جولائی کے آغاز میں حریت پسند برہان وانی
کی شہادت سے لے کراب تک مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم کے نتیجے میں
خواتین اورگیارہ سالہ معصوم ناصر شفیع سمیت ایک سو سے زیادہ مظلوم کشمیر ی
لقمہ اجل بن چکے ہیں جبکہ زخمیوں کی تعداد بارہ ہزار سے زائد ہے۔ان میں
زیادہ تعداد جانوروں کے لئے بنائی جانے والی پیلٹ گن سے زخمی ہونے والوں کی
ہے، جس کے کارتوسوں سے نکلنے والے بے ڈھنگے اور نوکیلے چھروں سے ہزاروں
کشمیری اپنی بصارت کھو بیٹھے ہیں۔بھارتی فوج کے دباؤ پرپیلٹ گن سے زخمی
ہونے والے کشمیریوں کا مقبوضہ کشمیر کے ہسپتالوں میں علاج نہیں کیا جاتا ،کشمیر
سے باہر بھی پیلٹ گن کا شکار کسی شہری کے علاج پر دولاکھ روپے سے زائد خرچ
آتا ہے ۔ ظاہر ہے جس غریب کے پاس یہ رقم نہیں ہے وہ یا تو زندگی کی بازی
ہار جائے گا یا عمر بھر کی معذوری اس کا مقدر ہوگی ۔ تحریک آزادی کشمیر نے
بے شمار اتارچڑھاؤ دیکھے ہیں لیکن مقبوضہ وادی کے عوام میں بھارت سے نفرت
اورآزادی کی لگن رائی برابر کم نہیں ہوئی ۔ ماضی میں پاکستانی نوجوان بھی
مقبوضہ وادی میں بھارتی فوج سے لڑنے کے لئے جاتے رہے ہیں لیکن موجودہ حالات
میں یہ ممکن نہیں رہا۔مقبوضہ وادی میں آزادی کی تحریک کی موجودہ لہر خالصتاََ
مقامی ہے ۔کشمیریوں کو پاکستان کی اخلاقی ،سفارتی اور سیاسی حمایت ضرور
حاصل ہے لیکن یہ اتنی زوردار نہیں کہ بھارت کے زوردار منفی پروپیگنڈے کا
مقابلہ کر سکے یا اس سے کشمیریوں کی تحریک آزادی کو خاطر خواہ فائد ہ پہنچے
۔ غنیمت ہے کہ میاں نواز شریف جب بھی اقتدار میں آتے ہیں وہ کشمیر کیلئے
بلند آہنگ نعروں کی بجائے خاموشی سے عملی طور پر کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں
جس کے لئے انہیں آزاد کشمیر کی قیادت کی مکمل حمایت آج بھی میسرہے۔
ایسے وقت میں جب وزیراعظم محمد نواز شریف اقوام متحدہ میں عالمی برادری کے
سامنے مقبوضہ کشمیر کے شہریوں پر بھارتی مظالم کا مقدمہ پیش کرنے نیو یارک
پہنچے تو مقبوضہ کشمیر کے اُڑی سیکٹر میں بھارتی فوج کے ہیڈکوارٹر پر حملے
کا واقعہ پیش آگیا ہے ۔اس سے پہلے کے حملہ آوروں کو پکڑا جاتا یا مار دیا
جاتاوزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ سمیت بھارتی سیاستدانوں اور میڈیا نے بدترین
تعصب کا مظاہر ہ کرتے ہوئے اس حملے کا سار ا نزلہ پاکستان پر گرادیا۔بھارت
کی طرف سے بھانت بھانت کی بولیاں بولی جارہی ہیں ۔سری نگر میں تعینات
بھارتی فوج کی پندرہویں کور کے ترجمان کا کہنا ہے کہ حملہ آور چند روز پہلے
اڑی ہیڈ کوارٹر سے بیس کلومیٹر دور لائن آف کنٹرول عبور کر کے مقبوضہ کشمیر
میں داخل ہو گئے تھے ،بھارتی فوج کے ڈی جی ملٹری آپریشنزلیفٹیننٹ جنرل
رنبیر سنگھ فرماتے ہیں کہ حملہ آوروں سے پاکستانی اسلحہ ملا ہے۔ بھارتی فوج
کے ایک اور بیان کے مطابق حملہ آور رات کو ہی فوجی ہیڈ کوارٹر میں داخل ہو
گئے تھے لیکن انہوں نے حملے کے لئے صبح ہونے کاانتظار کیا۔صاف نظر آرہا ہے
کہ بھارتی فوج کی طرف سے پاکستانی فوج پر الزام عائد کیا جارہا ہے ۔رنبیر
سنگھ صاحب کے تو لگتا ہے بارہ بج گئے ہیں ،ان کو عقل کی گولی کھانی چاہیے ،کیا
پاکستانی فوج اندھی ہے کہ وہ حملہ آور بھی بھیجے اور ان کے ہاتھوں میں میڈ
اِن پاکستان اسلحہ بھی تھما دے؟؟بھارت کو چاہیے کہ وہ ’’اپنی منجی تھلے
ڈانگ پھیریــ‘‘۔
حقیقت یہ ہے کہ اُڑی کا فوجی ہیڈ کوارٹر جموں میں واقع ہے جہاں اکثریت
