مسلمانوں کا عظیم رہنما

گورنر جنرل ہاؤس کے لئے ساڑھے 38 روپے کا سامان خریدا گیا ،گورنر جنرل نے حساب منگوا یا معلوم ہوا کچھ چیزیں آپکی بہن نے اپنی ضرورت کی منگوائی تھیں اور کچھ آپ کی اپنی ذاتی استعمال کی چیزیں تھی۔ گورنر جنرل صاحب نے حکم فرمایا کہ یہ رقم ان کے ذاتی اکاؤنٹ سے کاٹی جائے ۔باقی چیزیں گورنر جنرل ہاؤس کیلئے تھیں آپ نے فرمایا ٹھیک ہے یہ رقم قومی خزانے سے ادا کر دی جائے اور آئندہ احتیاط برتی جائے کہ قوم کا پیسہ مجھ پر یا میرے رشتے داروں پر نہ خرچہ جائے ۔یہ گورنر جنرل بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح تھے اور ان کی بہن فاطمہ جناح ۔ ایک بار قائداعظم کیلئے موزے خریدے گئے جب قائداعظم نے قیمت دریافت کی تو معلوم ہوا ٰصرف دو روپے جس پر قائداعظم نے یہ کہہ کر موزے واپس کردیئے کہ ایک غریب ملک کے سربراہ کو اتنا عیاش نہیں ہونا چاہیے۔یہ سچ میں ایک غریب ملک کے سربراہ تھے جن کو یہ گوارا نہ تھا کہ وہ دو روپے کا مہنگا موزہ پہنے ۔یہ ہمارا ماضی تھا شاندار اور جاندار ماضی کہ جس میں سربراہ مملکت کو احساس تھا کہ وہ ایک غریب ملک و قوم کا سربراہ ہے ،جس میں سربراہ مملکت کو معلوم تھا کہ ان کے دو روپے کے موزے اس ملک کو مہنگے پڑسکتے ہیں ،ان کے دو روپے قوم کیلئے مہنگے ثابت ہوسکتے ہیں۔ قائداعظم جب تک گورنر جنرل رہے کابینہ کے اجلاسوں میں نہ چائے پیش کی گئی اور نہ ہی کافی کیونکہ آپکا حکم تھا کہ جس نے پینی ہو وہ گھر سے پی کر آئے قوم کا پیسہ وزیروں اور مشیروں کے لئے نہیں۔

پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم اور قائد کے دیرینہ ساتھی نواب زادہ لیاقت علی خان نے کہا تھا کہ ’’ قا ئدِاعظم بر گزیدہ ترین ہستیوں میں سے تھے جو کبھی کبھی پیدا ہوتی ہیں، مجھے یقین ہے کہ تاریخ ان کا شمار عظیم ترین ہستیوں میں کرے گی ‘‘۔ اسی طرح ایک بار علامہ اقبال کی بیماری کے دوران جواہر لال نہرو ان کی عیادت کو آئے ،دورانِ گفتگو نہرو نے حضرت علامہ سے کہا "حضرت آپ اسلامیانِ ہند کے مسلمہ اور مقتدر لیڈر ہیں کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ آپ اسلامیانِ ہند کی قیادت اپنے ہاتھ میں لے لیں۔" تو حضرت علامہ نے فرمایا، "جواہر لا ل! ہماری کشتی کا ناخدا صرف مسٹر محمد علی جناح ہے میں تو اس کی فوج کا ایک ادنیٰ سپاہی ہوں۔"جناح آف پا کستان" کے مصنف پروفیسر اسٹینلے یونیورسٹی آف کیلیفورنیا امریکہ اپنے کتاب کے دیباچے میں لکھتے ہیں کہ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو تاریخ کا دھارا بدل دیتے ہیں اور ایسے لوگ تو اور بھی کم ہوتے ہیں جو دنیا کا نقشہ بدل کر دیتے ہیں اور ایسا تو کوئی کوئی ہوتا ہے جو ایک نئی مملکت قائم کر دے۔ محمد علی جناح ایک ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے بیک وقت تینوں کارنامے کر دکھائے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ جب ہندوستان کے مسلمان اپنی بقا اور سلامتی کی جانب سے بڑی حد تک مایوس ہوچکے تھے قائد اعظم محمد علی جناح نے تدبر، فراست ، غیر متزلزل عزم، سیاسی بصیرت اور بے مثل قائدانہ صفات سے کام لے کر مسلمانوں کومتحد کیا اور سات سال کی مختصر مدت میں مطالبہ پاکستان کی ایسی پر زور وکالت کی کہ دنیا کا نقشہ بدل کر رکھ دیا14اگست 1947 کو پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھر کر سامنے آیا۔