میڈیا کو سیاست نے جکڑ رکھا ہے

میڈیا کے دوسرے ممالک میں بھی بڑے بڑے اور ماثرگروپس ہیں۔لیکن وہاں پر آن سیاست زیر بحث نہیں لائی جاتی۔ملک میں پائے جانے والے دیگر شعبہ جات کابہت ذکر ہوتا ہے۔ایک ہمارا ہی میڈیا ہے جس کوجب بھی دیکھو سیاسی مسائل میں الجھا ہوا ہوتا ہے۔سیاست ہی زیر بحث ہوتی ہے۔سیاسی نوعیت کی خبروں کوہی زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔سیاسی خبر چاہے صرف ایک کارکن ایک صوبائی حلقے کے ممبر کی ہو۔میڈیا کی تمام توپوں کا رخ(لمبے لمبے کیمرے اب توپیں لگتی ہیں)بس اسی طرف ہوجاتا ہے۔اسے ہم بدقسمتی ہی کہ سکتے ہیں۔گزشتہ جمعہ کو تو حدہی ہوگئی فاٹا کے ایک علاقے مہمند ایجنسی کی جامع مسجد میں عین نماز جمعہ کے وقت خودکش دھماکہ ہوا۔اتوار کے روز کی خبروں کے مطابق 36۔لوگ مارے گئے اور بے شمار زخمی ہوئے۔اس پورے واقعے کو کسی میڈیا چینل نے بھی اہمیت نہ دی۔فوکس صفر کے برابر رہا۔اس کے عین برعکس ایم۔کیو ۔ایم کے ایک صوبائی ممبر اسمبلی کی عارضی اور وقتی گرفتاری کی طرف پورا قومی میڈیا فوکس کئے ہوئے تھا۔بہت سے گھنٹے میڈیا نے کوریج کے لئے برباد کئے۔اور پھر اسی سے متعلق خبریں۔جیسے ایس۔ایس۔پی کی معطلی۔پھر مراد علی شاہ اور وزیراعظم کا دخل۔پورے 2دن یہی خبر میڈیا پر چھائی رہی۔کیا فاٹا میں ہونے والے واقعہ کی کوئی اہمیت ہی نہ تھی؟۔شاید اس لئے کہ وہ دوردراز علاقے فاٹا میں ہواتھا۔اور پھر کسی بھیVIPشخصیت کو ادھر جانے کی توفیق نہیں ہوئی۔اور شاید خبر بھی VIPہی بناتے ہیں۔عام لوگ چاہے کتنے ہی مرجائیں زخمی ہوں۔ہسپتالوں میں جگہ نہ ملے میڈیا ایسی باتوں کو اہمیت ہی نہیں دیتا۔اگر وہاں کوئی گیا بھی تو صرف افواج پاکستان کے جوان۔نہ گورنر اور نہ وزیر اعلیٰ کو توفیق ہوئی۔وزیر داخلہ اور وزیر اعظم کا رسمی افسوس کا بیان کم ازکم میں نے تو نہیں سنا۔میڈیا کسی ایک سیاسی خبر کو لیکر رات گئے تک اسکے بخیے ادھیڑ تارہتا ہے۔اکثر یہ دیکھنے میں آتا ہے۔کہ بہت سے چینل پر ایک ہی شخص گفتگو کرتا نظر آتاہے۔کوئی چینل 2گھنٹے پہلے پروگرام ریکارڈ کرلیتا ہے۔کوئی دوسرا چینل ایک گھنٹے پہلے کوئی Liveدکھا رہا ہوتا ہے۔اور کوئی Liveکے بعد دوبارہ اسی پروگرام کو نشر کررہا ہوتا ہے۔ذراء سوچنا چاہیے کہ ہمارے میڈیا کو کیا ہوگیا ہے؟۔پنڈی کا سیاستدان جس کی قومی سیاست میں کوئی اہمیت ہی نہ ہے۔ہر چینل اس سے وقت لینے کے لئے تگ ودو میں مصروف نظر آتا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ افلاطون اور ارسطو کی سیاست پر کتابیں شاید شیخ رشید کی روح سے مشورے کے بعد لکھی گئی ہوں۔اور روسو کا ـ"معاہدہ عمرانی"جناب شیخ کے مشورہ سے معرض وجود میں آیا ہو۔مجھے تو ان اینکرز کی عقل پر ماتم کرنے کو دل چاہتا ہے جو انہیں سامنے بیٹھا کر 20۔کروڑ لوگوں کا وقت ضائع کررہے ہوتے ہیں۔حکومتوں کے جانے کی فضول اور بے ہودہ باتیں۔عقل نام کی شے اس شخص کی گفتگو میں سرے سے نہیں ہوتی۔کبھی عمران کی جھولی میں اور کبھی مسٹر طاہر القادری کے چرنوں میں۔کیا دنیا کے کسی اور ملک کا میڈیا بھی ایسے لوگوں کو اہمیت دیتا ہے۔Rankingکے موجودہ طریقے کار کو بدلنا ضروری ہے۔حقائق کی بنیاد پر چینل کی درجہ بندی ہونی چاہیئے۔پھر یہ بھی تو دیکھا جائے کہ کیا پاکستان میں پائے جانے والے باقی تمام شعبوں کے مسائل حل ہوگئے ہیں۔کہ اب میڈیا نے صرف اور صرف پوری توجہ سیاست اور وہ بھی چھوٹی چھوٹی سیاسی باتیں۔آخر رینجرز والے چند دن پہلے بھی خواجہ اظہار کو اور فاروق ستار کو اپنے ساتھ لے گئے تھے۔