رائج الوقت نظام سیاست میں حکومت کرنا
وزیراعظم کا کام ہےاور پارٹی چلانا صدر کی ذمہ داری ہے لیکن بدقسمتی سے فی
الحال وزیراعظم کونہ توحکمرانی کے فن سے واقف ہیں اورنہ انہیں اس میں
دلچسپی ہے۔اس لئے اپنے آپ کو مصروف رکھنے کیلئے وہ پارٹی چلاتے ہیں اور جب
اس خشک کام سے اوب جاتے ہیں تو برائےتفریح غیر ملکی دورے پر نکل جاتے ہیں۔
برسرِ اقتدار جماعت کے صدرکو چونکہ وزیراعظم نے عملاً بے دست وپا کررکھا ہے
اس لئےوہ کوئی سنجیدہ ذمہ داری ادا کرنے کے بجائے جملہ بازیکرتے ہیں ۔انہوں
نے لفظِ جملہ کو نئے قالب میں ڈھال کرفرہنگِ زعفرانیہ میں ایک نئے محاورے
کا اضافہ کیا ہے۔ پہلے تو شاہ جی نے ۱۵ لاکھ اور اچھے دنوں کو محض ایک
سیاسی جملہ قراردے دیا جیسے تقریر میں وزن پیدا کرنے کیلئے استعمال کیا گیا
تھا۔ اب مرکزی وزیر نتن گڈکری نے یہ انکشاف کیا کہ وہ اچھے دن والا مکالمہ
بھی چوری کاتھا جسے اول تو سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے استعمال کیا اور
مگر لوگ اسے بھول بھال گئے۔ مودی جی نے اس کا استعمال اس کثرت سے کیا کہ
گذکری کے مطابق وہ ان کے گلے کی ہڈی بن چکا ہے۔ ایسے میں لازم ہے کہ اس ہڈی
کو نکال کر تفتیش کیلئے تجربہ گاہ میں تصدیق کیلئے روانہ کیا جائےکہیں وہ
ہڈی گئو ونش کے کسی مویشی کی تو نہیں ہے؟
مودی جی کے جب اچھے دن آگئے تو انہیں احمدآباد کو خیربادکہہ کر دہلی جانا
پڑا ۔ اپنی تاجپوشی کے بعدانہوں نے ۷۲ سالہ آنندی بین کو گجرات کی مہارانی
بنایاجن کا تعلق پٹیل برادری سے ہے۔ ایک سال کے اندر ہی آنندی بین کے اپنے
خیمہ میں ہاردک پٹیل نے الم بغاوت بلند کرکے ان کی نیند حرام کردی ۔ گجرات
کے اندردوسرا زلزلہ اونا میں برپا ہوا جہاں چار دلت نوجوانوں کو ایک مری
ہوئی گائے کی کھال نکالتے ہوئے دیکھ کر گئو بھکتوں کی آنکھوں میں خون اتر
آیا اور وہ ان پر ایسے پل پڑے کہ مارمارکرادھ مرا کردیا ۔ اونا کا فائدہ
اٹھا کر امیت شاہ نے آنندی بین کو چلتا کیا اوراپنے ہم ذات وجئے روپانی کو
وزیراعلیٰ بنا دیا ۔ گجرات کی رانی آنندی بین یہ زہر کا پیالہ تو کسی طرح
پی لیا مگر بدلہ لینے کا انتظار کرنے لگیں جس کا موقع انہیں بہت جلد میسرآ
گیا ۔
وجئے روپانی نےاپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کیلئے سورت میں ایک جلسۂ عام کا
اہتمام کروایا اور اس میں اپنے محسنِ اعظم امیت شاہ کو بلایا ۔ شاہ بصد شوق
سورت توپہنچ گئےلیکن نہیں جانتے تھے کہ کون سی رسوائی ان کی منتظر ہے ۔
سرکاری سرمایہ داروں کی جانب سے منعقدہ تقریب کا مقصد پٹیل برادری کے ارکان
اسمبلی کی وزیراعلیٰ اور پارٹی کے صدر کے ہاتھوں پذیرائی تھا۔ اس دوران
پاٹیداروں کی جانب سےاحتجاج کےپیش نظرحفاظتی انتظامات سخت کردئیے گئے
نیزاسٹیج کے سامنے جوتوں سے تحفظ کی خاطر جالی لگا نے کا نادر طریقہ اپنایا
