میرا کالج کے زمانے کا ایک شعر
ہے جسے میرے دوست اکثر گنگناتے تھے
کیا زمانہ تھا ہم روز ملا کرتے تھے
تیری گلی جا کہ تیرے ابا سے پٹا کرتے تھے
واقعی ہی کیا زمانہ تھا، کتابیں، اور رف پیپرز کو کلو کے حساب سے خریدنا،
اصل میں ہم بی ایس سی کر رہے تھے، کلکیولس اور مکینیکس نے ہماری نیندیں
اڑائیں ہوئیں تھیں، وجہ ایک تو یہ تھی کہ کالج آئے دن بند ہو جاتا تھا، اور
اگر کبھی کھلتا تو وہاں پڑھائی کم اور لڑائی زیادہ ہوتی تھی، ہم جیسے
پڑھاکو بچے کو جس کا کسی بھی تنظیم سے جائز اور ناجائز تعلق نہیں تھا، اسے
ہر تنظیم اپنی طرف گھیسٹ لیتی تھی، سو ہم نے کالج جانا ایک حد تک چھوڑ ہی
دیا تھا، اس وقت موبائل فون تو تھا نہیں کہ پتہ چل جاتا کہ بھائی کالج نہیں
آنا آج پھر بائیکاٹ ہے، اور ویسے بھی ہم کرفیو زدہ علاقے کے باسی تھے، آئے
دن کرفیو اور ہنگامے ۔ ۔۔ ۔پڑھائی کہاں ہوتی، مگر اللہ بھلا کرے چاچا چھوڑو
کوچنگ سینٹر کا جس نے ہمیں پڑھنے میں مدد کی ۔۔ ۔
ایف ایس سی، کراچی کے مشہور کالج، جو شاعر مشرق کے نام پر ہے، جس کے پرنسپل
حسنین کاظمی جیسے استاد تھے، یعنی ائیرپورٹ کے علاقے میں موجود گورنمنٹ
علامہ اقبال کالج، جو گھر سے قریب بھی تھا اور اس وقت پڑھائی بھی ہو جایا
کرتی تھی، ہمارا گروپ شاید واحد گروپ تھا جسے کالج کے اساتذہ نام سے جانتے
تھے، باقی تو طالب علم آتے بھی تھے کلاس میں تو نواں آیا ایں سوہنیا کی
مثال لگتے تھے، خیر جیسے تیسے کر کے اور چوہدری صاحب ( ہمارے کیمسٹری کے
لیکچرر) اور میڈم رخسانہ جو اردو پڑھاتیں تھی کی دعاؤں سے ہم پاس ہو گئے
اور علامہ اقبال کی فکر کے مطابق جامعہ ملیہ کالج ملیر میں داخلہ بھی حاصل
کر لیا۔
اور وہیں سے وہ سب کچھ ہونا شروع ہوا جسکا ذکر آغاز میں کیا ہے، بی ایس کے
آغاز سے پہلے ہی ہم کمپیوٹر کی دنیا میں داخل ہو چکے تھے، بلکہ نام کر چکے
تھے، میری فرسٹ ماڈیول میں سندھ بورڈ کے امتحان میں تیسری پوزیشن تھی، ساری
توجہ کمپیوٹر کی دنیا پر ہو گئی، ایک تو کالج میں پڑھائی نہیں تھی،
پریکٹیکل رجسٹر بھی کاپی کیا گیا تھا، اور کمپیوٹر انسٹیوٹ نہ تو کسی سیاسی
جماعت کی ذیلی جماعت کا گڑھ تھا اور تھا بھی ہنگاموں سے دور ۔ ۔ ۔ سو بی
ایس ای کا پہلا سال تو جیسے تیسے پاس ہو گیا مگر دوسرے سال میں ہمارے گلے
میں مکینکس ہڈی بن کہ اٹک گئی ۔۔ ۔ ۔ ڈپلومہ ہو گیا بورڈ ایگزام ہو گئے مگر
تین دفعہ مکینکس کو پاس نہ کر سکے، پانچ پاچ کلو کے رف پیپرز کی پریکٹس کے
باوجود مکینکس اٹک گئی ۔ ۔۔ ۔ اور اس دوران جاب بھی مل گئی، کمانے بھی لگے
