حکومتی طفل تسلیاں اور عوامی توقعات

’’2018 ء میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے ساتھ ساتھ گیس کی قلت بھی ختم ہوجائے گی ۔ ملک کو اندھیروں کی طرف دھکیلنے والوں سے کڑا حساب لیا جائے گا ۔ آج ہماری معاشی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان تیزی سے ترقی کر رہا ہے ۔ دنیا ہماری معاشی ترقی کا اعتراف کر رہی ہے ۔ ہماری حکومت کے بعد ’’مارش لاء ‘‘ نہ لگتا تو ملک بے تحاشا ترقی کرتا ۔ پاکستان سٹاک ایکسچینج دنیا کی 10 بہترین مارکیٹوں میں شمار کی جارہی ہے ۔ پچھلی مرتبہ جب سٹاک ایکسچینج آیا تھا تو اس وقت انڈیکس 31000 پوائنٹس پر تھا اور آج جب آیا ہوں تو سٹاک ایکسچینج کا انڈیکس 40 ہزار پوائنٹس سے تجاوز کرگیا ہے ۔ سٹاک ایکسچینج میں بہتری کا کریڈٹ پوری ٹیم کو جاتا ہے ۔پاکستان کے اکثر منصوبے 2018 ء تک مکمل ہوجائیں گے اور اس کے بعد بھی ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل جاری رکھی جائے گی۔‘‘

ان خیالات کا اظہار مؤرخہ 08 ستمبر جمعرات کے روز وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے پاکستان اسٹاک ایکسچینج کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ جب ہماری حکومت آئی تو اس وقت ایکسچینج 19 ہزار پر تھی ، ہم اداروں کو ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ 1972 ء میں قومی ادارے قومیانے کی پالیسی سے ملکی معیشت تباہ ہوکر رہ گئی تھی ، لیکن 1991 ء میں نجکاری کی پالیسی اختیار کرکے دوبارہ ملکی معیشت اور اداروں کی نجکاری کرنے کی پالیسی اپنائی اور آج اداروں نے منافع کمانا شروع کردیے ہیں۔

اس میں شک نہیں کہ اس وقت قومی سطح پر پاکستان کو بہت سے مسائل درپیش ہیں ، جن میں توانائی کا بحران اور امن و امان کی دگر گوں صورت حال سر فہرست ہیں ، لیکن وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے بر سر اقتدار آنے کے بعد قوم سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنے دورِ حکومت میں ملکی امن و امان کی دگر گوں صورت حال بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ ملکی توانائی کے بحران کا بھی خاتمہ کریں گے ۔ انہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ اکثر منصوبے 2018 ء تک مکمل کروالیں گے ،جن سے لوڈ شیڈنگ کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہوجائے گا۔

تاہم یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ سابقہ حکومتوں کے برعکس موجودہ دور میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں نمایاں طور پر کمی دیکھنے کو ملی ہے ۔ موجودہ حکومت اگر اپنے دعوؤں کے مطابق بجلی کے پیدا واری منصوبے مقررہ مدت میں مکمل کرکے لوڈ شیڈنگ پر قابو پانے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو یہ اس کا ایک بہت بڑا کارنامہ تصور کیا جائے گا۔

اس وقت حکومت ملک سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے لئے پوری طرح سرگرم عمل ہے اور یہ سلسلہ اگر اسی طرح جوں کا توں برابر جاری رہا تو ملک سے توانائی کے بحران کے خاتمے کے امکانات روشن سے روشن تر ہوجائیں گے ۔

اسی طرح ملک کے بڑے بڑے شہروں میں میٹروویز تعمیر کیے جارہے ہیں اور لاہور میں اورنج لائن ٹرین کا ٹریک تکمیل کی جانب گامزن ہے ، کچھ نئی سڑکیں بھی بنائی جارہی ہیں اور حال ہی میں وزیر اعظم نے 39 نئے ہسپتال تعمیر کرنے کے منصوبے کا اعلان کردیا ہے ۔ یہ اعلان اور پاک چائنہ اقتصادی راہ داری کی تعمیر کے سلسلے میں اقدامات بھی موجودہ حکومت کی بڑی کامیابیوں میں شمار کیے جاسکتے ہیں ۔ بلاشبہ حکومت کی یہ تمام تر کاوشیں سراہے جانے کے قابل ہیں ۔

