سوکھا پاکستان اور ڈوبتا کشمیر

 پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعہ کشمیر پر کشید گی کا رخ اب اصل تنازعے پانی کے ذخائر کی طرف منتقل ہورہا ہے۔ انتہا پسند بی جے پی حکومت سندھ طاس کے معاہدے کا معاملہ اٹھا کر پاکستان کو تنازعہ کشمیر پر عالمی سرگرمیوں سے روکنا چاہتی ہے۔ بھارتی انتہا پسند عناصر اپنی حکومت پر دباو بڑھا رہے ہیں کہ سندھ طاس معاہدہ توڑ کر جموں و کشمیر کے پانی کے ذخائر کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا جائے نتیجے میں سوکھا پاکستان بھارت کی تابع داری پر مجبور ہو جائے گا۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ایسے عناصر کی تسکین کے لیے 26 ستمبر2016 کو نئی دہلی میں اعلی سطحی اجلاس بلایا اور غور کیا کہ بھارتی حکومت سندھ طاس معاہدے کے تناظر میں پاکستان کو کس حد تک دباو میں لاسکتی ہے ۔ بی جے پی کے سرکردہ رہنما اور سابق بھارتی وزیر یشونت سنہا نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ دہشت گردوں کی سرپرستی پر سندھ طاس معاہدہ منسوخ کرکے سرپرائز دیا جائے۔ سندھ طاس معاہدہ توڑ کر سوکھے پاکستان کی خواہش تو کی جاسکتی ہے مگر یہ معاملہ اتنا آسان بھی نہیں ہے ۔ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی سے بھارتی بین الاقوامی قوانین توڑنے کا مرتکب ہو گا اور اسے عالمی سطح پر شدید دباؤ اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اگر بھارت سندھ طاس کے عالمی معاہدے سے دستبردار ہوتا ہے تو یہ ایک قانونی معاہدے کی خلاف ورزی ہو گی جس کی وجہ سے بھارت بین الاقوامی سطح دباو کا سامنا کرے گا۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان اور بھارت پانی کی تقسیم کے فارمولے پر عملدرآمد کرنے کے پابند ہیں ۔بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو یہ بات بھی بتائی گئی کہ سندھ طاس معائدے کو توڑنے پر چین بھارت کے خلاف جوابی کارروائی کر سکتا ہے ۔ چین سے بھارت کی طرف بہتے والا دریا برہم پترا بھارت کی 36 فیصد آبی ضروریات پوری کر رہا ہے۔دریا برہم پترا کے پانی کے حصول کے لیے بھارت اور چین کے درمیان کوئی معائدہ موجود نہیں ہے چنانچے چین حرکت میں آیا تو بھارت کے لیے معاملہ سلجھانا مشکل ہوجائے گا۔ چین اس دریا کا رخ موڑ کر بھارت کو اس پانی سے محروم کر سکتا ہے۔چین چاہتاہے کہ اس دریا کا پانی وسطی اور مغربی چین میں استعمال کیا جائے۔ اگر چین بھارت کا پانی روکتا ہے تو اس کے لئے کوئی قانونی مشکل نہیں ہے۔بھارتی حکام بخوبی جانتے ہیں کہ پاکستان کا پانی روک کر خود بھی پانی سے محروم ہونے کی احمقانہ کوشش بھارت کے لئے کتنی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔۔ برہم پترا تبت کے علاقے Yarlung Zangbo سے شروع ہو کر بے آف بنگال کی طرف جاتا ہے۔ بھارت اور بنگلہ دیش دونوں برم پترا کے پانی سے مستفید ہوتے ہیں۔ چین میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ برہم پترا کے پانی سے بھارت کو محروم کر سکے۔ چین نے اس دریا پر گیارہ چھوٹے ڈیم بنا رکھے ہیں۔

بھارت کے لیے مشکل صرف چین کا ردعمل ہی نہیں روکے گئے دریائی پانی کا بھی ہو سکتا ہے۔ بھارت پاکستان کی طرف جانے والے دریاؤں کا پانی روکتا ہے تو اس سے مقبوضہ کشمیر اور بھارتی پنجاب شدید سیلاب کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔چنانچے بھارتی اقدام سوکھتے پاکستان کے ساتھ ڈوبتے کشمیر کی خواہش ہو سکتی ہے ۔بھارت سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اس لئے کہ بھارت کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔واضح رہے کہ سندھ طاس معاہدہ توڑ کر پاکستان کا پانی روکنے کی دھمکی دراصل پاکستان کو دباؤ میں لانے کی ایک کوشش ہے۔ بھارت سندھ طاس معاہدے کے تحت انڈس، چناب اور جہلم کا پانی پاکستان کو دینے پر مجبور ہے ۔ سندھ طاس معاہدے پر 1965ء میں بھارت کے پہلے وزیراعظم نہرو اور پاکستان کے اس وقت کے صدر ایوب خان نے دستخط کئے تھے۔ اس معاہدے کا ضامن عالمی بینک ہے جس نے معاہدے کے ضمن میں ایک دہائی تک مذاکرات اور بات چیت کے عمل کی میزبانی کی۔ اس معاہدے کے تحت دریائے ستلج اور راوی بھارت اور انڈس چناب اور جہلم پاکستان کے حصے میں آئے تھے۔کشمیر پاکستان کے لیے اس لیے بھی ضروری ہے کہ پاکستان کو سندھ طاس معاہدے کے تحت حاصل پانی کے ذخائر مقبوضہ کشمیر میں ہیں اس لیے مسئلہ صرف پانی کا ہے اور جھگڑا بھی صرف پانی کا ہی ہے۔پڑبھارت کی چین کے ساتھ ناراضگی کی بنیاد بھی پانی ہی ہے۔دنیا بھر میں پانی کے ذخائر کم ہو رہے ہیں اسی طرح جنوبی ایشیا کے اس خطے میں پانی کے مسائل سر اٹھا رہے ہیں۔ پاکستان کی طرف بہنے والے پانی کے زیادہ تر ذخائر جموں کشمیر میںواقع ہیں۔بھارت پانی کے ان ذخائر کے اوپر والے حصوں پر قابض ہے جس کی وجہ سے ایک طرح سے ان ذخائر پر بھارت کا مکمل کنٹرول ہے۔پاکستان کی شکایت رہی ہے کہ بھارت پاکستان کی طرف بہنے والے پانی کی مقدار کبھی زیادہ اور کبھی کم کر دیتا ہے چنانچہ خشک سالی میں پانی کی کمی سے پاکستان کے کھیت بنجر بن سکتے ہیں اور مون سون کے موسم میں پانی کی زیادتی سے پاکستان بلخصوص پنجاب کے بیشتر علاقے پانی میں ڈوب جاتے ہیں۔پاکستان کی طرف آنے والے ان پانی کے ذخائر پر بگلیہار ڈیم ،کشن گنگا ڈیم کے علاوہ بھارت 60 نئے منصوبے شروع کر رہا ہے۔بگلیہار ڈیم کے علاوہ کشن گنگا ڈیم کی تعمیر پر بھی پاکستان کے تحفظات اس لیے تھے کہ ان منصوبوں کے ذریعے پاکستان کی طرف بہنے والے پانی کے بہائو میں کمی ہو گی چنانچہ پاکستان ان مسائل کو عالمی عدالت انصاف میںلے گیا۔بگلیہارڈیم 450 میگاواٹ بجلی پیدا کررہا ہے۔2018 میں تعمیل کے بعد اس کی پیداوار دو گنا یعنی 900 میگا واٹ ہو جائے گی۔مقبوضہ کشمیر میں 600 نئے پاور منصوبوں کے ذریعے بھی 3000 میگا واٹ سے زیادہ بجلی پیدا ہونے کاتخمینہ ہے۔پانی کے ان ذخائر میں کشن گنگا ڈیم کی اہمیت پاکستان کے لیے غیر معمولی ہے۔اس لیے کشن گنگا ڈیم سے گزر کر پانی آزاد کشمیر میں دریائے نیلم کا حصہ بھی بنتا ہے اگر اس ماخذ سے پانی کی کمی واقع ہو جائے تو دریائے نیلم پر 960 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ متاثر ہو سکتا ہے۔پاکستان اور بھارت کے درمیان 1960 میں سندھ طاس معاہدہ ہوا اس معاہدے کے ذریعے دریائے سندھ کے پانی کی تقسیم کے علاوہ جموں و کشمیر کے آبی ذخائر کا معاملہ بھی حل کیا گیا تھا۔پاکستان کے بگلیہار ڈیم اور کشن گنگا ڈیم پر تحفظات موجود ہیں پاکستان کی5 کروڑ 40 لاکھ ایکڑ اراضی کو دریائے سندھ سیراب کرتا ہے۔ماہرین بہت پہلے کہہ گئے تھے کہ اب جنگیں پانی پر ہوں گی۔اس تناظر میں اب یہ کہا جائے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کے تنازعہ پر تین جنگیں ہو چکی ہیں تو مناسب ہو گا کیونکہ اصل مسئلہ پانی کے ذخائر کے کنٹرول کا ہے۔پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے تنازعہ کو اگر نیا نام دے دیا جائے تو اسے پانی کا تنازعہ کہا جا سکتا ہے۔ اس تناظر میں مودی پاکستان کی توجہ کشمیر سے ہٹا کر سندھ طاس معاہدے پر لگانا چاہتا ہے تو یہ بھی کشمیر تنازعہ ہی ہوگا۔
Sardar Ashiq Hussain
About the Author: Sardar Ashiq Hussain Read More Articles by Sardar Ashiq Hussain: 58 Articles with 55878 views
The writer is a Journalist based in Islamabad. Email : [email protected]
سردار عاشق حسین اسلام آباد میں مقیم صحافی ہیں..
.. View More