وقت کی کمی بھی ہوگئی، پڑھائی کی طرف سے دل اٹھ گیا ۔ ۔ ۔ ۔۔ اور پھر اللہ
نے اتنی عزت دی کہ سندھ بورڈ کے امتحانی پیپرز بھی بنائے اور چیکنگ بھی کی،
مگر مکینکس کے سال میں دو دفعہ امتحان کے باوجود پاس نہ ہو سکے، ڈگری لینا
ضروری تھا حتیٰ کہ جاب کے لئے اس کی ضرورت نہیں پڑی اور پھر ١٩٩٤ میں ایک
سپلیمنٹ میں اپنا نمبر آ ہی گیا، اور ہم گریجویٹ ہو گئے ۔ ۔ ۔۔ ہنگامے ہوئے
اور ڈگری لینے کے لئے جا ہی نہیں سکے اور پھر وقت نے اپنا چکر چلایا اور ہم
شارجہ آ گئے، یہاں جاب تھی کمپیوٹر پروگرامر کی، انہوں نے کہا کمپیوٹر کے
سرٹیفکیٹ دو ہم نے ڈپلومہ دے دیا اور پھر ہم بھی چکی کی مشقت میں لگ گئے۔
ایک دن ہمارے ایک کالج فیلو نے جو خود بھی مکینکس کا ڈسا ہوا تھا، پوچھا کہ
تم نے ڈگری نہیں نکلوائی ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں یار کبھی ضرورت ہی نہیں پڑی، کبھی
ضرورت پڑے گی نا، تیرا ویزا رینیو نہیں ہوگا، اچھا تو ہم نے ڈگری نکلوانے
کو کہہ دیا، اور مارکس شیٹ بھی نکلوانی پڑی کالج جانا پڑا اپنا ایڈمنٹ کارڈ
بھی دکھانا پڑا ۔ ۔ ۔ خیر ڈگری مل گئی ۔ ۔ ۔ کلیہ علوم کی ۔ ۔۔ مگر جب
عربیوں نے دیکھا تو کہا نہ جی نہ یہ ڈگری جعلی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یاد رہے اس
وقت تک ڈگری یافتہ رکن اسمبلی کا چکر نہیں چلا تھا، ورنہ ہم بھی خود کو خوش
قسمت سمجھتے ۔ ۔۔
سو ڈگری کو ہائیر ایجوکیشن بھجوایا گیا۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم پہلے
پاکستانی ہیں جنکی ڈگری ہائیر ایجوکیشن کو بھجوائی گئی اور تصدیق کی گئی ۔
۔۔ ۔ مگر اس پر اکتفا نہیں کیا گیا، ہماری ڈگری فارن افئیر اور یو اے ای
ایمبیسی نے بھی تصدیق کی ۔ ۔۔ ۔ اور پھر ہم باقاعدہ گریجویٹ ہو گئے۔
آج جب بھی اپنی ڈگری دیکھتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ یہ جعلی ہے، مگر اس کے
پیچھے لگی مہریں کچھ اور ہی کہتیں ہیں، شاید ایک بار پھر تصدیق کی منتظر
ہیں مگر میں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ میری ڈگری جعلی ہے کیونکہ اسے بے قاعدگی
سے حاصل کیا گیا ہے، مکینکس میں اتنا لڑھکے ہیں کہ اب تک پیرا بولا اور
ہایپر بولا کی ایکویشن یاد ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ کاش میری ڈگری اصلی ہوتی تو کم سے
کم میں اسمبلی کا ممبر تو بن سکتا تھا ۔ ۔۔ ۔ ۔ چاہے بعد میں جعلی نکلتی
۔۔۔۔۔۔ میں اب بھی کہتا ہوں میری ڈگری جعلی ہے تو کوئی ہے جو مجھے رکن
اسمبلی کا ٹکٹ دے ۔ ۔ ۔ ۔ |