آزادی پاکستان کی تحریک کے دوران قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی بیماری کو بالائے طاق رکھ دیااور تحریک آزادی پاکستان کی عزم سے وکالت کرتے رہے مگر قائد اعظم کو لاحق موذی بیماری ٹی بی بھی ساتھ ساتھ بڑھتی جار ہی تھی مگر آپ کی زندگی کے آخری دس سال، جن میں آپ کو بڑھتی ہوئی عمر اور گرتی ہوئی صحت کے پیش نظر مکمل آرام کی ضرورت تھی، نہایت ہنگامہ خیز تھے۔ قیام پاکستان کے بعد نومولود مملکت کے مسائل ایسے نہ تھے جن کو قائد اعظم نظر انداز کردیتے یا دوسروں پر چھوڑ دیتے، چناں چہ آپ نے ان مسائل کی جانب بھرپور توجہ دی اوراندرونی اور بیرونی طویل سفر کئے اور مہاجرین کے مسائل معلوم کئے اور انکے تدراک کیلئے اقدامات اٹھائے، پاکستان کی داخلہ اور خارجہ پالیسی کا تعین ،معیشت کا فروغ ،تعلیمی نظام اور دفاع اور اس پر عمل درآمد یقینی بنانا۔1948بانی پاکستان کا آخری اور پاکستان کا پہلا سال تھا،25مئی1948 کو آپ ڈاکٹروں کے مشورہ پر کوئٹہ گئے، تاکہ وہاں ہر قسم کی فکر سے آزاد ہوکر مکمل آرام کرسکیں، مگر کوئٹہ میں بھی مصروفیتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ 29 جون کو آپ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کرنے کے لیے کراچی آئے اور پھر کام میں لگ گئے مگر قائد کی صحت مزید گرگئی۔ ڈاکٹروں کے مشورے پر 7جولائی کو آپ دوبارہ کوئٹہ روانہ ہوگئے، مگر آپ کی علالت اتنی سنگین صورت اختیار کرگئی تھی کہ ڈاکٹروں نے فوری طور پر زیارت منتقل کردیا، جو کوئٹہ کے مقابلے میں نسبتاً سرد مقام ہے۔ جون1948 میں قائد اعظم کی طبیعت زیادہ خراب رہنے لگی تھی ،قیام پاکستان کی پہلی سالگرہ قریب تھی، لیکن قائد اعظم اپنی بیماری کے سبب سالگرہ کی تقریبات میں شرکت سے معذور تھے۔ اس موقع پر آپ نے قوم کے نام ایک پیغام میں فرمایا، ’’پاکستان کا قیام ایک ایسی حقیقت ہے، جس کی دنیا کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ یہ دنیا کی ایک عظیم ترین مسلمان ریاست ہے۔ اس کو سال بہ سال ایک نمایاں کردار ادا کرنا ہے اور ہم جیسے جیسے آگے بڑھتے جائیں گے، ہمیں ایمان داری، مستعدی اور بے غرضی کے ساتھ پاکستان کی خدمت کرنا ہوگی۔‘‘

یکم ستمبر کو ڈاکٹر الہی بخش نے گھمبیر لہجے میں فاطمہ جناح کوبتایا"قائد اعظم کو ہیمریج ہو گیا ہے اورمیں بہت پریشان ہوں ہمیں انہیں کراچی لے جانا چاہیے کوئٹہ کی بلند ی ان کے لیے اچھی نہیں ہے ، اس کے بعدڈاکٹروں کے درمیان ایک کانفرنس ہوئی انہوں نے صورتحال کے تمام پہلووں کا جائزہ لینے کے بعد فیصلہ کیا کہ اب قائد کو فورا کراچی منتقل کرنا بہت ضرورری ہے کیونکہ کوئٹہ کی بلندی ان کے کمزور دل کے لیے مناسب نہ تھی ،گورنر جنرل کے وائی کنگ طیارے کو فوری طور پر کوئٹہ پہنچنے کا حکم دے دیا گیا اور 11 ستمبر کو دو گھنٹے کی پرواز کے بعد ہ قائد اعظم کا طیارہ ماری پور ائر پورٹ پر اترا اورگورنر جنرل کے ملٹری سیکرٹری کرنل جیفری ناولز نے ان کا استقبال کیا قائد کو ایک سٹریچر پر لٹا کر ایک ایمبولینس میں لے جایا گیا یہ انہیں گورنر جنرل ہاوس لے جانے کے لیے پہلے سے وہاں موجود تھی فاطمہ جناح اور سسٹر ڈنہم ان کے ساتھ ایمبولینس میں بیٹھے تھے۔