ہندوآبادی کی ہے ۔اس سیکٹر میں لائن آف کنٹرول پر نصب آہنی باڑ کے باوجود ،لیز
ر کے ذریعے لائن آف کنٹرول کی نگرانی کی جاتی ہے اور پھر سراغ رساں کتے بھی
نگرانی کے لئے موجود ہیں ۔اس کے باوجود ایک لمحے کے لئے اگر بھارت کے یہ
الزامات سچ مان لئے جائیں کہ ہندو اکثریتی آبادی میں پاکستانی حملہ آورکئی
دن تک چھپے رہے ،حملے سے ایک رات پہلے چاروں حملہ آور بغیر کسی رکاوٹ فوجی
ہیڈ کوارٹر میں گھس گئے اور ساری رات آرام فرماتے رہے اورپھر علی الصبح
حملہ کردیا تو پھر اس کا الزام پاکستان پر لگانے سے پہلے بھارت کو اپنی
نکمی فوج کے ساتھ ساتھ اپنی عقل سے عاری اوربصارت سے محروم خفیہ ایجنسیوں
کے کان کھینچنے چاہئیں ۔چار حملہ آوروں اور مرنے والے سترہ بھارتی فوجیوں
میں سے کسی ایک کی لاش کا اب تک منظر عام پر نہ آنا اس بات کا ثبوت ہے کہ
دال میں کچھ کالا نہیں بلکہ ساری دال ہی کالی ہے۔بھارت قیادت پر لازم ہے کہ
وہ اب ہوش کے ناخن لے۔زبردستی یا جبر سے تو آپ ایک کتے کو پابند نہیں کر
سکتے ،اس طر ح کے ٖڈراموں اور لاکھوں فوجیوں کے بل پر کتنی دیر آپ کشمیر پر
قبضہ برقرار رکھ سکیں گے ؟اس سے پہلے بمبئے حملہ کے بارے میں بھی کراچی سے
حملہ آوروں کی کشتی پر بمبئے جانے کی ناقابل یقین کہانی گھڑی گئی لیکن اجمل
قصاب کے’’ رام‘‘ اور ہیمنت کرکرے کی ہلاکت کا کوئی جواب بھارت سے آج تک
نہیں بن پڑا۔پٹھان کوٹ کے بھارتی ائر بیس پر حملے کے وقت بھی اس کاالزام
پاکستان پر عائد کیا گیا لیکن بعد میں خود بھارت کی قومی تحقیقاتی ایجنسی
کے ڈی جی شرد کمار نے تسلیم کیا کہ پٹھان کوٹ حملے میں پاکستان کا کوئی
کردار نہیں ۔سمجھوتہ ایکسپریس پر حملہ تو بھارتی فوج کی کھلی دہشتگردی ثابت
ہوئی لیکن افسوس کہ پاکستان اس طرح کے واقعات کو عالمی برادری کے سامنے اس
طرح پیش نہیں کر سکا جس طرح کیا جانا چاہیے تھا۔اگر اس طرح کے معاملات اور
کل بھوشن کی گرفتاری سمیت بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے ٹھوس ثبوتوں کے
ساتھ پاکستان جارحانہ سفارتی پالیسی اختیار کرتا تو بھارت جو مقبوضہ کشمیر
میں تحریک آزادی کی نئی لہر سے حقیقتاََ پریشان ہے اسکے چودہ طبق روشن ہو
جاتے کیونکہ اب خود نئی دلی میں بھی مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی آوازیں بلند
ہو رہی ہیں ۔ وزیراعظم نے دنیا بھر میں کشمیر کا مقدمہ لڑنے کے لئے ارکان
پارلیمنٹ کو بھیجنے کا عندیہ تو دیا ہے لیکن نواب وسان جیسے وکیل ہوں
توکشمیر کا مقدمہ آپ کیسے جیتیں گے؟اس وقت اگر پاکستان پوری تیار ی کے ساتھ
بھرپور طریقے سے اقوام عالم کے سامنے کشمیر کا مقدمہ پیش کرتا ہے تو نریندر
مودی واقعتا پاکستان کے لئے ایک تحفہ ثابت ہو سکتا ہے۔
پاکستانی فوج دہشتگردی کے خلاف جنگ میں اندرونی طور پر اتنی الجھی ہوئی ہے
کہ وہ اس طرح کے ایڈونچرز کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ بھارت ہر لحاظ سے ایک بڑ
املک ہے لیکن اگر وہ سمجھتا ہے کہ اس بڑائی کو وہ دوسروں کو دبانے کے لئے
استعمال کر سکتا ہے تو یہ اس کی بھول ہے ۔ بھارتی قیادت کو چاہیے کہ وہ
اعلیٰ ظرفی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے پاکستان اور
کشمیریوں کے ساتھ مل کر سنجیدہ اقدامات کرے تاکہ جنوبی ایشیا میں ستر برس
سے جاری تناؤ کی کیفیت ختم ہو ۔ پاکستان اور بھارت دو اچھے ہمسایوں کی طرح
مل کر رہیں تاکہ یہ خطہ ترقی کرے اور یہاں کے عوام خوشحال ہوں۔ |