گیا ۔ منتظمین کو توقع تھی کہ لاکھوں پٹیل شریک ہوں گے لیکن بی جے پی کے
باغی رکن اسمبلی نلن کوٹاڈیہ نے اپنے ۵۰۰ ہمنواوں کی مدد سے یہ خواب چکنا
چور کردیا اور بہ مشکل تمام دس ہزار لوگ جلسہ گاہ تک پہنچ سکے۔ اس کے
باوجود چہار جانب خوشی کا ماحول تھا ۔ بظاہر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وجئے
روپانی نے بازی مارلی ہے لیکن یہ قبل ازطوفان کی خاموشی تھی ۔
پاٹیدار سماج کے لوگ اپنے سروں پر زعفرانی ٹوپیاں سجا ئےامیت شاہ کے منتظر
تھے۔ ان کے مائک پر آتے ہی نعرے بازی کی سونامی پھوٹ پڑی اور دیکھتے
دیکھتے کرسیاں ہوامیں اچھلنے لگیں۔ امیت شاہ نے شورو غل کے درمیان صرف چار
منٹ تک خطاب کیا اور وجئے روپانی تو دو منٹ سے زیادہ نہیں بول پائے ۔۔ پولس
کی لاکھ کوشش کے باوجود طوفان بدتمیزی تو نہیں تھما ہاں امیت شاہ کا خطاب
درمیان میں تھم گیا اور وہ منہ لٹکائے سورت سے ’’بڑے بے آبرو ہوکر‘‘ لوٹ
گئے۔ اس طرح یہ ثابت ہوگیا کہ گجرات کا اکاّ فی الحال نریندر مودی نہیں
بلکہ ہاردک پٹیل ہے ۔ وہ چاہےتوکسی کے تاج سجا کراسے بادشاہ بنا دےیادھتکار
کر غلام بنا دے۔
امیت شاہ نےسورتمیں اعلان کیا کہ ’’پاٹیدار گجرات کی اور بی جے پی ترقی
وتوسیع میں ریڑھ کی ہڈی تھے‘‘۔ یعنی انہوں نے بلاواسطہ تسلیم کرلیا کہاب
ایسانہیں ہے۔ اپنے آقا و مالکسمراٹ نریندر کے چرنوں میں بیٹھ شاہ نےسورت
کی ذلت کا الزام آنندی کے سر منڈھ کر سرزنش کی التجا کی ۔ مودی جیکوچاہئے
تھا کہ اپنے داس امیت شاہ سے کہتےکہ سورت کی تقریب غیر سرکاری تھی ۔ اس کا
تعلق مرکزی حکومت سے نہیں پارٹی سے تھا چونکہ تم صدرہو یہ تمہاراسر درد
ہےمجھے اس بکھیڑے میں مت گھسیٹو میرے پاس دیگر اہم و ضروری کام ہیں لیکن
ایسا نہیں ہوا۔سمراٹ مودی میں اگر ایسےسمجھدار ہوتے تو امیت شاہ کے ہاتھوں
میں پارٹی کمان کیوں تھماتے ۔
سورت کے فلاپ شو کی اولین ذمہ داری ہاردک پٹیل پرہے جس نے پاٹیداروں کو بی
جے پی کا اصلی چہرہ دکھلا کر انہیں برگشتہ کردیا ۔پٹیل سماج کوپھر سے
اعتماد میں لینا وزیراعلیٰ روپانی کی ذمہ داری ہے جس میں وہ ناکام رہے اس
لئے وہ دہلی طلب کئے جانے کا سزاوار تھے کیونکہ وہ پہلےگجراتکے صدر بھی رہ
چکے ہیں ۔روپانی کو اگر دہلی بلا کر ڈانٹ پلائی جاتی تو الزام ہاردک پٹیل
تک محدود رہتا لیکن مودی جی نے آنندی بین کو دہلی طلب کرکے خود اپنے پیر
پر کلہاڑی چلادی اورسورت کی ہنگامہ آرائی کو پارٹی کیداخلی مہابھارت میں
تبدیل کردیا۔ آنندی بین دہلی آکر لوٹ گئیں لیکن بی جے پی کا آنند پلٹ کر
نہیں آیا ۔ امیت شاہ کے کانوں میں اب بھی’’ امیت شاہ گو بیک‘‘ کے نعرے
گونجتے ہیں اور خوابوں میں کرسیاں اور بوتلیں اچھلتی ہیں ۔
وزیراعلیٰ وجئے روپانی کے خوف کا یہ عالم ہے کہ خود اپنے علاقہ میں ایک
اسپتال کا سنگ بنیاد رکھنے کیلئے منعقدہ تقریب سے قبل ۲۵ مشتبہ لوگوں کو
