زمین پہ جنت ۔۔۔۔ کشمیر ۔۔۔۔ اور اس کے
گرمائی دارالحکومت سری نگر میں وہ ایک معمول کی صبح تھی ۔۔ معمول اس طرح کہ
71 روز سے کرفیو لگا ہوا تھا سورج روز طلوع ہوتا اور اس روز بھی طلوع ہوا ۔
وادی کی تارکول سے بنی سڑکیں سونی سونی ہوتیں اور اس روز بھی تھیں ۔۔۔جس پر
بندہ تھا نہ بندہ زار ،،بس بندوق برادر تھے جس کےسینے میںانسانی دل کے
بجائے کوئی حیوانی دل دھڑکتا تھا اور وہ ہر طرف پھر رہے تھے کچھ کی سنگینیں
نکلی ہوئی تھیں اور کچھ کی نہیں ۔۔۔ وہ بھی ایک دوسرے کو دیکھ دیکھ کر تنگ
آ گئے تھے آخر ایک ہی ماحول میں انسان ایک ہی انسان سے کتنی باتیں کر سکتا
ہے ۔۔۔۔ وہ ظلم کے عادی تھے ہر روز نیا ظلم ۔۔۔ نئے ظلم کی داستان ۔۔۔۔ان
کے نس نس میں خون دوڑ رہا تھا لیکن پھر بھی وہ جنم جنم کے خون کے پیاسے تھے
۔۔ اور وہ بھی صرف انسانی خون۔۔۔۔۔ اور جسے خون کی لت لگ جائے اسے ختم کرنا
آسان نہیں ۔۔۔ سوائے قدرت کے ،،جو خون کے لوتھڑے سے بنے بڑے بڑے سورماؤں کو
پل بھر میں ذلیل اور رسوا کردیتا ہے ۔۔۔معصوم اور فطرت سے قریب تر رہنے
والے کشمیریوں کو بھی اس کا مکمل ادراک ہے کہ ظلم بڑھنے سے ہی ختم ہوتا ہے
۔۔۔ یہی وہ پیام تھا جس نے گیارہ سال کے ناصر شفیع کو گھر سے باہر نکلنے پر
مجبور کیا وہ جمعہ کو ایک احتجاج میں شریک تھا اور پھر لاپتہ ہو گیا ۔۔۔
ہفتہ سترہ سمتبر کو اس کی لاش ایک آبی ذخیرہ کے قریب سے ملی۔۔۔لاش کیا تھی
ایک پھول تھا جسے چھرے والی بندوق نے چھلنی کر دیا تھا ۔۔۔ ناصر کو نصرت
ملی اور کشمیری مسلمانوں کو ایک نیا ولولہ ۔۔۔۔۔
نویں جماعت کے اس لڑکے کی شہاد ت نے چنار وادی میں آگ لگا دی ۔۔۔۔۔۔ اس روز
سری نگر کا درجہ حرارت حالانکہ ستائیس ڈگری تھا لیکن کشمیریوں کا خون کسی
آتش فشاں کی طرح کھول رہا تھا۔۔نوجوان برہان وانی کی شہادت کو ابھی ڈھائی
مہینے بھی نہیں ہوئے تھے کہ قابض فوج نے ایک اور نوجوان کو شہید کردیا ۔۔۔
برہان وانی کے بعد ایک اور جان۔۔ اور ایک جان ۔۔۔۔۔۔ 71 روز میں 104
کشمیریوں کی شہادت اور پندرہ ہزار سے زائد زخمی ۔۔۔۔۔۔ بھارت کا یہ کیسا
اٹوٹ انگ ہے کہ اس نے کشمیریوں کو بدترین ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بنایا
ہوا ہے ۔۔۔ یہ صرف ایک ریاست کا حال ہے بھارت کے اندر دیگر ایسی کئی
ریاستیں ہیں جہاں بڑی جمہوریت کی دعوے دار حکومت انتہائی چھوٹی چھوٹی اور
نیچ حرکتیں کررہا ہے ۔۔۔ لیکن جنت نظیر ریاست کے جنتی باشندوں پر اتنا ظلم
۔۔۔۔ دور مت جائیں بھارت کا اپنا این ڈی ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق
بھارتی فوج معصوم اور نہتے کمشیریوں پر تیرہ لاکھ چھرے والے کارتوس چلا چکی
ہے جس کے نتیجے میں اسپتال کے اسپتال زخمیوں سے بھر چکے ہیں اور جو ان
زخمیوں کو دیکھے تو اسے بھارت کے سیکولر ہونے کا چہرہ بھی داغدار نظر آتا
ہے ۔
8 جولائی سے دنیا کی سب بڑی ریاستی جیل میں ظلم کا جو بازار گرم ہے اس نے
ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے عالمی رہنماؤں اور تنظیموں کو کئی ہفتے بعد صرف
جھجھوڑنے کی حد تک ہلایا۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا مذمتی بیان آیا
اور ویسے بھی عالمی ادارے میں کشمیر سے معتلق جو قراردادیں پاس ہوئیں اس سے
متعلق یہی بات سامنے آئی ہے کہ اس کا کام مذمت تک ہی ہے اس پر ایکشن لیا