اب اگر پوچھ گچھ کے لئے ساتھ لے جانا چاہتے تھے۔تو کونسی قیامت ٹوٹ پڑی تھی۔کہ قومی میڈیا نے پوری توجہ صرف اور صرف اس ایک شخص کی طرف کرلی۔گرفتار کرنے کے مناظر پورے2۔دن دکھائے جاتے رہے۔جتنا بھی اس پر غور کیاجائے اس واقعہ کی اہمیت وہ نہیں بنتی جو قومی میڈیا نے دکھائی۔اس ملک پاکستان میں تعلیم بہت بری حالت میں ہے۔کیا میڈیا نے ادھر کبھی توجہ دی۔زیادہ سے زیادہ اتنا ہی ہوتا ہے کہ سال بھر میں کوئی ایک پروگرام کرلیا۔لیکن تعلیم جو زبوں حالی کا شکار ہے۔زوال پذیر ہے۔میڈیا نے اس مسٔلہ کو اس حیثیت سے کبھی اجاگر نہیں کیا۔ابھی ابھی اقوام متحدہ نے رپورٹ شائع کی ہے کہ پاکستان میں تعلیم50۔سال پیچھے ہے۔پرانے طریقے۔پرانے نصابات اور معلومات سے محروم اساتذہ۔ایسے ایسے اساتذہ تعلیم سے وابستہ ہیں جنہیں دور جدید کی ہوا بھی نہیں لگی۔ سائنس، ٹیکنالوجی اور سماجی علوم کن بلندیوں پر پہنچ گئے ہیں۔انہیں سرے سے کوئی پتہ ہی نہیں۔کیا ایسے اساتذہ کے ذریعے ہم ترقی کرپائیں گے؟۔دیہاتوں میں ایسے اساتذہ کی بھر مار ہے۔اور اب تک شرح خواندگی 55۔فیصد ہے۔یونیورسٹیاں اور کالجز تحقیق و تخلیق سے سرے سے بے بہرہ صرف اور صرف ڈگریوں اور سرٹیفیکٹس کی تقسیم۔2کروڑ بچے سکولوں ہی سے باہر۔کیا اینکرز کو یہ منظر نامہ نظر نہیں آتا۔صحت کا حال اس سے بھی برا ہے۔اسلام آباد۔لاہور اور کراچی کے سرکاری ہسپتالوں پر کوئی پروگرام تفصیل سے کیاگیا۔ان پروگراموں سے کیا حکومت ہسپتالوں کی طرف متوجہ ہوئی؟۔البتہ اگر وزیراعظم اور وزیراعلیٰ نے کسی دن ہسپتال جانا ہو۔تب یہ لوگ کیمرے سنبھالے پہلے ہی پہنچ جاتے ہیں۔تاکہ حکمران میڈیا کے بارے اچھا تاثر رکھیں۔صحت کے نظام میں کوئی Check and Balanceنہیں ہے۔نہ دوائی اور نہ ڈاکٹر اپنے ٹھکانے پر۔کچھ بھی وقت پر موجود نہیں ہوتا۔کیا کبھی میڈیا کے اکثریت نے سکولوں اور ہسپتالوں کی حالت زار پر ایسا پروگرام کیا ہے جیسا گزشتہ جمعہ کو خواجہ اظہار الحسن کی گرفتاری پر اور گرفتاری بھی عارضی۔غربت اور بے روزگاری بھی ہمارے دہکتے کوئلے کی طرح کے مسائل ہیں۔صرف اور صرف ان خاص مسائل کو زیر بحث لایا جائے۔تاکہ حکومت کو احساس ہو اور ان دونوں مسائل کو حل کرنے کے لئے حکومت وسائل مہیا کرلے۔حتیٰ کہ غربت،خوشحالی میں بدل جائے۔بے روزگار لوگ برسرروزگار ہوجائیں۔اب تو باہر سے بھی لوگ واپس آنا شروع ہوگئے ہیں۔بے روزگاروں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔میڈیا اس طرف بھی بھر پور توجہ دے۔کیامعاشرہ اخلاقی زوال کا شکار نہ ہے۔کیا چینلز اور اخبارات نے مسلم اخلاقی اقدار کی بحالی کے لئے کوئی رول اداکیا؟۔ناچ۔گانے سے قومیں نہیں بنتی۔یہ صرف تفریح کا ذریعہ ہوتے ہیں۔اب تو نیوزچینل بھی کسی نہ کسی بہانے اس کام میں لگ گئے ہیں۔بات چینلز کے سیاست زدہ ہونے سے شروع ہوتی تھی۔دوسرے موضوعات نے تو آنا ہی تھا۔چینلز پر خبریں بھی سیاسی اور تجزیے بھی سیاسی۔چینلز کو سیاست نے جکٹر لیا ہے۔قوم پرمہربانی کریں۔قوم کے جومعاشی،سماجی اور اخلاقی مسائل ہیں۔ان پر بھی توجہ دیں۔انہیں بھی اجاگر کریں۔ہروقت سیاست سیاست سنتے قوم تنگ آگئی ہے۔کچھ اور باتیں بھی کریں۔T.V پر نامور سائنسدانوں،سکالرز اور اساتذہ کوبھی موقع دیں۔
Prof Jamil Chohdury
About the Author: Prof Jamil Chohdury Read More Articles by Prof Jamil Chohdury: 72 Articles with 49381 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.