جہان تک صنعتوں اور قومی اداروں کو قومیانے اور ان کی نجکاری کی پالیسی کا تعلق ہے تو معاشی سطح پر اس حوالے سے دو مکتب فکر موجود ہیں ۔ ایک مکتب فکر کے مطابق عوام کو روزگار کی بہتر سہولتیں ، ملازمت کا تحفظ اور سرمایہ کاروں کی لوٹ مار روکنے کے لئے صنعتوں اور قومی اداروں کو قومیانہ ہی ایک بہترین پالیسی ہے ۔ جب کہ دوسرا مکتب فکر اس کے برعکس خیالات کا حامل ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ قومیانے کی پالیسی سے ملازمین میں تساہل پسندی اور کام چوری کارجحان بڑھتا ہے جس سے صنعتی ترقی کا پہیہ یا تو سست چلنے چلنے لگتا ہے اوریابالکل ہی جا م ہوجاتا ہے ۔ حکومت نے اگر نجکاری کی پالیسی اپنائی ہے تو اسے ملازمین کی سہولتوں اور روزگار کے تحفظ کو یقینی بنانے کی جانب بھی توجہ دینی ہوگی ۔

اس میں شک نہیں کہ ملکی ترقی کے لئے نیا انفراسٹرکچر بے حد ضروری ہے ، لیکن عوام کے مسائل محض لوڈ شیڈنگ کے خاتمے اور سڑکوں کی تعمیر تک ہی محدود نہیں ، دوسرے کئی شعبوں میں بھی انہیں مختلف قسم کے دسیوں مسائل اور بیسیوں مشکلات کا سامنا ہے۔ ان کے بچوں کو اچھی تعلیم درکار ہے ٗ لیکن اس باب میں حکومت کی توجہ کا عالم یہ ہے کہ اب بھی لاکھوں بچے اس اہم ترین بنیادی ضرورت سے محروم اور اپنے خاندان کے لئے دو وقت کی روٹی کمانے کے لئے مجبور ہیں ۔ لوگ ہسپتال جائیں تو انہیں ڈاکٹر نہیں ملتا ۔ ڈاکٹر مل جائے ٗ وہ نسخہ تجویز کرے تو ادویات نہیں ملتیں ۔ ادویات مل جائیں تو ان کے اصلی ہونے کی یقین دہانی کوئی نہیں کراسکتا ۔اشیائے صرف کی قیمتوں میں عدم استحکام کے سبب مہنگائی دن بدن بڑھتی جارہی ہے ۔ آج اگر ایک چیز 10روپے کی ہے تو کل 15 روپے کی ہوجائے گی ۔ 15کی ہے تو 20 کی ہوجائے گی ۔ 20 کی ہے تو 30 کی ہوجائے گی ۔ غرض یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا ۔ دنیا بھر میں پٹرولیم مصنوعات کے نرخ کم ہوئے اور عوام کو اس کا ریلیف بھی دیا گیا ، لیکن پاکستان شاید دنیا کا واحدملک ہے جہاں عوام کو پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں تخفیف کا پورا فائدہ نہیں پہنچایا گیا۔ان سب با توں کے باوجود بھی حکمران اس بات کے دعوے دار ہیں کہ وہ عوام کو ریلیف دے رہے ہیں ۔

مختصر یہ کہ ملکی ترقی میں تیز رفتار اور بہتر ٹرانسپورٹ کے نظام کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ، تاہم اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو قوم کی تعلیم اور ان کے شعبۂ صحت کی بہتری کی جانب بھی توجہ مرکوز کرنی چاہیے ، جو اس وقت حکومت کی عدم توجہی کے سبب دگر گوں حالت کا شکار ہیں ۔ معاشرے میں بڑھتی ہوئی مہنگائی ، بے روز گاری اور سنگین ترین جرائم پر بھی قابو پانے کے لئے حکومت کو اپنی کوششیں تیز سے تیز تر کرنی ہوں گی ۔

یاد رکھیں ! اگر نونہالانِ وطن کی تعلیم و تربیت ، صحت و سلامتی ، مہنگائی و بے روزگاری اور سنگین ترین جرائم پر قابو پانے کے حوالہ سے حکومت ٗ ملک کی موجودہ صورت حال میں پہلے کی بہ نسبت کچھ بہتر ی نہ لاسکی تو اس کے ان آہنی دعوؤں کی مثال عوام کے حق میں ریگستان کے اس صحرائے سے بالکل مختلف نہیں ہوگی جسے دور سے دیکھ کر پیاسا آدمی پانی خیال کرنے لگتاہے اور جب قریب جاکر دیکھتا ہے تو وہ پانی نہیں بلکہ چمکتی ریت ہوتی ہے۔
 

Mufti Muhammad Waqas Rafi
About the Author: Mufti Muhammad Waqas Rafi Read More Articles by Mufti Muhammad Waqas Rafi: 188 Articles with 255756 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.