عوام کو درپیش جملہ مسائل اور ریاستی نظام(حصہ دوم)

ریاستی اداروں میں خرابیاں اس وقت پیدا ہوتی ہیں جب ان کو چلانے والے افراد کرپٹ ہو جائیں، ناہل افراد میرٹ کو بالائے طاق رکھ کر رشوت اور سفارش سے اہم اور کلیدی عہدوں پہ بر اجمان ہو جائیں، ان کو اپنا ذاتی مفاد عزیز ہو جائے ، قومی حب الوطنی کے جذبے سے عاری ہو جائیں،عوامی فلاح و بہبود کی بجائے استحصالی فکر ان کا اوڑھنا بچھونا ہو،قومی اداروں کی بہتری اور ترقی کی بجائے اپنی ذات اور خاندان کی ترقی پہ ان کی توجہ مرکوز ہو جائے،ان کا مقصدریاستی اداروں تک رسائی صرف قومی دولت کی لوٹ کھسوٹ اور معاشرے میں اثر رسوخ پیدا کر نے کے لئے ہو، پیشہ وارانہ صلاحیتوں سے محروم ہوں یعنی نااہل ہوں، جب اس طرح کے افراد اداروں کو کنٹرول کر لیتے ہیں تو پھر ریاستی اداروں کا نظام دھن، دھونس ، دھاندلی، سفارش پہ استوار ہو جاتا ہے،میرٹ ،عوامی رائے اور ان کے حقوق کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، پورے معاشرے کے کرپٹ افراد کے مفادات یکجا ہو جاتے ہیں وہ اپنی حکومتی طاقت، اثر رسوخ اور سرمائے کی طاقت سے ایک ایسا سیاسی اور معاشی میکنزم ترتیب دے دیتے ہیں جس سے عوام ان کے سامنے باوجود اکثریت میں ہونے کے بے بس اور مجبور محض ہو جاتے ہیں،سرمایہ دار و جاگیردار طبقہ سے تعلق رکھنے والی بیورو کریسی اور سیاستدان مل کر انتہائی منظم طریقے سے اپنا اپنا حصہ عوام کے جسموں سے نوچتے ہیں، نام نہاد جمہوریت اور عوام کے حقوق کے جھوٹے راگ الاپنے والے مفاد پرست طبقات صبح و شام عوام کو لوٹنے کی حکمت عملی بنانے میں مصروف رہتے ہیں،ایک مخصوص طبقہ نظام کے تینوں اداروں پہ کنٹرول حاصل کر کے قومی خزانے کو اپنی اور اپنے خاندان کی جاگیر سمجھتا ہے، ایسی صورتحال میں جب خود حکومت اور ریاست کو چلانے والے اپنی قوم کے خزانے کو لوٹنا شروع ہو جائیں، اپنے لوگوں کو غلام بنانا شروع کر دیں تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس قوم اور معاشرے کا کیا حشر ہو گا۔مزید بدقسمتی یہ ہوتی ہے کہ قومی سطح پہ ٹیکسوں اور دولت کو تو بے دردی سے لوٹا جاتا ہی ہے ساتھ ساتھ بیرونی عالمی لٹیروں کے ہاتھوں بھی قوم کے اثاثوں کو بیچنے کا کام شروع کر دیا جاتا ہے، ایسی صورتحال کسی بھی قوم کو مزید ذلت اور معاشی غلامی کے اندر دھکیل دیتی ہے۔چونکہ مقننہ ، انتظامیہ و عدلیہ ریاستی سیاسی نظام کا حصہ ہوتے ہیں اس طرح اس کرپشن میں یہ سب برابر کے شریک ہو جاتے ہیں،آئین ہوتا ہے لیکن اس کی بالا دستی صرف خواب بن جاتا ہے، قوانین موجود ہوتے ہیں لیکن ان پہ عمل در آمد کا کہیں شائبہ نہیں ہوتا، استحصالی فکر اس طرح معاشرے پہ غالب آ جاتی ہے کہ ریاستی اداروں کے کرتا دھرتاوں اور ان کی نسلوں کے لئے الگ قانون ہوتا ہے اور عام عوام کے لئے الگ، عوام جس کی طاقت ریاست کے وجود کے لئے ضروری ہوتی ہے، کو ایک مخصوص مفاد پرست ٹولہ یر غمال بنا لیتا ہے، عوام کو بھیڑ بکریوں کی طرح صرف اپنے خاندانوں کے مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیری جاتی ہیں،ایک طرف سیاسی اور معاشی نظام عوام کو بنیادی ضروریات سے محروم رکھتا ہے تو دوسرے طرف عدالتی نظام عوام کو سستا اور آسان اور فوری انصاف دینے میں پوری طرح ناکام ہو جاتا ہے، لوگ عدم تحفظ کا شکار ہو کر متشدد راہ پہ چل نکلتے ہیں۔معاشرہ بے انصافی، معاشی بد حالی کی وجہ سے طرح طرح کی اخلاقی گراوٹوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔بالا دست ریاستی اداروں میں موجود کرپٹ عناصر اپنی کرپشن اور استحصالی کنٹرول کو مضبوط رکھنے کے لئے عوام کو سماجی اور سیاسی سطح پہ تقسیم کے عمل سے گذار کر رکھتے ہیں تاکہ ان میں کبھی یکجہتی اور اتحاد نہ پیدا ہو سکے، اور نہ ہی حقیقی تبدیلی کا شعور پیدا ہو سکے، لہذا انہیں کبھی مذہب کے نام پہ تقسیم کر کے آپس میں لڑایا جاتا ہے تو کبھی لسانیت، صوبائیت اور علاقائیت کے نام پہ آپس میں دست و گریبان کیا جاتا ہے، ریاستی مشینری اپنے مزموم مقاصد کے لئے میڈیا و دیگر آلہ کار عناصر کو معاشرے کی اس تقسیم میں استعمال کرتے ہیں۔

