موسم خوشگوار تھا۔ آسمانوں پر ہلکے بادل محو پرواز تھے۔
ٹھنڈی سرد ہواوں نے سورج کی تمازت کو کم کردیا تھا۔ مریم مختار اپنے ایف 7
پی جی طیارے پر سوار اڑان بھرنے کے لئے تیار تھیں۔ اشارہ ملتے ہی جہاز نے
رن وے پر دوڑنا شروع کردیا اور آہستہ آہستہ ہواوں میں بلند ہوگیا۔ فضاوں
میں جو سکون اور تازگی ہوتی ہے، اس کا تصور کرکے مریم خود کو انتہائی خوش
قسمت خیال کرتی۔ اسی کے خواب تو اس نے بچپن میں بنے تھے۔ اس کے والد پاک
فوج میں کرنل تھے، مہم جوئی اسے وراثت میں ملی تھی۔ دنیا میں عورت کو نازک
تصور کیا جاتا ہے، تاہم مریم اور پاک افواج میں شامل ہونے والی بہادر
خواتین نے اس تصور کی نفی کردی تھی۔ وہ مردوں کے شانہ بشانہ کسی بھی میدان
میں خواہ وہ جنگ کا میدان ہی کیوں نہ ہو، اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی
ہیں۔
24 نومبر 2015ء کی صبح مریم مختار اپنے انسٹرکٹر، اسکواڈرن لیڈر ثاقب عباسی
کے ساتھ معمول کی مشق پر روانہ ہوئیں۔ جب وہ ضلع گجرات کی فضاؤں میں پرواز
کررہے تھے، تو اچانک انجن تکنیکی خرابی پیدا ہوگئی۔ انہوں نے ہر ممکن طریقے
سے اس افتاد سے چھٹکارہ حاصل کرنے کی کوشش کی، لیکن ان کی تمام کوششیں
ناکام گئیں۔ جب تمام آپشن ختم ہوگئے تو انہوں نے بالاخر جہاز سے پیرا شوٹ
کے ذریعے چھلانگ لگانے کا فیصلہ کیا۔ تبھی اس کی جان بچ سکتی ہے۔ مگردونوں
پائلٹوں نے فوراً چھلانگ لگانا گوارا نہ کیا کیونکہ جہاز اس وقت آبادی کے
اوپر تھا۔
نہیں۔
ہمیں آبادی سے دور اس طیارے کو لے جانا ہوگا۔
فیصلہ ہوگیا۔
دونوں پائلٹس نے اپنی جان کو خطرے میں ڈال دیا۔ جہاز کو اس وقت تک نہ
چھوڑنے کا فیصلہ کیا گیا، جب تک کہ وہ آبادی سے دور نہیں چلا جاتا۔ جہاز کی
سمت اس طرف کردی گئی جہاں آبادی موجود نہیں تھی۔ جہاز میں سکت ختم ہوگئی
تھی۔ مریم اور ان کے معاون آفیسرصرف اسے سمت دے سکتے تھے۔ انہوں نے جان کو
خطرے میں ڈال دیا تھا۔ کندیاں کے قریب جہاز زمین سے ٹکرا گیا۔ پائلٹ فلائنگ
آفیسر مریم مختار شہادت کے رتبے پر فائز ہوگئیں۔ انہیں پاکستان کی پہلی
خاتون شہید پائلٹ کا اعزاز حاصل ہو گیا۔
دو پل کا یہ جیون ہے
کچھ کرنا ہے تو کر گزرو
ان کے معاون پائلٹ اسکواڈرن لیڈر ثاقب عباسی کو معمولی چوٹیں آئیں اوروہ
حادثے میں محفوظ رہے۔ پاک فضائیہ کے ترجمان بیان کے مطابق، ’’دونوں پائلٹوں
نے پیشہ ورانہ مہارت اور جرات کے ساتھ سنگین ہنگامی صورتحال کو سنبھالا اور
بہت آخری لمحے تک بدقسمت طیارے کو بچانے کی کوشش کرتے رہے۔ زمین پر عام
شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے پائلٹ ہنگامی طور پر طیارے سے نکلنے
پر مجبور ہوئے اور جہاز گر کر تباہ ہو گیا۔
مریم مختار کا جسد خاکی میانوالی سے کراچی ایئر بیس فیصل لایا گیا۔ جہاں ان
کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ نماز جنازہ میں پاک فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف
مارشل سہیل امان، کور کمانڈر کراچی، ڈی جی رینجرز سمیت اعلیٰ فوجی افسران
نے شرکت کی۔
اس موقع پر رقت آمیز منظر بھی دیکھنے میں آئے، مریم کے اہل خانہ آنسوؤں پر
قابو نہ رکھ سکے، تاہم ان کا کہنا تھا کہ انہیں مریم کی شہادت پر فخر ہے۔
فلائنگ آفیسر مریم مختیار 18مئی 1992ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ ان کے
والدمختیار احمد شیخ پاک فوج میں کرنل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ والد کو
دیکھ کر مریم نے فورسز میں آنے کا فیصلہ کیا۔ مریم مختار نے 132جی ڈی پی
کورس کا حصہ بن کر پاکستان ائرفورس اکیڈمی رسالپور سے تربیت مکمل کی تھی۔
مریم مختیار پاکستان کی پہلی چار خاتون پائلٹس میں سے ایک تھیں اور فائٹر
جہاز ایف سیون پی جی کے 20 اسکوارڈن میں تھیں۔
وزیراعظم نوازشریف، چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف، چیف آف نیول سٹاف
ایڈمرل ذکاء اﷲ اور چیف آف ائرسٹاف ائرچیف مارشل سہیل امان نے مریم مختار
شہید کے لواحقین سے تعزیت کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ شہید قوم کی بہادر
بیٹی تھی اور اس نے جس عزم کے ساتھ پاک فضائیہ میں شمولیت اختیار کی، اس کا
وہ عزم پورا ہوچکا۔ وزیراعظم میاں نواز شریف نے مریم مختار کے والد کرنل
ریٹائرڈ مختار کو ٹیلی فون کیا اس موقع پر دونوں کے درمیان جذباتی جملوں
کااظہار کیا گیا۔وزیراعظم کی تعزیت پر مریم مختا ر کے والد کا کہنا تھا کہ
مریم میری ہی نہیں آپ کی بھی بیٹی ہے۔ جس پر وزیراعظم نے کہا کہ یقینا مریم
میری ہی نہیں پوری قوم کی بیٹی تھی۔وزیر اعظم نے پاک فضائیہ کی پہلی شہید
خاتون پائلٹ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ مریم کی بے مثال قربانی
پورے ملک کے لیئے فخر کا باعث ہے، ان کی شہادت پورے ملک کی بخشش کا سبب بنے
گی۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اپنے پیغام میں مریم مختار شہید کو خراج
تحسین پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ مریم پورے ملک کی خواتین کیلئے رول ماڈل
ہے۔
یقینا مریم مختار شہید قوم کی بیٹیوں کے لئے رول ماڈل ہیں۔ انہوں نے ایک
عزم کے ساتھ زندگی گزاری۔ دفاع وطن کا جذبہ لے کر منزل کا تعین کیا اور پاک
فضائیہ کے ذریعے اپنے اس عزم اور مشن پر رواں دواں ہوگئیں۔ انہوں نے تربیت،
ڈیوٹی کے دوران ہمیشہ قربانی اور بہادری کا مظاہرہ کیا۔ جس عزم کے ساتھ اس
نے فضائیہ میں شمولیت اختیار کی تھی، 24 نومبر2015 کو شہادت کے رتبے پر
فائز ہو کر انہوں نے اپنے عزم کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیا۔ زبردست شجاعت
اور احساس ذمے داری کا مظاہرہ کرنے پر قوم کی اس بیٹی کو بعد ازشہادت تمغہ
شجاعت کے اعزاز سے نوازا گیا۔ اﷲ تعالی قوم کی اس بیٹی کے درجات بلند
فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل۔ پوری قوم کو اپنی اس بہادر بیٹی پر
فخر ہے۔
ہم مائیں ہم بہنیں ہم بیٹیاں
قوموں کی عزت ہم سے ہے |