حراست میں لےلیا اور زیادہ تر شرکاء کیلئے زمین پر بیٹھنے کا انتظام کیا
گیا تاکہ نہ رہیں کرسیاں اور نہ اڑیں کرسیاں ۔ چند لوگوں کیلئے تو کرسیاں
بچھائیں تو انہیں آپس میں اس طرح باندھ دیا گیا کہ اٹھا کر پھینکا نہ جا
سکے ۔ ان انتظامات کے بعد بھی وزیراعلیٰ کا خوف نہیں گیا تو انہوں نے نہایت
مختصر خطاب علاقہ کی ترقی میں نریندر بھائی کی طرح خصوصی دلچسپی لینے کا
وعدہ توکیامگر اپنے گرو امیت شاہ کا نام تک لب پر لانے کی جرأت نہ کرسکے۔
اس پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے سوراشٹر میں پٹیل ریزرویشن تحریک کے
رہنما نیلیش اروڈیہ نے کہا گجرات میں ہٹلر راج چل رہا ہے ۔پولس نے ان کے
کارکنا ن کو جلسہ گاہ میں جانے سے روک دیا۔ ظاہر ہےجس تحریک رہنما کو باغی
قرار دے کر ریاست بدر کردیا گیا ہے اس کے کارکنان کو احتجاج کرنے کا بجا
طور پر حق ہے اور اس کو جس قدرسختی کے ساتھ کچلا جائیگا عوام کےغم و غصہ
میں اسی قدر شد ت آئیگی۔
امیت شاہ کی یہ حالت زار صرف گجرات تک محدود نہیں ہے۔ اتر پردیش میں امیت
شاہ نے متھرا کے اندر ۴۰۰۰۰ہزار دلتوں کے ساتھ بودھ بھکشووں کے استقبال کا
منصوبہ بنایا تھا لیکن مایا وتی کے خلاف ایک بیان سے بی جے پی کے خلاف کچھ
ایسی ہوا بنی کہ ۴۰ دلت بھی جمع نہیں ہوپائے نتیجہ یہ نکلا کہ ریلی منسوخ
کرنی پڑی لیکن اب یہ فتنہ بی جے پی کے حدود سے نکل کر آرایس ایس کو اپنی
لپیٹ میں لے رہا ہے۔ گوا کے اندر امیت شاہ کی آمد کے موقع پر آرایس ایس
کے لوگوں نے سیاہ پرچم لہرا کر احتجاج کیا۔ گوا کے اندر آرایس ایس کے سنگھ
چالک سبھاش ویلنگکر کا صوبائی حکومت کے انگریزی میڈیم اسکول کی سرپرستی کو
لے کر پرانا اختلاف ہے ۔ ان کا موقف ہے کہ بچوں کو ان کی مادری زبان میں
تعلیم دی جانی چاہیےاس لئے انگریزی میڈیم اسکولوں کی سرکاری مدد بند کی
جائے۔
گوا کے اندر اقتدار میں بنے رہنے کیلئے بی جے پی اس مطالبے کو قبول نہیں
کرسکتی۔ وہاں تو اس نے گئو کشی کی بابت بھی مصالحت کررکھی ہے اور نہ صرف یہ
کہ گوا کے اندربیف پر پابندی نہیں ہے بلکہ اضافی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے
کرناٹک سے بڑے جانور کا گوشت کھلے عام در آمد کیا جاتا ہے۔ وہ تو خیر
ویلنگکر نے بیف کے بجائے اپنی تحریک کو زبان تک محدود کررکھا ہے ورنہ وہاں
کےمقامی لوگ اسی کو تندور میں جھونک دیں گے ۔ امیت شاہ کو اپنے خلاف کالی
جھنڈیاں دیکھ کر اس قدر غصہ آیا کہ اس نے آرایس ایس پر دباو ڈال کر سبھاش
ویلنگکر کی بھی وہی حشر کیا جوکہ گجرات میں آنندی بین کا کیا تھا۔ آنندی
بین تو خیر امیت شاہ کا کچھ نہ بگاڑ سکیں لیکن سبھاش ویلنگکر نے بغاوت کردی
اور ان کے ساتھ ۴۵۰ سوئم سیوکوں نے سنگھ کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کراسے لہو