ریاستی اداروں کے اس منفی کردار کو تقویت دینے والا یہ کرپٹ اور نااہل طبقہ اپنا ذاتی و خاندانی مال بناتا ہے، سرمائے کی طاقت سے وہ ہر اس ادارے ، شخص اور گروہ کو خریدتا ہے جس سے اس کے مفادات کی تکمیل ہوتی ہو، لہذا عوام کی کسی بھی سیاسی رائے کی حیثیت معاشرے سے ختم ہو جاتی ہے۔سرمائے کی طاقت کا راج ہوتا ہے، اس سے جس کو چاہے آسانی سے خرید لیا جاتا ہے،اس خرید و فروخت کے نظام کو جمہوریت کا نام دے کر ’’بے کس عوام‘‘کو مزید ذلت کے گڑھوں میں دھکیلا جاتا ہے۔

معاشرے میں افرا تفری، سیاسی انتشار، سماجی محرومی، متشدد روئیے، مفاد پرستی، انفرادیت پرستی، جیسے برے اخلاقیات در اصل ریاستی اداروں کے اس گھناؤنے کردار کی ہی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔عام طور پہ اس طرح کے معاشرے میں ہر فرد انتشار ذہنی میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ اس کو سجھائی نہیں دیتا کہ ان کے مسائل کا کیا حل ہے؟ ہر طرف بے چینی، مایوسی نظر آتی ہے، نظریاتی انتشار پیدا ہو جاتا ہے،خرابی کی اصل وجہ کا شعور نہیں ہوتا، نظام، ماحول کو درست کرنے، محرومیوں اور پریشانیوں کو ختم کرنے کے جزوی حل تجویز کئے جاتے ہیں، اور ان پہ زور و شور سے عمل بھی ہوتا ہے ، لیکن کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوتی،آئے دن حالات بگڑتے چلے جاتے ہیں، کوئی بھی ادارہ فعال نظر نہیں آتا، ادارے جو کہ عوام کے پیسے سے وجود میں آتے ہیں، ان کو چلانے والے عوام کے تنخواہ دار سرونٹس ہوتے ہیں وہ اپنی طاقت سے عوام کے مالک بن جاتے ہیں، وہ ان ہی ریاستی اداروں کو جو عوام کی فلاح و بہبود کے لئے تشکیل دئیے جاتے ہیں ان کے ذریعے وہ عوام کی زندگی اجیرن کر دیتے ہیں، تجارت ومعیشت کی بحالی کا ادارہ صرف کرپٹ حکمران طبقے کی معیشت کو بحال کرنے میں مصروف ہوتا ہے، سیاسی اداروں کی بحالی اور استحکام کرنے والا ادارہ ایک مخصوص مفاد پرست ٹولے کی سیاست اور اس کے مفادات کے تحفظ میں مصروف عمل ہوتا ہے،اسی طرح قانون اور انصاف کے نام پہ اونچی اونچی بلڈنگیں موجود ہوتی ہیں لیکن انصاف صرف طاقتور کے پاس ہوتا ہے کمزور اور غریب سوائے ذلت اور رسوائی کے کچھ اور حاصل نہیں کر سکتا۔ قانون کے معیار بدل دئیے جاتے ہیں، کوئی بھی طاقتور قانون کے شکنجے سے آزاد ہوتا ہے، کمزور کو جب چاہیں قانون کے نام پہ لٹکا دیا جاتا ہے۔

اس بحث سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ معاشرے میں کسی بھی قسم کی خرابی چاہے اس کا تعلق انفرادی سطح سے ہو یا اجتماعی سطح سے سب کی مکمل ذمہ داری ریاستی اداروں کی نااہلی، ناقص منصوبہ بندی، اور کرپشن کی وجہ سے ہوتی ہے، اگر واقعی معاشرے سے ان خرابیوں کو دور کرناہو تو لازمی ہے کہ ریاستی اداروں کے کردار کو بدلا جائے، اس سے مراد یہ ہے کہ ایسے افراد کو ریاستی اداروں کی زمہ داریاں سپرد کی جائیں جوحقیقی معنوں میں عوامی بہبود کا فریضہ انجام دے سکیں،اس حوالے سے عوام ہی وہ طاقت ہے جو اداروں کے اس کردار کو بدلنے کی طاقت رکھتے ہیں، اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اداروں کی ان خرابیوں کا شعور رکھتے ہوں اور پھر درست حکمت عملی سے منظم جدو جہد کے زریعے سے ان عوام دشمن طبقات سے ریاستی اداروں کو چھٹکارا دلائیں۔تاریخ گواہ ہے کہ جب تک کسی معاشرے میں قومی حب الوطنی کی بنیاد پہ گڈ گورنس کے ساتھ ریاستی ادارے کام نہیں کرتے وہ ریاست کبھی اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتی۔
Dr. Muhammad Javed
About the Author: Dr. Muhammad Javed Read More Articles by Dr. Muhammad Javed: 104 Articles with 136833 views I Received my PhD degree in Political Science in 2010 from University of Karachi. Research studies, Research Articles, columns writing on social scien.. View More