عزت تیری قائم ہے میرے لال قلعے سے
تاج و قطب مینار کی دیوار و در سے
میسور میں سوئے ہوئے ٹیپو کی قبر سے
بنگال کے سراج سے دلّی کے ظفر سے
آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفرؔایک سچے ہندوستانی تھے اور ان کے سینے میں
ایک محب وطن کادل دھڑک رہاتھا۔ان کے دردمند دل ہونے کاایک اہم ثبوت یہ بھی
ہے کہ وہ خود پنشن دار تھے۔پنشن ان کے اپنے اخراجات کے لیے کم پڑتی تھی
لیکن انھیں میں سے وہ جمناکے کنارے رہنے والے مفلسوں کوبھی بلاناغہ
کھانابھجوایاکرتے تھے۔انہوں نے کبھی بھی اپنے آباواجداد کی بے عزتی برداشت
نہیں کی اور نہ ہی انگریزوں کے سامنے شکست تسلیم کی۔ انگریزوں کے سامنے
انہوں نے اپنے آپ کو ہمیشہ بادشاہ ہی پیش کیا۔وطن دوستی کا یہ عالم کہ ان
کے ہاتھ سے سب کچھ چھِن گیا،۱۸۵۷ء کی پہلی جنگ آزادی کے وقت بہادر شاہ
ظفر۸۲؍سال کے تھے جب ان کے بیٹے اور پوتے (مرزاخضر ، مرزا قویش، مرزا مغل ،مرزاعبداﷲ
اور مرزا ابوبکر)کا سر قلم کرکے ان کے سامنے انگریز تھال میں سجا کر ان کے
سامنے تحفے کی شکل میں لائے تھے۔بہادر شاہ ظفر نے اپنے بیٹوں کے کٹے ہوئے
سروں کو اپنے ہاتھوں میں لے کردرد بھرے الفاظ میں ان کے لئے دعا کرتے ہوئے
کہاں’’ تیمور کی اولاد ایسے ہی سرخرو ہوکر باپ کے سامنے اپنا فرض ادا کرتے
ہیں۔‘‘ اس کے بعد شہزادوں کے دھڑ کوتوالی کے سامنے اور کٹے ہوئے سروں کو
خونی دروازے پر لٹکا دیا گیا۔ان کے محافظِ خاص بخت یار شاہ اور شاہ سمند
خان کو قتل کردیاگیا۔مفتی صدرالدین آزردہؔ، مصطفی خاں شیفتہؔ اور مولانافضل
حق خیرآبادی پر مقدمے دائر کیے گئے اس کے باوجود بہادرشاہ ظفر کے حوصلے پست
نہیں ہوئے،ایسے عالم میں بھی ان کے ارادے مستحکم نظرآتے ہیں۔اس بات
کااندازہ اس امر سے لگایاجاسکتاہے کہ آپ برطانوی حکومت کے اسیر تھے،لال
قلعے کی دیواروں سے باہر جن کی حکومت کاکوئی وجود نہ تھا،وہی بہادر شاہ ظفر
ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی میں برطانوی سامراج کے خلاف ہندوستان کی مزاحمت
کی علامت بن گئے۔ ہندوستانی ذہن ان کی بادشاہت کو قبول کرچکاتھا۔ہندوستانی
مجاہدین نے میرٹھ سے دلّی کے لال قلعے تک اسی اُمید میں سفرکیاتھاکہ بہادر
شاہ ظفراس جنگ میں روحانی،نظریاتی،اخلاقی اور یہاں تک کہ جسمانی طورپر بھی
ان کی قیادت کریں گے۔عملاً یہ بات بہادر شاہ ظفر کے لیے کس قدر دشوار
تھی،اس سے ہم سب بخوبی واقف ہیں،مگر انہوں نے ہر محاذ پر ساتھ دینے کا عہد
کیا۔اگر چند لوگ دغابازی نہیں کرتے اور انگریزوں کی مخبری نہیں کرتے تو
شاید مغل فرماں روائی کا یہ سلسلہ دراز ہوتااور ہندوستان کی تاریخ جدا ہوتی۔
مئی ۱۸۵۷ء میں آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں تقریباً ساڑھے
چار مہینے جنگ ہوئی مگر بہادر شاہ ظفر کو بھی شکست فاش ہوئی اور آخر کار
ایسٹ انڈیا کمپنی کا عمل دخل ختم ہوکر ہندوستان پر براہِ راست ملکۂ برطانیہ
کی حکومت قائم ہو گئی۔۸۲؍سالہ بزرگ،ہندوستانی دھرتی کے لاڈلے بہادر شاہ
ظفرؔکو۲۱؍ستمبر کو قید کرلیاگیااور زندگی بھر کے لئے رنگون بھیج دیا
گیا۔مگر دیش ایک محب وطن نے ملک سے دور رہ کر بھی ملک کی آزادی کیلئے خود
کو قربان کرتے ہوئے اپنی قلم سے آزادی کی لڑائی کوجاری رکھا اس دو ران
انہوں نے جو غزلیں لکھیں وہ اپنی مہارت اورترقی کے لئے ہندو ستان کی آزادی
کے متوالوں کے دلوں میں کشادہ جگہ رکھتی ہے۔ ۱۸۵۷ء میں انگریز میجر ہڈسن نے
ہندوستان کے خلاف یہ توہین آمیز الفاظ کہے تھے
دم دمے میں ہم نہیں اب خیر مانگو جان کی
اے ظفر! ٹھنڈی ہوئی اب تیغ ہندوستان کی
اس کا جواب بہادر شاہ ظفرؔ نے عام ہند وستانی کے دل کی آواز کے شکل میں کچھ
اس طرح دیا تھا
غازیوں میں بُو رہے گی جب تلک ایمان کی
تخت لندن تک چلے گی تیغ ہندو ستان کی
رنگون میں۶؍نومبر ۱۸۶۲ء کو مغل خاندان کے آخری سپوت اور ۱۸۵۷ء کی پہلی جنگ
آزادی کے رہبر نے اپنی جان نچھاور کردی۔
غزلِ ظفر
لگتا نہیں ہے جی مرا اُجڑے دیار میں
کس کی بنی ہے عالمِ ناپائیدار میں
بُلبل کو باغباں سے نہ صَیَّاد سے گلہ
قسمت میں قید لکھی تھی فصلِ بہار میں
کہدو اِن حسرتوں سے کہیں اور جا بسیں
اتنی جگہ کہاں ہے دلِ داغدار میں
ایک شاخ گل پہ بیٹھ کے بلبل ہے شادمان
کانٹے بچھا دیے ہیں دل لالہ زار میں
عمرِ دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
دِن زندگی کے ختم ہوئے شام ہو گئی
پھیلا کے پاؤں سوئیں گے کُنجِ مزار میں
کتنا ہے بدنصیب ظفر ؔدفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
|