 منٹ پر پاکستان بننے کے محض ایک سال بعدبانی پاکستان محمد علی جناح انتقال فرماگئے۔ بانی پاکستان کی نمازجنازہ ان کی وصیت کے مطابق علامہ شبیر احمد عثمانی نے پڑھائی۔
Rana Aijaz Hussain
About the Author: Rana Aijaz Hussain Read More Articles by Rana Aijaz Hussain: 995 Articles with 720869 views Journalist and Columnist.. View More