لہان کر دیا ۔
اس ایک واقعہ نے کئی غلط فہمیاں دور کردیں ۔ اول تو یہ کہ بی جے پی آرایس
ایس کے اشارے پر چلتی ہے ۔ اب تو یہ صورتحال یہ ہے کہ آرایس ایس بی جےپی
کو ساشٹانگ نمسکار کرتی ہے ۔ اسے کہتے ہیں اقتدار کا چمتکار ۔ اگر ایسا نہ
ہوتا تو ویلنگکر کی چھٹی نہیں ہوتی اور سنگھ کو ۴۵۰ سوئم سیوکوں کا صدمہ نہ
برداشت کرناپڑتا۔ ایک اور غلط فہمی یہ تھی کہ سنگھ نہایت منظم تحریک ہے ۔
اس کے کارکنان بڑے نظم و ضبط کے پابند ہیں لیکن سیاست کی ہوا کھانے
والےسویم سیوک بارہا بغاوت کرچکے ہیں۔ جن سنگھ کے صدر بلراج مدھوک نے الگ
ہوکر اپنی جماعت بنالی تھی ۔ اس کے بعد اوما بھارتی ، واگھیلا ، کیشو بھائی
پٹیل، کلیان سنگھ ، شتروگھن سنہا، کیرتی آزاداوریدورپا جیسے نہ جانے کتنے
لوگ بی جے پی کو چھوڑ کر باہر گئے بھی ااور واپس بھی آگئے لیکن آرایس ایس
میں یہ نہیں ہوا تھا سو امیت شاہ کی مہربانی سے یہ بھی ہوگیا ۔ اس کا رنامہ
کو انجام دینے کےلئے امیت شاہ صاحب خاص مبارکباد کے مستحق ہیں ۔
سبھاش ویلنگکر نے صاف طور پر یہ الزام لگایا ہے کہ انہیں وزیردفاع منوہر
پریکر اور امیت شاہ پر تنقید کرنے منع کیا گیا ۔ مہیش نے سوال کیا کہ اس
طرح کی پابندیوں کے ساتھ کوئی سماجی کام کیسے کرسکتا ہے ؟ اس سوال کے بطن
سے ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو سنگھ پریوار خود اپنے ارکان اور
رہنماوں پر زبان بندی کی قدغن لگاتا ہے وہ بھلا غیروں کے اختلاف کو کیسے
برداشت کرے گا ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ تمام تر چکنی چپڑی باتوں کے باوجود عدم
رواداری ان لوگوں کے رگ وپئے میں بسی ہوئی ہے جس کے سبب سے یہ اول تو قوم
کو نقصان پہنچاتے ہیں اور پھر خود اس کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ویلنگکر کی جگہ
اب لکشمن بہرے کو آرایس ایس کی کمان تھمائی گئی ہے۔
مودی اور امیت شاہ کے راج میں یہی ہوگا کہ بہرے اور گونگوں کو ذمہ داریاں
سونپی جائینگی تاکہ وہ صدائے احتجاج نہ بلند کرسکیں لیکن خلاف توقع لکشمن
بہرے نے بھی امیت شاہ کے رویہ کو غلط ٹھہرا کر اپنے پیش رو سبھاش ویلنگکر
کے موقف کی تائید کردی ۔ انہوں نے کہا کہ امیت شاہ کو مظاہرین سے مل کر ان
کی شکایت کو سننا چاہئے تھا ۔ امیت شاہ کا ملاقات سے انکار اس تنازع کا سبب
ہے۔ ممکن ہے یہ باغی سویم سیوکوں کا غصہ ٹھنڈا کرکے انہیں دوبارہ سنگھ میں
لانے کی ایک چال ہو لیکن اس سازش کو سوئم سیوکوں سے بہتر اور کون سمجھ سکتا
ہے ؟آرایس ایس جس طرح والے ویلنگکر کے ہمنواوں کو رجھانے کیلئے اپنا جال
ڈال رہی ہے اسی طرح ویلنگکر بھی اپنی مورچہ بندی میں مصروف ہیں ۔وہ اپنے
آپ کو آرایس ایس کے نظریہ سے تو الگ نہیں کرتےلیکن اس کے رہنماوں کو
تنقید ککا نشانہ بنا رہے ہیں۔ پہلے انہوں نے شاہ اور پریکر کو موردِ الزام