نہیں لیا جاسکتا لہذا دنیا والو! دھنیا پی کر سو جاؤ دماغ کی لسی بنانے کی
کوئی ضرورت نہیں اور جہاں تک امریکا بہادر کا تعلق ہے تو اس نے پاکستان اور
بھارت کو اپنے مسائل آپ حل کرنے کا مشورہ دیا ہے ۔۔۔ ہاں یورپ کے کسی ملک
یا پھر کسی غیر مسلم ملک میں یہ سب کچھ ہوا ہوتا تو اوباما انتظامیہ کا
موقف مصالحانہ کے بجائے جارحانہ ہوتا ۔۔۔۔ ویسے بھی انکل سام کو اپنے ساڑھے
تین ہزار شہریوں کا بدلہ دس لاکھ سے زائد مسلمانوں کو مار کر لینے کا حربی
فن تو خوب آتا ہے۔
48 سال پہلے بھی کشمریوں پر ظلم ہوتا تھا اور آج بھی کشمیریوں پر ظلم ہورہا
ہے بچے یتیم بھی ہورہے ہیں اور شہید بھی۔خواتین بیوہ بھی ہورہی ہیں اور
شہید بھی ،بیٹیاں بے آسرا اور بے آبرو بھی ہورہی ہیں اور شہید بھی ، نوجوان
معذور بھی ہو رہے ہیں اور شہید بھی مرد لاپتہ بھی ہو رہے ہیں اور شہید بھی
۔۔۔۔۔۔لیکن ان مظلوم کشمیریوں کے ساتھ آج بہت کم ریاستیں کھڑی نظر آتی ہیں
پہلے خطبہ حج میں بھی کشمیریوں کی اخلاقی مدد سے متعلق ذکر آ جایا کرتا تھا
اس بار ایسا بھی نہیں ہوا اور جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو اس کی کشمیر
کمیٹی اور اس کےسدا بہار چیئرمین کا ذکر کرنا نہ کرنا برابر ہے کہ موصوف کو
جہاں جانا چاہئے وہ انہیں آنے نہیں دیتے اور جہاں جاتے ہیں وہاں سے بھی
انہیں خاطر خواہ مدد نہیں ملتی اب برہان وانی کی شہادت کے بعد کچھ بیدار
ہوئے تو اپنوں کو نوازنے کے لئے بیرون ملک بھیج دیا کہ جاؤ کشمیریوں کا
موقف پیش کرو اور بقول شخصے جب ایک وفد کے ایک رکن سے پوچھا گیا کہ مسئلہ
کشمیر پر پاکستان ،بھارت اور کشمیر کے موقف میں کیا فرق ہے تو وہ آئیں
بائیں شائیں کرتے نظر آئے ۔ ایسے میں کون ذی الشعور اپنے شعور کی کھڑکیاں
ان کے لئے کھولے گا کہ یہاں کے مکین تو دروازے بند کرکے کب سے بے خبری کی
نیند سوئے ہوئے ہیں اور اپنے کشمیری النسل وزیر اعظم کی بات کریں تو انہیں
بھی کشمیریوں کا خیال تب آیا جب وہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لئے
امریکا روانہ ہونے والے تھے ۔۔۔ مظفر آباد گئے اور حریت کانفرنس آزا د
کشمیر شاخ سے ملاقات کی ایک ملاقات آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے کی اور گڈ
بائے کہتے ہوئے امریکا سدھار گئے ۔ نہ پارلیمنٹ کو پوچھا نہ پروان میں لانے
والے عوام سے ۔۔۔۔ہم کشمیریوں کی آواز بلند کرنے کے لئے بس اتنا ہی سنجیدہ
ہیں یہ تو بھلا ہو تہمینہ جنجوعہ کا جس نے خاتون ہونےکے باوجود جنیوا میں
انسانی حقوق کمیشن میں جو بولا۔۔ خوب بولا ۔۔۔بودے مرد حکمرانوں سے شاید یہ
بولنا تو درکار سوچنا بھی سوہان روح کے مترادف ہوتا ۔۔۔ ہماری بد قسمتی ہے
کہ ہم پاکستان کے اندر کی کھچڑیوں میں اس قدر الجھ چکے ہیں کہ وہ دیوار جس
نے مسلمان کو مسلمان کے ساتھ جوڑے رکھا ہوا ہے سے سرکتے جا رہے ہیں لیکن اس
کے باوجود کمسن ناصر ہم سب کے لئے امید کا چراغ ہے جس نے اپنی شہادت سے اور
سبز ہلالی پرچم میں لپتی لاش سے بتا دیا کہ کشمیر پاکستان کا ہے ،بھارتی
غلامی سے آزادی کشمیریوں کا پیدائشی مطالبہ ہے اور اس چراغ کو روشن رکھنے
کے لئے اس بہادر لڑکے نے اپنے سنہرے آج کو اس روشن کل پر قربان کردیا جو
آزادی کا سورج لے کر طلوع ہو گا ۔۔۔۔۔ انشاءاللہ |