ایمبولینس بہت سست روی سے چل رہی تھی فاطمہ جناح لکھتی ہیں ابھی چار میل کا سفر ہی طے کیا تھا کہ ایمبولینس اس طرح ہچکیاں لیں جیسے اسے سانس لینے میں مشکل در پیش ہو رہی ہو اور پھر وہ اچانک رک گئی کوئی پانچ منٹ بعد میں ایمبولینس سے باہر آئی تو مجھے بتایا گیا کہ ایمبولینس کا پٹرول ختم ہو گیا اگرچہ ڈرائیور نے انجن سے الجھناشروع کردیا تھا لیکن انجن نے نہ سٹارٹ ہونا تھا نہ ہوا میں پھر ایمبولینس میں داخل ہوئی تو قائد نے آہستہ سے ہاتھ کو حرکت دی اور سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھا میں نے جھک کر آہستگی سے کہا "ایمبولینس کا انجن خراب ہو گیا ہے تب خدا خدا کرکے ایک گھنٹے کے بعد ایک اور ایمبولینس آئی اور قائد اعظم کو سٹریچر کے ذریعے نئی ایمبولینس میں منتقل کیا گیا اور یوں آخر کار قائد اعظم پھر گورنر جنرل ہاوس کی طرف روانہ ہوئے ۔ گورنر جنرل ہاوس پہنچنے پر قائد اعظم کا ڈاکٹروں نے ان کا معائنہ کیا اور دبے الفاظ میں کہا" فضائی سفر کے لیے ہی ان کی حالت کیا کم خراب تھی کہ ایمبولینس کا یہ تکلیف دہ واقعہ بھی پیش آگیا۔رات تقریباً ساڑھے نو بجے قائد آعظم کی طبیعت اچانک بگڑگئی، کرنل الٰہی بخش، ڈاکٹر ریاض علی شاہ اور ڈاکٹر مستری فوری طور پر گورنر جنرل ہاؤس پہنچ گئے ،اس وقت قائد اعظم پر بے ہوشی طاری تھی۔ نبض کی رفتار بھی غیرمسلسل تھی، ڈاکٹروں نے معائنہ کرنے کے بعد انجکشن لگایا، مگر حالت بگڑتی چلی گئی۔ رات دس بج کر 25 منٹ پر فخرملک و قوم، بطل جلیل،بانی پاکستان،عزم کا پیکر ہمیشہ کے لیے اﷲ کی رحمت میں پہنچ گیا۔قائد اعظم کی رحلت کی خبر آن کی آن میں پورے ملک میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ نومولود مملکت اور پوری قوم اس عظیم سانحے اور حادثے پر رنجیدہ اور افسردہ تھی اورجلد ہی لوگ دیوانہ وار گورنر جنرل ہاؤس کی طرف بڑھنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں افراد گورنر ہاؤس کے اطراف جمع ہوگئے یہ خبر پورے پاکستان کی عوام کے لیے بڑی دل دوز تھی ۔آپ اندازہ کیجیے کہ قائدآعظم جنھوں نے دو روپے کے موزے سرکاری خرچ پر نہ خریدے کیونکہ ان کے بقول حکمران کو اتنا عیاش نہیں ہونا چاہیے کہ وہ دو روپے کے اتنے مہنگے موزے خریدے آج اسی ملک کا صدر لاکھوں روپے غیر ملکی دوروں پر ٹپ میں دے دیتا ہے۔آج ایک ایک دورے پر عوام کا کروڑوں روپے خرچ آتا ہے ان دوروں پر اپنے من پسند لوگوں اور رشتے داروں کو لیجایا جاتا ہے ۔پچھلے کچھ برسوں میں تقریبا 500 افراد کو مختلف غیر ملکی دوروں پر لیجایا گیا ان سب لوگوں نے سرکاری خرچ اور غریب عوام کے پیسے پر عیاشی کی۔
R S Mustafa
About the Author: R S Mustafa Read More Articles by R S Mustafa: 41 Articles with 26571 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.