ٹھہرایا اور پھر کہہ دیا کہ سرسنگھ چالک تو غلط ہوسکتے ہیں لیکن سنگھ غلط
نہیں ہوسکتا۔
بھاگوت نے چونکہ ویلنگکر کو نکال باہر کیا اس لئے بھاگوت پر نشانہ سادھنا
ان کی ضرورت تھی مگر ایسا کرتے ہوئے آرایس ایس پر تنقید نہ کرنے انہیں بڑا
فائدہ ہوا ۔بغاوت کے بعد ویلنگکر کے متوازی اجلاس میں ریاست بھر کے۲۰۰۰
سوئم سیوک شریک ہوئے یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اونٹ
کس کروٹ بیٹھتا ہے نیزشئے اور مات کے اس کھیل میں بازیکون مارتا ہے؟سنگھ کے
مبہم بیانات سے سنگھ اس کا بھاری نقصان ہوگا اور اگر ویلنگکر اپنا سیاسی
محاذ بنا کر انتخاب کے میدان میں اترتے ہیں تو سنگھ کیلئے اپنے کارکنان سے
بی جے پی کی حمایت کروانا مشکل ہوجائیگا۔ ویسے بی جے پی کے ایک دشمن نما
دوست شیوسینا تو ابھی سے ویلنگکر کی حمایت کا اعلان کردیا ہے ۔ اس بار
کیجریوال بھی گوا کے انتخاب میں خصوصی دلچسپی لے رہے ہیں دیکھنا یہ ہے کہ
ویلنگکر اور کیجریوال کے درمیان کیا کھچڑی پکتی ہے؟ لیکن یہ طے ہے کہ گوا
میں بی جے پی الیکشن کے بعدبیف کباب بیچے گی۔
گوا تو خیر ایک ننھی سی ریاست ہے اور اس کے انتخاب کا قومی سطح پر کوئی خاص
اثر نہیں پڑے گا لیکن چونکہ وزیراعظم اور بی جے پی صدر دونوں کا تعلق گجرات
سے ہے اس لئے وہاں پر ہزیمت بی جے پی کوضرورت مہنگی پڑے گی۔گجرات کے اندر
بی جے پی دوہرے عذاب کا شکار ہے۔ ایک طرف پٹیل برادری کی آگ ہے اور دوسری
جانب دلت سماج کی کھائی ہے۔ گجرات کو خوشنما بناکر پیش کرنے کیلئے گجرات
حکومت کے سیاحتی محکمہ نے امیتابھ بچن کی مدد سے’’ گجرات کی خوشبو‘‘ نامی
مہم چلائی تھی ۔ اس کے جواب میں گجرات کے دلت ’’بدبودار گجرات‘‘ کے عنوان
سے ایک پوسٹ کارڈ مہم شروع کرنے جارہے ہیں ۔ جس کے تحت وزیراعظم اور
امیتابھ بچن سمیت ہزاروں لوگوں کو پوسٹ کارڈ لکھ گجرات آنے کی دعوت دی
جائیگی تاکہ وہ گجرات میں مرے ہوئے مویشیوں سے اٹھنے والے تعفن کو محسوس
کرسکیں ۔
گجرات کی بدبو نامی مہم کے آغازکی خاطر دلتوں نے مودی جی کے جنم دن کا شبھ
مہورت نکالا ہے۔اپنی ۶۶ ویںسالگرہ پر مودی جی کیلئے اس بدبودار پوسٹ کارڈسے
اچھا تحفہ اور کون سا ہوسکتا ہے؟ اونا کے دلت رہنما جگنیش میوانی کے مطابق
گجرات میں دلتوں نے مرے ہوئے جانوروں کو ٹھکانے لگانا بند کردیا ہے۔صوبے
میں سیکڑوں گائیں ادھراُدھر مری پڑی ہیں ۔ اسی طرح دلت بھی مارے جارہے ہیں
۔ میوانی نے مزید بتایا کہ ۱۴ ستمبرکو وہ احمدآباد میں ایک جلسۂ عام کا
انعقاد کرکے ریل روکوتحریک کی منصوبہ بندی کرنے والےہیں۔ گجرات کے اندر بی
جے پی کی مشکلات میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے اگر یہ سلسلہ نہیں رکا
تووہ دن دور نہیں اس پارٹی کی سیاسی لاش بھی ایک ایسیحالت میں کسی سڑک کے
کنارے پڑی نظر آئےکہ سنگھ بھی اس کا پرسانِ حال نہ ہو۔
|